Daily Roshni News

عیسیٰ علیہ السلام ایک نوجوان کے پاس سے گزرے۔۔

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )حکایت ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام ایک نوجوان کے پاس سے گزرے جو باغ کو پانی دے رہا تھا۔نوجوان نے عیسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ خدا سے میرے واسطے سوال کریں کہ اللہ مجھے اپنی محبت کا ایک ذرہ مجھے عنائیت کرے ۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ تو ایک ذرہ برداشت نہیں کر سکے گا ۔کہا نصف ذرہ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے دعا کی کہ یا الٰہی اسے اپنی محبت کا نصف ذرہ عطا کردے ،پھر چلے گئے،مدت گزرنے کے بعد اس نوجوان کے مکان کے پاس سے گزرنے کا اتفاق ہوا ،اسکا حال دریافت کیا،کہا گیا وہ تو ممنون ہو کر پہاڑوں میں نکل گیا ہے ،پہاڑوں میں جاکر کیا دیکھتے ہیں کہ وہ ایک پتھر پر بیٹھا ہوا ہے اور آنکھیں آسمان کی طرف اٹھائی ہوئی ہیں،عیسیٰ علیہ السلام نے اسلام علیکم کہا ،اس نے جواب نہ دیا ،پھر عیسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ میں عیسیٰ ہوں ،تو مجھے شناخت نہیں کرتا ،اللہ نے عیسیٰ علیہ السلام کو کہلا بھیجا کہ جس کے دل میں میری محبت کا نصف ذرہ ہو وہ آدمیوں کا کلام کیونکر سنے،قسم ہے مجھے اپنی عزت و جلالت کی اگر تو اس کو آرا سے کاٹ ڈالے تو اس کو معلوم بھی نہ ہوگا۔

(مکاشفتہ القلوب)

حضور غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رح ‘الفتح الربانی’ میں فرماتے ہیں کہ ”ہمارا پروردگار موجود ہے اور اُسے دیکھا جا سکتا ہے۔ اور صاحبِ یقین و معرفت انسان کے لیے دو ظاہری اور دو باطنی آنکھیں ہیں۔ پس وہ ظاہری آنکھوں سے زمین پر بسنے والی مخلوق کو دیکھتا ہے اور باطنی آنکھوں سے آسمان پر بسنے والی مخلوق کو دیکھتا ہے۔ اِس کے بعد اُس کے دل سے تمام پردے اُٹھا دیے جاتے ہیں اور پھر وہ اللّٰہ تعالیٰ کی ذاتِ اقدس کو بلاشبہ و بلاکیف دیکھتا ہے اور مُقرب و محبوبِ خُدا بن جاتا ہے۔”

یہ حقیقت ہر باشعور انسان پر عیاں ہے کہ انسان کا ایک ظاہری جسم ہے جو دیکھا جا سکتا ہے اور ایک باطنی جسم ہے جسے روح, دل یا قلب کے اندر کا انسان یا ضمیر کہا جاتا ہے, جو کہ ظاہری نظروں سے چھپا ہُوا ہے۔ یہ باطنی انسان ہی اصل انسان ہے۔ ظاہری جسم اِس باطنی انسان کے لیے اِس دنیا میں محض لباس کا کام دیتا ہے۔ یہ جسم اِسی دنیا میں تخلیق ہوتا ہے اور باطنی انسان یا روح کے, اپنے اصل وطن واپسی کے وقت, یہ جسم اسی دنیا میں ہی رہ جاتا ہے۔ وہ انسان جو اللّٰہ کی طرف سے آیا اور جسے واپس لوٹ کر اللّٰہ کے ہاں جوابدہ ہونا ہے, باطن کا حقیقی انسان ہے۔ “بے شک ہم اللّٰہ کی طرف سے ہیں اور اللّٰہ کی طرف ہی ہمیں لوٹ کر جانا ہے۔”

اللّٰہ کا دیدار کرنا, اللّٰہ کی معرفت اور پہچان حاصل کرنا, اِسی باطنی انسان یا روح کا کام ہے کیونکہ اِس کا تعلق اللّٰہ سے ہے۔ اور اِس تعلق کی وضاحت قرآن پاک کی اِس آیت سے ہوتی جہاں اللّٰہ تعالیٰ فرشتوں سے ارشاد فرماتا ہے کہ ”جب میں اِسے ٹھیک بنا لوں اور ”اِس میں اپنی روح پھونک دوں” تو تم اِس کے آگے سجدے میں گر پڑنا” (سورہ الحجر, آیت 29)

یہی روح, اللّٰہ کا قُرب و دیدار حاصل کرنے کے لیے, بےتاب رہتی ہے۔ اللّٰہ کا دیدار بھی ظاہری آنکھوں نے بصارت سے نہیں بلکہ روح نے نورِ بصیرت سے کرنا ہے۔ جو ارواح نور بصیرت حاصل نہیں کرتیں اُن کے بارے میں اللّٰہ تعالیٰ فرماتا ہے “کیا اِن لوگوں نے زمین میں سیر نہیں کی ہے کہ اُن کے پاس ایسے دل ہوتے جو سمجھ سکتے اور ایسے کان ہوتے جو سُن سکتے, اس لئے کہ دَرحقیقت آنکھیں اندھی نہیں ہوتی ہیں بلکہ وہ دل اندھے ہوتے ہیں جو سینوں کے اندر پائے جاتے ہیں۔” (سورہ الحج, آیت 46)

Loading