Daily Roshni News

صدائے جرس۔۔۔ تحریر۔۔۔حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب

صدائے جرس

تحریر۔۔۔حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ فروری  2025

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹر نیشنل ۔۔۔ صدائے جرس۔۔۔ تحریر۔۔۔حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب)حو اس کے دو رخ ہیں۔ ایک حواس پابندی کے جذبات سے آگاہ کرتے ہیں۔ انہیں نہار (دن) کہا گیا ہے۔ انسان میں دوسرے جو اس بھی کام کرتے ہیں جن میں زندگی کے تمام اعمال و حرکات انجام دیے جاتے ہیں لیکن ان میں پابندی نہیں ہوتی۔ انہیں لیل (رات) کے جو اس کہا گیا ہے۔ پابندی سے ماورا زندگی غیب ہے۔ یہ روح کی آنکھ سے نظر آتی ہے۔ جو اشیا مادی آنکھ سے نظر آتی ہیں، وہ پابند دنیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو پابند اور آزاد دونوں جو اس کا علم عطا کیا ہے۔ قرآن کریم میں جہاں خصوصیت کے ساتھ غیب کی دنیا کا تعارف ہے، وہاں رات کا تذکرہ ہے۔

 پاک ہے وہ (اللہ ) جو لے گیا ایک رات اپنے بندے کو مسجد الحرام سے دور کی اس مسجد (بیت المقدس) تک جس کے ماحول کو اس نے برکت دی ہے ۔ [سورہ بنی اسرائیل: آیت 1] اور ہم نے موسیٰ سے تیں راتوں کا وعدہ کیا اور انہیں اور دس سے پورا کیا پھر تیرے تب کی مدت چالیس راتیں پوری ہو گئی۔ [سورہ الاعراف: آیت 142]

شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ [سورہ القدر: آیت 3]

 ایک اور مقدس رات شب برآت میں بھی غیب کا تذکرہ ہے۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت ہے . خاتم النبیین رسول اللہ کا الیون نے مجھ سے فرمایا: تم جانتی ہو کہ شعبان کی اس پندرہویں شب میں کیا ہوتا ہے ..؟ عرض کیا : یارسول اللہ سلیم ارشاد فرمائیے۔ کیا ہوتا ہے ….؟ رسول اللہ ا نے فرمایا: اس رات میں اس سال پیدا ہونے والے ہر بچے کا نام لکھ دیا جاتا ہے، اس رات میں اس سال مرنے والے ہر آدمی کا نام لکھ لیا جاتا ہے، اس رات میں تمہارے اعمال اٹھائے جاتے ہیں اور تمہارا رزق اتارا جاتا ہے ۔ “ مشکوۃ بہیقی ] کائنات کا انتظامی شعبہ ہے جسے تکوین (Administration) کہتے ہیں۔ تکوین نظام کے تحت ہر سال مخلوق ) کی قضاء قدر کے پروگرام کی تجدید ہوتی ہے۔ اس پروگرام کی جن لمحات یا اسپیس میں منظوری ہے، وہ شب برآت“ ہے۔

