“شادی لڑکیوں کا مقصد حیات نہیں”
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )ہمارے معاشرے میں لڑکیوں کی جلدی شادی ہو جائے اور انھیں اچھا شوہر مل جائے باقی ساری چیزیں ثانوی حیثیت رکھتی ہیں یعنی اگر لڑکی بہت ذہین ہے پوزیشن لیتی ہے، اس کا آگے مستقبل بہت روشن ہے لیکن والدین کے لئے یہ کچھ بھی نہیں جب تک اس کا کہیں اچھی جگہ رشتہ نہ ہو جائے یعنی والدین کے نزدیک لڑکیوں کا مقصد حیات صرف اور صرف اچھی جگہ شادی ہے جبکہ ایسا نہیں ہے دنیا میں اور بھی غم ہیں اس غم کے سوا جب کسی لڑکی کی اچھی جگہ شادی ہوجاتی ہے تو بس اب سمجھ لیا جاتا ہے کہ اس کی زندگی سنور گئی اور اگر کسی لڑکی کی بری جگہ شادی ہوجاتی ہے تو بس زندگی برباد ہو گئی جبکہ ایسا نہیں ہے بری جگہ شادی سے زندگی برباد نہیں ہوتی زندگی اللہ کا بہترین عطیہ ہے یہ اتنی آسانی سے برباد نہیں ہو جاتی جب تک ہم خود اسے برباد نہ کریں لیکن مسئلہ ہمارے معاشرے کا ہے طلاق کو اتنا بڑا ہوا بنالیا ہے کہ خاص کر متوسط طبقے کی عورت طلاق کو اپنے لئے بہت بڑا عیب سمجھتی ہے صرف ایک طلاق کے لفظ سے بچنے کے لئے وہ شوہر کا ظلم سہتی ہے اور پوری زندگی سسکتے گزار دیتی ہے،
شادی کا اصل مقصد کیا ہے۔۔۔؟
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں ”ہم نے جوڑے بنائے تاکہ وہ ایک دوسرے سے سکون حاصل کریں“ اللہ تعالیٰ نے جوڑے صرف مرد کے سکون کے لئے نہیں بنائے کہ عورت ہر قسم کی زیادتی خاموشی سے سہتی رہے بلکہ جتنا سکون کا حق مرد کو ہے اتنا ہی عورت کو بھی ہے اگر دونوں میں سے کوئی ایک بھی ازدواجی زندگی میں پر سکون نہیں اور مسلسل ظلم کا شکار ہے تو اللہ تعالیٰ نے طلاق کا راستہ رکھا ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر اتنا ظلم نہیں کیا کہ وہ نا چاہتے ہوئے بھی ایک دوسرے کو برداشت کریں اور زبردستی ساتھ رہیں لیکن یہ ظلم تو ہمارا معاشرہ کرتا ہے ہمیشہ عورت کو دبنے اور سب کچھ برداشت کرنے کا کہا جاتا ہے اسے بار بار یہ یاد دلایا جاتا ہے کہ گھر عورت ہی بناتی ہے جبکہ وہ گھر گھر کیسے بنے گا جس کا ایک فرد ظلم کا شکار ہو رہا ہو وہ گھر گھر نہیں عقوبت خانہ بن جاتا ہے چاہے وہ یہ ظلم خاموشی سے سہے یا احتجاج کر کے،
بہت خوش نصیب ہوتی ہیں وہ بیٹیاں جن کے پیچھے ان کو سہارا دینے کے لئے کوئی نہ کوئی موجود ہوتا ہے لیکن ہمارے غریب اور متوسط طبقے کی بیٹیاں اکثر اس سہارے سے محروم ہیں ہمارے غریب گھرانوں میں خاص کر جہاں بیٹیاں زیادہ ہیں بیٹیوں کی شادی کرنے میں زیادہ تحقیق نہیں کرتے وہ بس بیٹیوں کے فرض سے جلد از جلد فارغ ہونا چاہتے ہیں انھیں تو لڑکیوں کی تعداد دیکھ دیکھ کر ہول اٹھ رہے ہوتے ہیں ہائے پانچ پانچ بیٹیاں ہیں کیسے شادیاں ہوں گی، اب تو ساری ہی جوان ہو گئی ہیں دوسرے لوگوں کے منہ سے بھی اسی طرح کے جملے سننے کو ملتے ہیں جبکہ یہ لڑکیاں کسی نے گفٹ میں نہیں دی تھیں ان کے دنیا میں آنے کا سبب والدین ہی ہیں اتنے ہی بچے دنیا ہیں لانے کا سبب بنیں جتنے آپ سنبھال