Daily Roshni News

پارس۔۔۔ تحریر۔۔۔آفرین ارجمند۔۔۔قسط نمبر2

پارس

تحریر۔۔۔آفرین ارجمند

قسط نمبر2

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔ پارس۔۔۔ تحریر۔۔۔آفرین ارجمند) جائے ۔ اسے امید تھی کہ ہفتے بھر میں یہ تیارہو جائے گا۔آج جمعرات تھی۔ شفیق نے زبر دستی سکینہ اور پارس کو درگاہ بھیجا تھا۔ نہ جانے کیوں وہ خود کو بہت نڈھال اور کمزور محسوس کر رہا تھا۔ سکینہ کتنی مشکل سے اسے اکیلا چھوڑ کر گئی تھی وہ یہ سوچ سوچ کر مسکرارہا تھا۔ یہی دو تو اس کی کل کائنات تھیں جنکے لئے وہ جیتا تھا۔

شفیق او شفیق….“ دروازے پر مولوی صاحب کی بڑی جو شیلی آواز آرہی تھی ۔ وہ سوچوں سے باہر نکل آیا اور لحاف کاندھے تک کھینچ کر سیدھاہو کر بیٹھ گیا۔

دروازہ کھلا تھا اس لئے مولوی صاحب اندر چلتے چلے آئے ان کے ساتھ ایک نوجوان بھی تھا۔ اُن کے پیچھے محلے کے دو لڑ کے جن کے کاندھے پر دو بوریاں لدی تھیں۔

”ہاں یہاں رکھ دو۔ انھوں نے لڑکوں کو اشارہ کیا۔ سلام چاچا !….“ لڑکوں نے شفیق کو سلام کیا۔ اور بوریاں وہیں صحن میں رکھ کر چلے گئے۔ اسلام علیکم مولوی صاحب“۔ شفیق نے انھیں سلام کیا۔کیا ہوا بھئی۔ طبیعت اب کیسی ہے۔“ شکر ہے اللہ کا بہت بہت ۔ مگر یہ سبکیا ہے….؟”ارے یہ سب چھوڑ، پہلے اس سے مل۔ دیکھ تجھ سے ملنے کون آیا ہے“۔ ان کی آواز ایک دمتازہ ہو گئی۔سلام چاچا ، نوجوان نے ادب سے سلام کیا۔

شفیق نے اسے غور سے دیکھا۔ شکل جانی پہچانی تھی۔ کھنی مونچھیں سانولا رنگ اور بالوں میں خیل چیڑا ہوا مگر سلیقے سے بنے ہوئے تھے۔ وہ بالکل خاصدیہاتی ہٹا کٹا جوان تھا۔”رجب علی شفیق نے یاد کرتے ہوئے کہاجی چاچا“۔شفیق نے دونوں بانہیں وا کر دیں۔ ”تجھے دیکھ کر تیرے باپ کی یاد آگئی “۔ وہ جذباتی ہونے لگا” میں نے سنا تو کچھ پڑھ لکھ گیا ہے“۔ جی! تایا جی کی زمینوں کے حساب کتاب کیزمہ داری میں ہاتھ بٹاتا ہوں“ ۔یہ تو بڑی اچھی بات ہے “۔ اسے رجب علی سے بات کر کے بہت اچھا لگا۔ وہ اپنے ددھیال جاکر بالکل بدل گیا تھا۔ یہاں تو سارا دن مٹر گشت کرتا یا پھر لڑکوں بالوں کے شور شرابے جھگڑوں میں ہی وقت برباد کر رہا تھا۔یہ تو رب کا بڑا کرم ہو گیا شفیق علی جو اس کے تایا کو ان قیموں کا خیال آگیا۔ ورنہ میری بوڑھی ہڈیاں تو جواب دے گئی تھیں “۔ مولوی رفیق کی آواز میں زمانے بھر کی تھکاوٹ کے ساتھ ایک آسودگی بھی تھا۔ان کا بڑا احسان ہے “۔ وہ ممونیت سے بولا۔ احسان کیسا۔ یہ تو ہمارا حق ہے۔ آخر وراثت میں ہمارا بھی تو حصہ ہے “۔

