Daily Roshni News

یک  زمانہ صحبت بااولیاء۔۔۔قسط نمبر1

یک  زمانہ صحبت بااولیاء

قسط نمبر1

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )انسان کی شخصیت کی تشکیل اور اس کے اخلاق و عادات کو سنوارنے میں صحبت کا بڑا گہرا اثر ہوتا ہے۔ ایک ساتھی دوسرے ساتھی کے اوصاف سے متاثر ہوتا ہے۔ ہمارا عام مشاہدہ ہے کہ جو کوئی کسی نمازی سے دوستی کرنا چاہے تو نمازی بن جاتا ہے۔ کسی کھلاڑی سے دوستی کرنا چاہے تو وہ کھیل کھیلنا شروع کر دیتا ہے ، کسی شاعر سے دوستی کرنا چاہے تو شاعری میں دلچسپی محسوس کرنے لگتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر آدمی شیطان کی قربت کا خوگر ہو تو شیطان کے اوصاف پسند کرتا ہے اور اگر رحمان سے قربت چاہے تو اس کی عادات و صفات اختیار کرتا ہے۔ اس لئے دیکھا گیا ہے کہ دانا لوگ اکثر کہا کرتے ہیں کہ کسی کے اخلاق کو دیکھنا ہو تو اس کے دوست کو دیکھو۔ جیسا دوست ہو گا ویسا ہی وہ خود بھی ہو گا کیونکہ صحبت کا اثر ضرور پڑتا ہے۔

قرآن میں ارشاد باری تعالی ہے:(اے میرے بندے) تو اپنے آپ کو ان لوگوں کی سنگت میں رکھ ، جو صبح و شام اپنے رب کو یاد کرتے ہیں۔ اس کی رضا کے طلبگار رہتے ہیں۔ تیری نگاہیں ان سے نہ ہٹیں کہ تو دینوی زندگی کی آرائش میں لگ جائے۔“ [سورہ کہف: 28]

رسول مقبول صلی الم کا ارشاد ہے ” آدمی اپنے دوست کے مذہب پر ہوتا ہے اس لئے دیکھ لینا چاہئے کہ تم کس سے دوستی کر رہے ہو“۔ (ترمذی۔ ابی داؤد ] ایک مرتبہ آنحضرت علی نام صحابہ کرام کے در میان جلوہ افروز تھے۔ ایک صاحب نے پو چھا ” ہم نشین کیسے ہونے چاہئیں اور کن لوگوں کی قربت اختیار کریں ؟ آپ صلی علیم نے فرمایا

جن کو دیکھ کر خدا یاد آجائے۔ جن کی گفتگو سے تمہارے علم میں اضافہ ہو اور جن کا عمل تمہیں آخرت کی یاد دلا دے“۔ [مسند ابو یعلی الاولیا ابن ابی دنیا ] یہ لوگ خداشناس، اللہ کے دوست اور وہ مقرب اور عاشق بندے ہیں جو اپنے آپ کو دنیا کی ہر چیز سے بے نیاز کر کے مولا کی یاد میں فنا کر دیتے ہیں، اللہ کے دوستوں کی قربت میں رہنے والا ان کی پاکیزہ صحبت کے اثر سے اللہ سے دوستی کا طلب گار بن جاتا ہے اور معرفت کے سفر کا راہی بن جاتا ہے۔ مولانا روم کے درج ذیل اشعار اسی حقیقت کی عکاسی کرتے ہیں: مولوی ہرگز نہ باشد مولائے روم

تا غلام شمس تبریزی نہ شد

جب تک مولانا روم کو شمس تبریزی کی صحبت اور غلامی نصیب نہ ہوئی اس وقت تک وہ فقط مولوی تھے۔ شمس تبریزی کی صحبت نے انہیں مولوی سے مولائےروم بنا دیا۔)

مولانا روم “مزید فرماتے ہیں:

یک زمانہ صحبت با اول

یا بہتر از صد سالہ طاعت بے ریا

اولیاء اللہ کی صحبت میں گزارے ہوئے لمحات سوسالہ بے ریا عبادت سے بہتر ہیں۔)