شب معراج، شب برآت اور شب قدر مہینوں کے فرق لیکن تسلسل سے آتی ہیں۔ رجب میں معراج کی رات ہے، شعبان میں شب برات ہے اور رمضان میں شب قدر …. یہ تینوں راتیں پابند حواس سے نکل کر آزاد حواس میں داخل ہونے کا پروگرام ہیں۔ معراج کی رات سے کوشش کی جائے تو شب برات آنے تک بندہ اس کے حواس سے مانوس ہو سکتا ہے، اس کے بعد شب قدر کی تیاری ہے جس میں حواس کی رفتار ساٹھ ہزار گنا زیادہ ہو جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے کرم سے بندہ غیب کی دنیا میں داخل ہو کر فرشتوں سے مصافحہ کرتا ہے۔ شب برات میں جہاں گزشتہ سال کے اعمال و وسائل کی فائل بند ہوتی ہے، وہاں آئندہ سال کا ریکارڈ منظور ہوتا نیکی کی جوڑا اور بدی کی سزا کا تعین ہوتا ہے۔ بزرگ فرماتے ہیں کہ شب برات میں عبادت، صدقہ و خیرات اور لنگر کی تقسیم کافائدہ اگلے سال پہنچتا ہے۔ یہ نہیں ہوتا کہ ایک آدمی نے پورے سال نافرمانی کی اور شب برات میں عبادت اور اچھے کام کر کے سمجھا کہ اعمال نامے میں سے نافرمانی کا خانہ خالی ہو گیا۔ ہر شب برات میں پچھلے سال کی فائل بند ہوتی ہے اور اگلے سال کی کھلتی ہے۔ اس رات عبادت کا فائدہ ضرور پہنچتا ہے لیکن وہ اگلے سال کے ریکارڈ میں لکھا جاتا ہے۔ پچھلے سال آپ اچھا یا برا جو کچھ کر چکے ہیں، اس کے حساب سے جزا اور سزا، وسائل میں کمی اور اضافے کا تعین ہو جاتا ہے۔ جو اللہ کے لیے ایثار کرتا ہے، اللہ کے لیے خرچ کرتا ہے، اس میں نمائش نہیں ہوتی، اس کا بجٹ بڑھا دیا جاتا ہے اور جس کا عمل اس کے بر عکس ہے ، اس کا بجٹ …؟ ایک آدمی بھوکا ہے، وہ روٹی کے لیے سوال کرتا ہے، آپ روٹی نہیں کھلاتے تو ہوتا یہ ہے کہ جس طرح اللہ کے لیے ایک روپیہ خرچ کرنے سے وسائل میں دس گنا اضافہ ہوتا ہے، اسی صورت سے اللہ کے لیے خرچ نہ کرنے سے وسائل دس گنا کم ہو جاتے ہیں۔

مر شد کریم حضرت قلند ر بابا اولیاءؒ سے میں نے اس بارے میں سوال کیا تو انہوں نے ایک مثال دے کر بیان فرمایا : ” تم دوست کے گھر جاتے ہو ۔ ذہن میں یہ بات ہے کہ دوست کے پاس جارہا ہوں، وہ نہایت اخلاق سے پیش آئے گا، گھر میں بٹھائے گا چائے پلائے گا۔ ایک پیالی چائے کی قیمت ایک روپیہ سمجھا جائے تو مطلب یہ ہے کہ تم نے توقع قائم کرلی کہ دوست میرے لیے ایک روپیہ خرچ کرے گا۔ اب دوست نے چائے نہیں پلائی، ایک روپیہ خرچ نہیں کیا تو دوست کا کچھ حساب کتاب نہیں ہوا۔ تم اپنے گھر آگئے۔ مہینے دو مہینے میں، دوسرے دن یا کسی مدت میں دوست تمہارے گھر آیا۔ اس نے توقع نہیں کی کہ تم اسے چائے پلاؤ گے اور تم نے چائے نہیں پلائی تو تمہارے وسائل میں سے دس گنا کم ہو جائیں گے۔ اس لیے کم ہو جائیں گے کہ دوست نے توقع قائم نہیں کی، تم نے دوست سے توقع قائم کی ہے۔ وہ توقع پر پورا اترے یا نہ اترے،اس کے حقوق تم پر قائم ہو جاتے ہیں۔ تم نے اس سے ایک روپے کی توقع قائم کر لی تو قانون کے مطابق اس کے حقوق تم پر متعین ہو گئے۔ شب ) برات میں یہ سب چیزیں زیر بحث آتی ہیں اور اسی حساب سے وسائل میں اضافہ یا کمی ہوتی ہے۔“

اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ جو اپنے لیے چا ہو، اپنے بھائی بہنوں اور مخلوق کے لیے بھی چاہو ۔ آپ اللہ سے توقعات قائم کرتے ہیں لیکن حقوق اللہ اور حقوق العباد پورے نہیں کرتے تو انہی قانون کے تحت تلافی اس طرح ہوگی کہ وسائل میں کمی ہوتی ہے۔ اگر آپ حقوق اللہ اور حقوق العباد پورے کرتے ہیں، وسائل میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

