پارس
تحریر۔۔۔آفرین ارجمند
قسط نمبر1
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔ پارس۔۔۔ تحریر۔۔۔آفرین ارجمند) کچھ نہیں بلکہ بہت سارے لوگ یہ سوچ رکھتے ہیں کہ مرد ہونا طاقت اور اکرام کا سبب ہے۔ عورت کا وجود کمزوری اور شرمندگی کی علامت ہے۔ایسا سوچنے والے صرف مرد ہی نہیں ہیں کئی عورتیں بھی اس بات پر یقین رکھتی ہیں ۔ بیٹے کی ماں بن کر بعض عورتیں خود کو محفوظ اور معزز خیال کرتی ہیں ، بیٹی کی ماں بن کر خود کو کمزور محسوس کرتی ہیں ۔ مردانہ تسلط والے معاشرے میں کئی مصیبتوں ، دکھوں اور ظلمتوں کے درمیان ابھرنے والی ایک کہانی …. مرد کی انا اور رعونت، عورت کی محرومیاں اور دکھ ، پست سوچ کی وجہ سے پھیلنے والے اندھیرے کمزوروں کا عزم، علم کی روشنی، روحانیت کی کرنیں ، معرفت کے اجالے، اس کہانی کے چند اجزائے ترکیبی ہیں ۔ آفرین ارجمند نے اپنے معاشرے کا مشاہدہ کرتے ہوئے کئی اہم نکات کو نوٹ کیا ہے۔ آفرین ارجمند کے قلم سے ان کے مشاہدات کس انداز سے بیان ہوئے ہیں اس کا فیصلہ قارئین خود کریں گے۔
گذشتہ سے پیوستہ :پارس نے یوں صاعقہ کو اپنی جانب غور سے دیکھتے پایا تو تھوڑی دیر کے لئے وہیں کھڑی رہی ۔ اس کے لبوں کی مسکان میں وہی معصومیت وہی سادگی تھی۔ سکینہ کے لبوں کو تو جیسے گوند لگ گیا تھا وہ بس صاعقہ کو دیکھ رہی تھی۔
سکینہ تو نے کھانا نہیں چڑھایا ابھی تک ۔ آج تویہ کھانا کھا کے جائے گی …. شفیق نے غور سے صاعقہ کو دیکھتے ہوئے کہا۔اس کی آواز سے جیسے دونوں ہوش میں آگئیں۔ نہیں بھائی جی ابھی تو گھر چلتی ہوں ۔ بہت بکھیڑا ہے گھر میں “۔ صاعقہ جلدی سے بولی ۔ مگر اس کی آنکھوں میں الجھن تیر رہی تھی۔کیا ہوا صاعقہ تو اچانک سے اتنا پریشان کیوں ہو گئی۔ شفیق نے جان بوجھ کر اسے چھیڑ ا۔ وہ چادر ہا تھاکہ صاعقہ اس سے ابھی تھوری دیر پہلے ہونے والےواقعے کے بارے میں پو چھے۔رشتے کی بات باقاعدہ ہو اس سے پہلے پارس کےبارے میں سب جان لینا زیادہ بہتر تھا۔وہ یہی سوچتے ہوئے صاعقہ کے رد عمل کا انتظارکرنے لگا۔کچھ نہیں بھائی جی۔ ماشاء اللہ پارس تو بہت زیادہ سمجھدار ہو گئی ہے“۔ وہ کچھ عجیب سے لہجے میں بولی۔ کرم ہے اس مالک کا جس نے اتنی رحمتوں والی بیٹی عطا کی ہے۔ اب دیکھ ناں یہ صرف ہمارے لئے ہی نہیں پورے گاؤں کے لئے رحمت ہے“ ۔ وہ شایدوضاحت کرنا چاہتا تھا ۔”ہاں بھائی جی۔ صحیح کہا آپ نے۔ یہ تو قدرت کاانعام ہے جسے عطا ہو جائے“۔بیٹیاں تو ساری ہی اللہ کی رحمت ہوتی ہیںخالہ …. پارس دھیرے سے بولی”ہاں ٹھیک کہتی ہے تو “۔ صاعقہ نے وہیں کھڑے کھڑے ہاں میں ہاں ملائی۔میری سدرہ کے لئے بھی دعا کرنا وہ اپنے گھر میں راج کرے۔ خوب پھلے پھولے۔” ” آمین ۔ یہ بھی کوئی کہنے کی بات تھی بھلا”۔پارس اسی رسانیت سے بولیوہ تھوڑی دیر اسے یونہی دیکھتے گئی ۔ ایک بات پوچھوں “۔ صاعقہ کے چہرے پر کئی ملے جلےجذبات تھے۔ی خالہ پوچھیئے۔ پارس کی گہری مسکراہٹ بتارہی تھی کہ شاید وہ جانتی ہے اب صاعقہ کیا پوچھنےوالی ہے۔مجھے ڈر نہیں لگتا ان لوگوں سے ….؟” صاعقہبرابر است بولیکن لوگوں سے خالہ ….“یبی گاؤں والے …. پہلے تیری تعلیم کی وجہ سے تجھے ۔سے دور ہوئے اور آپ یہ ب…. میر امطلب تو ایک لڑکی ہے اور یہ تو لوگ….“ اس نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔ لوگوں کی بات چھوڑیں خالہ پہلے یہبتائیے کہ آپ کیا سوچتی ہیں ۔ پارس کا سوال بھی بر اور است تھا۔سم میں۔ میں کیا میں تو بس …. ” صاعقہ