سلسلہ عظیمیہ کے امام حضرت قلندر بابا اولیاء کے محبوب شاگرد ، خانواده سلسلہ عظیمیہ حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی کی ذات گرامی وہ ہستی ہے جو حضور قلندر بابا اولیاء کے سب سے زیادہ قریب رہی۔ طویل قلبی، ذہنی اور جسمانی و روحانی قربت کا اثر یہ ہوا کہ حضور قلند ر ہا ہا اولیاء نے اپنے کئی علوم کی ترسیل اپنے شاگرد کو فرمادی۔ اپنے عظیم مرشد کے شب و روز کا مشاہد و حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی کا معمول رہا۔ محترم خواجہ شمس الدین عظیمی اپنی مختلف تحریروں اور تقاریر میں حضور قلندر بابا اولیاء کے ارشادات اور ان سے متعلق واقعات وقتا فوقتاً بیان کرتے رہتے ہیں۔ حضرت عظیمی صاحب کے بیان کردہ ان ارشادات و واقعات سے ہمیں اللہ کے ایک ولی قلندر بابا اولیاء کے علم و فضل اور فکر و فہم کو سمجھنے میں مدد ملے گی اور یہ حقیقت سامنے آجائے گی کہ اولیاء اللہ کی طرز فکر کیا ہوتی ہے۔

حضور قلندر بابا اولیاء سے اپنی پہلی ملاقات کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت عظیمی صاحب فرماتے ہیں کہ : ” سن 1950ء کی بات ہے کہ میرے بڑے بھائی مولانا محمد اور میں انصاری ایک ماہنامہ آفتاب نبوت نکالتے تھے۔ رسالے کے مختلف امور کے لیے انہوں نے میرا پتہ بھی دے دیا تھا۔ ان دنوں معاشی حالات کمزور تھے لیکن اللہ تعالیٰ کے کرم سے جب بھی پیسوں کی ضرورت ہوتی۔ رسالہ کے لیے رقم منی آرڈر کے ذریعے آجاتی تھی۔ ایک مرتبہ ڈرافٹ آگیا۔ مجھے بینک کے معاملات کا کچھ تجربہ نہیں تھا، میرے ایک بڑے اچھے دوست رشید صاحب تھے۔ میں نے اُن سے ڈرافٹ کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا ڈرافٹ مجھے دے دو میں اکاؤنٹ میں ڈال دونگا۔ میں نے ڈرافٹ اُن کو دے دیا۔ تین چار دن وہ نہیں آئے۔ مجھے اتنا پتہ تھا کہ وہ ڈان اخبار میں سر کو لیشن ڈپارٹمنٹ میں ہیں۔ میں وہاں پتہ کرنے چلا گیا۔ رشید صاحب تو ملے نہیں البتہ وہاں

ایک صاحب سے ملاقات ہوئی انہوں نے اپنا نام محمد عظیم بتایا۔ ان سے پتہ چلا کہ رشید صاحب ان کے بھی بڑے اچھے دوست ہیں اور تین چار روز سے بیمار ہیں، اس لئے دفتر نہیں آرہے ہیں۔

محمد عظیم صاحب نے مجھے اپنے پاس بٹھایا، چائے پلائی، پان کھلایا، ایک دو شعر بھی سنائے، میں بڑا متاثر ہوا کہ انہوں نے دوست کا دوست ہونے کی بناء پر میرا اتنا احترام کیا ہے۔ بعد میں رشید صاحب سے اُن کے متعلق پو چھا انہوں نے بتایا کہ “ بہت اچھے، بہت محترم اور نہایت معتبر انسان ہیں۔ عظیم نام ہے ان کا، سب لوگ ادب کرتے ہیں۔ اس واقعے کے کچھ عرصہ بعد محمد عظیم صاحب سے پھر ملاقات ہوئی اور ہم دونوں ایک دوسرے کے ہو کر رہ گئے“۔ خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب، حضور قلندر بابا اولیاء سے بیعت ہونے کے بعد کے ابتدائی دنوں کا احوال بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں … پیر و مرشد نے ایک دن اپنے سامنے بٹھا کر فرمایا…