اللہ کے حقوق کیا ہیں …. اللہ اپنی مخلوق سے محبت کرتا ہے۔ اللہ چاہتا ہے کہ میرے بندے بھی ایک دوسرے سے محبت کریں تاکہ خوشی اور دکھ درد میں شریک ہوں۔ کسی جگہ کھانے پینے کی ضرورت ہے، آپ نے حب استطاعت لوگوں کو کھانا کھلایا۔ یہ اللہ کی محبت میں اپنے بھائی بہنوں کی خدمت ہے۔ اللہ نے اس امر کو قبول فرمایا اور خدمت انعام بن گئی۔ شب برات میں سال کے سال حساب کتاب ہوتا ہے۔ تکوین : علمائے باطن فرماتے ہیں کہ آدمی اس دنیا میں پیدا ہوتا ہے تو اس کا 30 سال کا پروگرام بنتا ہے۔ 30 سال دس دس سال میں تقسیم ہوتے ہیں، کبھی پانچ پانچ سال میں تقسیم ہوتے ہیں اور ہر سال اس کی تجدید ہوتی ہے۔ اعمال کی مناسبت سے وسائل میں کمی یا اضافہ ہوتا ہے۔ وسائل میں زندگی کے تقاضے اور رشتے سب شامل ہیں۔ قاری کے ذہن میں سوال آسکتا ہے کہ آدمی پید اہوتا ہے لیکن ہر آدمی کو 30 سال دیکھنا نصیب نہیں ہوتے، کچھ لوگ پہلے پہلے جاتے ہیں پھر 30 سال کا پروگرام کیا ہے….؟ پروگرام تو 30 سال کا ہوتا ہے لیکن اس کو 30 سال تک چلایا جائے یا نہ چلایا جائے یا پھر دس دس سال، پانچ پانچ سال، ایک ایک سال کر کے آگے بڑھایا جائے یا نہ بڑھایا جائے، یہ اختیار اللہ رب العزت کے پاس ہے ۔ 30 سال کی روشنی کا ذخیر ہ ایک دن میں خرچ ہو سکتا ہے، اس کی اسپیس 60 سال 90 سال اور 120 سال بھی ہو سکتی ہے۔ اس طرح سمجھیے کہ زید نے عمارت کی تعمیر شروع کی۔ پروگرام ہے کہ عمارت دس ماہ میں مکمل ہو لیکن بنیاد رکھتے ہی ارادہ بدل گیا۔ ارادہ بدلنے سے عمارت کی تعمیر زیر بحث نہیں آتی۔ عمارت کی تعمیر کے لیے درکار توانائی ارادہ بدلتے ہی خرچ ہو گئی۔ عمر کا تعلق تو انائی کے ذخیرے سے ہے۔ اگر آدمی کے اندر استغنا اور سکون ہے، خیر و محبت اور خدمت خلق کا جذبہ ہے اور وہ دل آزاری سے گریز کرتا ہے تو تو انائی زیادہ دن چلتی ہے۔ یہ وسائل کی تقسیم کا سلسلہ ہے جس کا حساب کتاب شب برات میں ہوتا ہے۔

مرشد کریم قلندر بابا اولیا ؒ نے فرمایا ہے کہ شب برات میں درود شریف پڑھا جائے، نوافل زیادہ سے زیادہ ادا کی جائیں، قرآن کریم ترجمے کے ساتھ پڑھا جائے، سورہ کوثر کاورد زیادہ کیا جائے، تو بہ استغفار کی جائے اور ان غلطیوں کو نہ دہرایا جائے جن سے توبہ کی ہے، ضرورت مندوں کی مدد کی جائے، کھانا تقسیم کیا جائے۔ صورت حال یہ ہے کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد پورے ہوں نہ ہوں، بس ما نگتے رہو ۔ آپ اللہ سے مانگتے ہیں تو اللہ کے لیے خرچ کرنا بھی ضروری ہے۔ اللہ ہر احتجاج سے پاک ہے ۔ اللہ چاہتا ہے کہ مخلوق محبت کے ساتھ مخلوق سے ربط میں رہے تا کہ کائنات اور مخلوقات کی تخلیق کا تقاضا پورا ہو۔ شب برات وسائل کی تجدید کی رات ہے۔ اس رات کی برکات سے فیض یاب ہونے کے لیے ضروری ہے کہ جو اعمال اور عبادات آدمی اس رات کے لیے مخصوص کرتا ہے، کوشش کی جائے کہ پورا سال ان پر عمل کیا جائے۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ فروری 2025

Loading