 رجب علی ایک دم بولا۔اور چپ کر ۔ تیرے باپ کا لکھ بھی نہیں اس میں شامل ۔ ان کا احسان سمجھ کر قبول کر اسی میں بھلائی ہے تیری۔ سمجھا۔ مولوی صاحب نے سختی سے سرزنش کی۔

شفیق نے محسوس کیا کہ یہ بات رجب علی کوکواچھی نہیں لگی تھی۔مولوی صاحب پالنے والا تو ایک ہی ہے۔ پیارا رب جانتا ہے کہ کب کس نے کس کی ڈوری تھامنی ہے “۔ شفیق نے رجب علی کے کاندھوں پر ہاتھرکھتے ہوئے کہا۔خوب دل لگا کر اور ایمانداری سے اپنا فرض نجانا۔ سمجھا۔ شفیق نے نصیحتی لہجہ اختیار کرتےہوئے نرمی سے کہاجی چاچا …ہاں ، اس کے تایا نے گندم اور گڑ کی بوریاں بھجوائی ہیں۔ اس میں سے تھوڑا ہمسائیوں کو بھی دیاہے۔ اور تیر ا حصہ تو بہت ہی بنتا ہے ۔ نہ جانے کیوں ان کی ہر ادا، ہر لفظ آج احسان مندی کا اظہار کیوں کر رہی تھی۔مولوی صاحب ….؟ تسی مجھے اب شرمندہ کر رہے ہو۔ یہ میرابیٹا نہیں ہے کیا … ؟ اور صاعقہ کو میں نے اپنی بہن کہا ہی نہیں مانا بھی ہے “۔ شفیق نے مولوی رفیق کو تھام لیا۔میر اتوکنبہ ہو آپ لوگ ….. شفیق کو بچپنمیں مولوی صاحب اور ماسٹر غلام رسول کے کئے گئے احسانات یاد آگئے۔ اس کی آنکھوں کے کنارے نم یادہونے لگے تھے۔رجب علی یہ سب بہت غور سے دیکھ اور سن رہا تھا۔ مگر شاید اس کا دھیان ان باتوں میں نہ تھا۔ سکینہ اور پارس بیٹی ۔ گھر پر نہیں کیا….؟ انھوں نے ماحول کی خاموشی سے اندازہ لگاتے ہوئے کہا۔

ہاں زبر دستی بھیجا ہے انہیں درگاہ… بس آتی ہی ہوں گی۔“اچھی بات ہے۔ زندگی میں بزرگوں کی دعائیں شامل ہوں تو ہر مشکل آسان ہو جاتی ہے ۔ میں بھیاس کو سلام کے لئے لے کر جاؤں گا“۔ مولویصاحب عقیدت سے بولےاسلام علیکم مولوی صاحب“۔ سکینہ نے اندر داخل ہوتے ہیں انھیں دیکھ کر سلام کیااسلام علیکم “ پارس نے بھی آگے بڑھ کر جلدی سے مولوی صاحب کو سلام کیا۔و علیکم سلام ، وعلیکم سلام“۔ وہ بڑی خوشیسے بولے۔کر بولی۔یہ کیا ہے!….“ صحن میں پڑی دو بوریاں دیکھخالہ یہ گندم اور گڑ کی بوریاں ہیں آپ لوگوں کے لئے۔ سلام۔ ” رجب علی بولا۔اور تم سکینہ نے اس کی طرف انگلی سےاشارہ کیا۔میں ، خالہ میں رجب علی“۔ سکینہ کے اس طرح پوچھنے پر وہ گڑ بڑا گیا۔اس کی گڑبڑاہٹ پر بے اختیار سب ہنس پڑے۔ جس میں پارس بھی شامل تھی۔بہت اچھا لگا جو تم آئے“۔ سکینہ کی آواز میں ایک نئی توانائی تھی۔میں بس ابھی آتی ہوں “۔ وہ بازار کی سب تھکن بھول کر جلدی سے اندر چلی گئیارے ان کے لئے کھانا بناؤ کچھ بہت اچھا سا”۔ شفیق نے وہیں سے لگائی۔