زندگی گزارنے کے دو طریقے ہیں ایک طریقہ یہ ہے کہ انسان کے اندر اتنی صلاحیت ہو کہ دوسروں سے سے اپنی بات منوا سکے۔ انسان کے اندر یہ صلاحیت ہو کہ صدیوں پرانی روایات کو سینے سے لگاتے ہوئے ان روایات کے جاری و ساری رکھنے کے لئے ساری دنیا سے مقابلہ کر سکے… اس طریقے کو دنیا والے خود مختار زندگی کہتے ہیں یعنی جو آپ چاہتے ہیں وہ دوسروں سے منوالیں۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنی نفی کر دیں یعنی خود مختار زندگی کو داغ مفارقت دے دیں… یادرکھئے ….! اللہ تعالیٰ نے انسان کو جس فطرت پر پیدا کیا ہے وہ فطرت خود مختار نہیں ہے … انسان کی ساخت ہی اس بنیاد پر کی گئی ہے کہ یہ پابند ہو کر زندگی گزارے لہذا ضروری ہے کہ خود مختار زندگی سے آپ کنارہ کش ہو جائیں اور اپنے آپ کو اللہ کے سپر د کر دیں۔ آپ کے اندر یہ صلاحیت نہیں ہے کہ آپ کسی کو اپنا بنا لیں لیکن آپ کے اندر یہ صلاحیت بدرجہ اتمی موجود ہے کہ آپ دوسرے کے بن جائیں۔“

ایک مرتبہ الشیخ عظیمی صاحب نے اپنے مرشد کریم حضور قلندر بابا اولیانہ سے یہ سوال کیا تھا کہ اللہ والوں کی پہچان کیا ہے ؟…. اس کے جواب میں حضور قلندر بابا اولیانہ نے ارشاد فرمایا آپ پندرہ منٹ اس کے پاس بیٹھیں اگر ان پندرہ منٹ میں سے بارہ منٹ تک آپ کو دنیا کا خیال نہ ستائے ، وسوسے اور پریشانی کا دھیان نہ آئے تو سمجھ لیں کہ وہ بندہ اللہ والا ہے“۔ خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب بیان کرتے ہیں حضور قلندر بابا اولیاء نے ایک دن فرمایا … ” دوستی کی تعریف بیان کرو۔“

میں نے عرض کیا .. “دوستی ایثار ہے۔ کسی کو کچھ دینے کے لئے کچھ بنانے کے لئے .. سنوارنے کے لئے اپنا بہت کچھ کھونا پڑتا ہے۔“

فرمایا… بات صحیح ہے لیکن عام فہم نہیں ہے۔“ میں نے عرض کیا … ” آپ کا فرمان حق ہے۔ میری ذہنی سکت، سوجھ بوجھ آپ کے سامنے ہے۔ بندہ سراپا معجز و نیاز ہے۔ ارشاد فرمائیں کہ میرا دامن مراد بھر جائے اور مجھے محرومی کا احساس نہ رہے۔”

فرمایا.. ” دوستی کا تقاضہ ہے کہ آدمی دوست کی طرز فکر میں خود کو نیست کر دے۔ اگر تم کسی نمازی سے دوستی چاہتے ہو تو نمازی بن جاؤ۔ شرابی کی دوستی اس بات کی متقاضی ہے کہ اس کے ساتھ مے نوشی کی جائے۔ وسیع دستر خوان نخی کی دوستی ہے۔“ پھر فرمایا : خواجہ صاحب! اللہ سے دوستی کرنی ہے۔“ میں نے عرض کیا.. “جی ہاں”

فرمایا: ” ایسی دوستی کرنی ہے کہ اللہ پیار کرے۔“ عرض کیا ۔ ”بالکل ایسی دوستی کرنی ہے۔“

یہ جواب سن کر انہوں نے سوال کیا کہ خواجہ صاحب! بتائے اللہ کیا کرتا ہے۔“ میری سمجھ میں اس کا جواب نہیں آیا۔

حضور قلندر بابا اولیاء نے فرمایا.. “خواجہ صاحب ! اللہ یہ کام کرتا ہے کہ وہ اپنی مخلوق کی خدمت کرتا ہے۔ اگر آپ کو اللہ سے تعلق قائم کرتا ہے اور اس سے یکی دوستی کرنی ہے تو آپ بے غرض ہو کر اللہ کی مخلوق کی خدمت کیجیے۔“

حضور قلندر بابا اولیاہ کے قرب میں گزرے ہوئے سنہری ایام میں سے ایک واقعہ سناتے ہوئے حضرت عظیمی صاحب فرماتے ہیں:

“میرے ذہن میں یہ خیال بار بار آنے لگا کہ مجھے اپنے پیر و مرشد سے بڑی محبت ہے۔ جتنی محبت میں۔۔۔جاری ہے۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ  جنوری 2016

Loading