اس اچانک سوال پر گڑ بڑائیقرآن شریف پڑھنا تو میں نے آپ سے ہی سیکھا ہے، خالہ… “پارس تھوڑی دیر صاعقہ کے متغیر رنگ دیکھتی رہی۔”خالہ !….“ اس نے ادب سے پکاراآپ کو پتا ہے سوہنے آقاصلی ملیالم ….” کہتے ہوئے اس نے انگوٹھے آنکھوں سے لگائے ۔ صاعقہنے بھی عقیدت سے نظریں جھکا لیں۔وہ پھر بولی ”میرے سوھنے آقاصلی نیلم کا فرمان ہے کہ اللہ کو وہ لوگ بہت پیارے ہیں جو اس کے بندوں کے کام آئیں۔ لوگوں کے دکھ درد دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے “۔سر ہلایا۔ہاں ، بے شک“ ۔ صاعقہ نے اثبات میںتو پھر اللہ کے پیارا بنے میں ڈر کیسا ….؟” وہایک ہی جملے میں صاعقہ کے ہر سوال کے جوابسمو چکی تھی۔ رب دابندہ خوش تے میرا رہا خوش ورنہ سب اکارت ۔ پارس کے کانوں میں جیسے کسی نے سرگوشی کی۔ اسے اچانک سے کمہار کی بات یاد آگئیبابا ، اس کے دل نے بے آواز پکارا۔ ہوا کی ایک ٹھنڈی لہر اس کے چہرے سے ٹکرائی۔ صاعقہ کے پاس اب کوئی دلیل نہیں تھی ۔ کوئی وجہ نہیں تھی۔ وہ خاموش ہو گئیاللہ مجھے خوش رکھے۔ میری سدرہ کو بھی اپنی دعاؤں میں یاد رکھنا“۔ وہ جلدی سے بولییہ بھی کوئی کہنے کی بات ہے“۔ پارس کے لہجےمیں بالکا سا غم آگیا۔
” وہ میری بہت پیاری عزیز سہیلی ہے ۔ میں اسے کبھی نہیں بھولی“۔ اس کی آواز میں ہلکا سا ارتعاش سب نے محسوس کیاپتری ، بھول جاسب۔ مجھے اور شرمندہ نہ کر ۔ صاعقہ شرمندہ سی بولی اور آگے بڑھ کر اسےملکے سے پیار کیا۔ شاید اسے اپنے رویہ کا احساس تھا کہ کس طرح گاؤں والوں کے ڈر سے اس نے سدرہ کو پارس سےدور رکھا تھا۔ صاعقہ چلی گئی تھی۔وہ کیا سوچ رہی تھی ۔ جو خواب ایک لمحے میں ان دونوں نے دیکھ لیا تھا اس کی تعبیر کیا ہو گی وہ نہیں جانتے تھے۔ اس کے لئے شاید ابھی صبر سے انتظار کرنا تھا۔ اسی سوچ میں گم سکینہ دروازہ بند کر کے اندر آگئی تھی۔ شفیق تھکان سے آنکھیں بند کئے چار پائی پر لیٹ چکا تھا۔ اور پارس شاید اندر کمرے میں تھی۔܀܀܀کئی دنوں تک سکینہ نے کوشش کی صاعقہ کے گھر کا چکر لگالے۔ مگر بدلتے موسم اور کئی روز کے شہر کے مسلسل سفر نے شفیق کو تھکا دیا تھا۔ اس کی طبیعت خراب ہونے کے باعث اتناوقت ہی نہیں مل پارہا تھا۔ صاعقہ بھی بار بار پارس کو بلا چکی تھی ۔ مگر پارس کی یہی ضد تھی کہ پہلا اس کا تحفہ خود اپنے ہاتھوں سے تیار کرلوں وہ لے کر جاؤں گی۔ جب سے پارس نے سدرہ کی شادی کا سنا تھا۔ وہ اس کے لئے ایک خاصتحفہ تیار کرنا چاہتی تھی۔سکینہ نے اسے پڑھائی لکھائی کے ساتھ سلائی کڑھائی میں بھی ماہر کر دیا تھا۔ وہ چاہتی تھی کہ اپنی عزیز ترین سہیلی کے لئے ہاتھ سے بنا کوئی تحفہ لے کر۔۔۔جاری ہے۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجست جنوری 2016