Daily Roshni News

سلسلہ عظیمیہ اور اس کی علمی و سماجی خدمات تحقیقی جائزہ ۔۔۔ تحریر۔۔۔ڈاکٹروقار یوسف عظیمی۔۔۔قسط نمبر3

سلسلہ عظیمیہ اور اس کی علمی و سماجی خدمات تحقیقی جائزہ

تحریر۔۔۔ڈاکٹروقار یوسف عظیمی

(قسط نمبر3)

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ سلسلہ عظیمیہ اور اس کی علمی و سماجی خدمات تحقیقی جائزہ ۔۔۔ تحریر۔۔۔ڈاکٹروقار یوسف عظیمی)پاکیزگی حاصل کر کے ایک ایسا بندہ بنا ہے جو خود کو اللہ تعالی کے بتائے گئے مثالی انسان کے سانچوں میں ڈھالنے کی کوشش کرتا ہے۔ اللہ تعالی آدمی کو جن مثالی باطنی اور ظاہری اوصاف کا مجموعہ دیکھنا چاہتے ہیں ان کے مطابق خود کو ڈھالنا تصوف ہے۔ اپنے نفس، ذہن اور قلب کو تمام آلائشوں سے پاک و مطہر کرنے کی جدوجہد کو تصوف کہتے ہیں۔ اسلام کا ایک مسلمان سے تقاضا ہے کہ وہ خود کو زیادہ سے زیادہ اللہ کا مطیع و فرمانبردار بنانے کی کوشش کرے چنانچہ اسلام کے اس اہم تقاضے کو تصوف میں بہتاہمیت دی جاتی ہے۔ خیر امت۔ امت وسط :رسول اللہ ﷺ نام اس دنیا میں تشریف لائے، آپ ﷺ کی بدولت جہالت کے اندھیروں میں ڈوبی عرب دنیا کو روحانی علمی ، فکری، سماجی اور معاشرتی انقلاب کی بنیاد مل گئی۔ حضور پاک ﷺ کے اس دنیا سے پردہ فرما لینے کے بعد صحابہ کرام اور بعد از میں ابعین، تبع تابعین ، علمائے حقد مین و صوفیائے عظام نے اس بنیاد پر اللہ کے پیغام کو اپنے اپنے پلیٹ فارم سے خوب خوب پھیلایا۔ ان گراں قدر شخصیات کی کوششیں اس آیت قرآنی کی زندہ تفسیر بن گئیں۔ ترجمہ: اور اس طرح ہم نے تم کو امت معتدل بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور پیغمبر تم پر گواہ بنیں۔ [ سورۂ بقر و(2): 143]

 خلفائے راشدین کے دور میں اسلام جزيرة العرب، وسط ایشیا، مغربی یورپ اور افریقہ تک پھیل چکا تھا۔ زمینی فتوحات ذہنی یا فکری ارتقاء کی بنیاد پر ہی پروان چڑھتی ہیں۔ یہ فکری بنیادیں مسلمانوں کو رسول اللہ ﷺ سے میسر آئیں۔ اسی فکری ارتقاء کی بناء پر مذہبی علوم کے شعبوں میں محدثین ، فقہاء اور دیگر علمائے کرام نے مسلمانوں کی رہنمائی کا کوئی گوشہ تشنہ نہ چھوڑا۔ امام جعفر صادق، امام ابو حنیفہ، امام شافعی ، امام مالک، امام احمد بن حنبل، امام بخاری، امام مسلم ، امام ابن حزم ، امام ابن القیم ، امام جلال الدین سیوطی سمیت بے شمار اکابرین امت نے دین و مذہب کی توضیحات کے لئے اپنی پوری زندگیاں وقف کر دیں۔

رسول اللہ ﷺ کی تربیت اور تعلیمات کے زیر اثر مملکت اسلامیہ کے تقریبا تمام شعبہ ہائے زندگی میں ترقی کا دائرہ کار پھیلتا چلا گیا۔ نئے نئے علوم سامنے آرہے تھے۔ کچھ پاکیزہ نفوس قرآنی علوم کی تلاش میں منہمک تھے، کچھ احادیث مبارکہ کے علوم کی تزئین و آرائش پر کمر بستہ تھے ، بعض عالی قدر فقہائے کرام دین میں اجتہاد کے پہلو کے ذریعے اسلام کی تشریحات و توضیحات میں مصروف عمل تھے۔ بعض لوگ سائنسی علوم کی تلاش میں منہمک تھے۔ کچھ لوگوں نے فنون لطیفہ کی صورت گری کو اپنا مقصد حیات بنالیا تھا۔

ایسے میں ایک طبقہ ایسا تھا جس کا مقصد حیات اللہ تعالی کا عرفان حاصل کرنادین اسلام کے مقصد و منشاء کو سمجھنا اور اس پر کار بند رہنا تھا۔ یہ لوگ تزکیہ اور صفائے باطن کے ذریعے خود کو اللہ تعالی کا پسندیدہ بندہ بنانے میں مصروف تھے۔ ان لوگوں کا صلح نظر ہمیشہ یہ رہا کہ وہ کسی بھی چیز کے متعلق سوچنے سے پہلے اللہ تعالی کی منشاء و مرضی کو فوقیت دیں۔ وہ اللہ ہی کے واسطہ سے چیزوں کو دیکھیں، پر کھیں اور ان کے متعلق سوچیں۔

یہ طبقہ اہل تصوف ، اولیاء اللہ ، صوفیائے کرام کا ہے۔ صوفیائے کرام کی زندگی تزکیۂ نفس سے ماخوذ ہوتی ہے۔ اولیاء اللہ خود بھی ہمیشہ اللہ تعالی کے پسندیده افکار و اعمال اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور دوسرے لوگوں کو بھی یہی تعلیم دیتے ہیں۔

 علم حدیث اور فقہ کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو دکھائی دیتا ہے کہ قرن اولی کے محدثین و فقہائے کرام کی محفلیں ان علوم کی ابتدائی درسگاہیں تھیں۔ محدثین  وائمہ کرام کے حلقے میں لوگ آتے ، ان علوم سے آگاہی حاصل کرتے ، درس لیتے اور جب وہ شاگرد خاطر خواہ علم حاصل کر لیتے تو پھر وہ کسی دوسری جگہ اپنی علمی محفلیں سجاتے اور لوگوں میں علوم حدیث یا فقہ کے فروغ کا ذریعہ بنتے۔

ابتدائی دور میں تصوف بھی کسی ادارہ کی شکل میں موجود نہ تھا دوسرے علوم کی طرح اہل تصوف حضرات کے ہاں بھی محفلوں میں تزکیہ نفس، اخلاق و تصوف اور خداشناسی کا سبق دیا جاتا۔ ان محفلوں میں لوگ شریک ہوا کرتے اور اللہ کا پسندیدہ بندہ بننے کی تعلیم لے کر اٹھا کرتے۔ آہستہ آہستہ دوسرے علوم کی طرح تصوف کو بھی ایک روحانی و فکری تربیت یا تزکیہ کے ادارہ کی شکل ملنے لگی۔ سلاسل طریقت وجود میں آنے لگے۔ سلاسل طریقت نے معاشرہ کی روحانی، اخلاقی اور سماجی بہتری کے لئے معاشرہ کے یونٹ یعنی فرد کی بہتری پر بہت زور دیا۔ فرد سے افراد بنتے ہیں اور معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ صوفیانہ تعلیمات فرد کی روحانی، ذہنی یا فکری تظہیر کر کے اسے خداشناسی کی جانب گامزن کرنے کا ذریعہ بنتی ہیں۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ جنوری 2017

Loading