گو کہ رشتے کی باقاعدہ بات نہیں ہوئی تھی مگر گڑ اور گندم لایا تھا یہ تو بڑا اچھا شگون ہے۔ سکینہ اس میں پھولے نہیں سمارہی تھی ، وہ بڑی سبک رفتاری سےکام میں لگ گئی تھی۔ نہ جانے کون کون سے مصالحے اس نے پسنا شروع کر دیئے تھے ۔ تازہ مصالحے کا سالن زیادہ لذیز بنتا ہے۔ پارس کو یوں اپنی طرف حیرت سے دیکھتے ہوئے وہ بولی۔ “اچھا تو جلدی سے گڑ کے چاول بنادے“۔جی اچھا“۔ وہ دیکھ گڑ وہاں رکھا ہے“ ۔ اس نے گردنکے اشارے سے اسے جگہ بتائی۔چننے لگی۔جی اچھا“۔ پارس تسلے میں چاول لے کرتو پوچھے گی نہیں اتنا اہتمام کیوں کر رہی ہوں“۔ سکینہ نے ایک دم پارس سے پو چھا۔ کیوں اماں …. ؟ کوئی خاص بات ہے کیا ….؟” وہ چاولوں میں سے کنکر نکالتے ہوئے بولی۔ سکینہ نے اسے گھورا ۔ شاید سکینہ اس سے رجب علی کے بارے میں رائے لینا چاہتی تھی ۔ وہچاہتی تھی کہ ان کی پسند میں پارس کی پسند بھی شامل ہو۔ اس سے پر اور است پوچھنا ہی بہتر ہے۔ اس نے میں دل سوچا۔”اچھا یہ بتا تجھے رجب علی کیسا لگا”۔پارس کے ہاتھ سے تسلہ چھوٹے چھوٹتے رہ گیا۔ ملک کیا مطلب “ ۔ وہ انجان بنتے ہوئے بولی “مطلب کیا۔ میں اور شفیق اسے اپنا بیٹا بنانے کا سوچ رہے ہیں ۔ مگر تیری مرضی جاننا بہت ضروری ہے۔

بیٹا ؟کیا میں کافی نہیں ۔ جو ایک بیٹا بھی گود لیںگئیں۔ اور وہ تو اتنا بڑا ہے۔“د نہیں اماں مجھے کسی بھائی بہن کی ضرورت نہیں اور وہ تو اتنا بڑا ہے“ ۔ پارس بچوں کی طرح منہ بناتی لکڑیوں میں آگ سالگانے بیٹھ گئیسکینہ نے سر پیٹ لیا۔دیکھ پارس مذاق مت کر تجھے پتا ہے میرا کیا مطلب ہے “۔ سکینہ کے جھلانے پر پارس کے لبوں پر دبی دبی سی مسکان پھیل گئی تھی۔”ہاں“۔ اس نے جلدی سے ماں کے گرد بازوڈال دیئے۔گر کتالوں ؟” اس کے لہجے میں شرارت تھی جتنا تجھے وہ اچھا لگا۔ سکینہ بھیشرارت سے بولی۔پھر تو چاول ہی نہ بنا ئیں تو بہتر ہے “۔ پارس بنتے ہوئے پتیلا چھوڑ کر کھڑی ہو گئی۔یعنی تجھے رجب علی نہیں پسند “۔ سکینہ کے ارمانوں پر جیسے اوس پڑ گئی۔اتنا تو گہر و جوان ہے۔ اور کچھ پڑھنا لکھنا بھی جانتا ہے اور ۔ سب سے بڑھ کر کہ وہ….“ سکینہ اس کی خوبیاں گنوانے بیٹھ گئیکہ وہ آپ کو اور بابا کو پسند ہے۔ ہے ناں“ مگر تیری پسند سب سے زیادہ اہم ہے پتر “۔سکینہ پیار سے بولی ”تجھے نہیں پسند تو کوئی زبر دستینہیں ہے”۔نہیں اماں میرے کہنے کا مطلب یہ نہیں تھا“۔ وہ سنجیدگی سے بولی ”مجھے اور بھی بہت سے کام کرنے۔۔۔جاری ہے۔

 بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجست جنوری 2016

Loading