سکتے ہیں بچے سنبھالنے کی صلاحیت ہے نہیں اور آٹھ نو بچے پیدا کرلئے زیادہ بچے ہونے کی وجہ سے نہ تعلیم دے سکے اور نہ تربیت، بیٹیاں زیادہ ہو گئیں تو ان کی ہر ایرے غیرے کے ساتھ جلدی جلدی شادیاں کر دی لڑکوں میں کوئی چور بن گیا کوئی چرسی تو ایسی زیادہ اولاد سے کیا فائدہ بلکہ آخرت میں ان سب کے بارے میں جواب دینا ہو گا ہر عقلمند تعداد کی بجائے معیار کو ترجیح دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ کیوں تعداد پر زور دیں گے ہاں آپ اگر دس کی اچھی تربیت کر سکتے ہیں انھیں اچھی تعلیم دے سکتے ہیں تو دس بچے پیدا کریں ورنہ ایک ہی کافی ہے جس کو آپ بہتر انسان بنا سکیں یہ ایک بچہ ان دس بچوں سے بہتر ہو گا جنہیں آپ نہ تعلیم دے سکیں اور نہ اچھی تربیت،
لڑکیوں کی شادیوں کے لئے والدین تو پریشان ہوتے ہی ہیں کچھ پریشانی میں اضافی باہر کے لوگ بھی کرتے ہیں والدین کو بار بار لڑکیوں کے ماں باپ ہونے کا احساس دلایا جاتا ہے چنانچہ جو بھی ٹیڑھا میڑھا رشتہ آیا شادی کی اور جان چھڑائی اچھا ہو گیا تو بیٹی کی خوش قسمتی ورنہ اسے خاموشی سے سسرال میں ظلم ہی برداشت کرنا ہے والدین بھی خاموش رہنے کی ترغیب دیتے ہیں اور ڈھکے چھپے الفاظ میں پہلے ہی کہہ دیتے ہیں کہ جیسا بھی ہو یہیں رہنا ہے اگر تم نے طلاق لے لی تو لوگ کیا کہیں گے۔۔۔؟
تمھاری جو اتنی ساری بہنیں گھر بیٹھی ہیں ان کی شادیاں کیسے ہوں گی۔۔۔؟
ایسی لڑکی کی زندگی اندھیری بند گلی کی طرح ہو جاتی ہے۔ جس کے آگے کوئی راستہ نہیں،
کاش کہ ہمارے والدین اس بات کو سمجھیں کہ شادی مقصد حیات نہیں ہاں یہ زندگی کی ایک اہم ضرورت ہے لیکن ایسا بالکل نہیں ہے کے جسے طلاق ہو جائے تو اس کی زندگی برباد ہو گئی یا اگر کسی لڑکی کی شادی ہوئی ہی نہیں تو لوگ اس کو ترس بھری نگاہوں سے دیکھیں لڑکیوں کو اتنا مضبوط بنائیں کے انہیں مجبوراً ظلم نہ سہنا پڑے ان کے دلوں میں طلاق کا اتنا خوف نہ ڈالیں کہ طلاق کے خوف سے وہ ہر طرح کا ظلم برداشت کرتی رہیں اور اگر طلاق ہو جائے تو وہ اپنی زندگی کی ہر امید ہار جائیں جب لڑکیوں کی شادیاں کریں تو انہیں سر سے بوجھ کی طرح نہ اتاریں نکاح نامہ بہت ہی احتیاط سے پر کریں جو حقوق لڑکی کو حکومت کی طرف یا شریعت کی طرف سے ملیں ہیں وہ نہ چھوڑیں جیسے طلاق کا حق لڑکی اپنے پاس رکھ سکتی ہے تو یہ حق لڑکی کو ضرور دیں اس میں کوئی بری بات نہیں کیوں کہ حکومت نے حالات کو دیکھتے ہوئے ہی یہ حق لڑکی کو دیا ہے تاکہ بعد میں اسے عدالت کے چکر نہ لگانے پڑیں شادی کے علاوہ ان کی زندگی کا کوئی مقصد بنائیں کوئی گول منتخب کر نے میں ان کی مدد کریں ان سے پوچھیں کے وہ کیا بننا چاہتی ہیں اور انھیں یقین دلائیں کہ وہ سب کچھ کر سکتی ہیں اور اگر اس دوران شادی بھی کرتے ہیں تو اس بات کو یقینی بنائیں کہ اس کے سسرال والے لڑکی کو اس کا مقصد حاصل کر نے سے نہیں روکیں گے لڑکیوں کی شادی کریں لیکن خوب چھان بین کر کے کیوں کے آپ اپنی بیٹی دے رہے ہیں گھر میں پڑا پرانا فرنیچر نہیں۔
آڈیمن-
جانیاں_✍️