تصور آخرت سے عاری معاشرہ
تحریر۔۔۔اوریا مقبول جان
قسط نمبر 1
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ تصور آخرت سے عاری معاشرہ۔۔۔ تحریر ۔۔۔ اوریا مقبول جان)جرم و سزا کی دنیا وقت کے ساتھ پیچیدہ اور گھنجلک ہوتی چلی جا رہی ہے۔ جہاں انسان نے جرم کا سراغ لگانے کے لیے نت نئی ایجادات کیں، بیشمار طریقے اختیار کیے ، وہیں مجرموں نے جرائم کرنے اور انھیں چھپانے کے سو طریقے ڈھونڈ نکالے۔ شہر بڑے ہوئے تو جرم بھی تکنیکی اعتبار سے مضبوط ہوتا چلا گیا اور انسانی معاشرہ سے جرائم کے خاتمے کے لیے بھی اداروں کا جال بچھتا چلا گیا۔لیکن جرم و سزا کی اس داستان کا مرکزی خیال وہی ہے کہ قانون جس کام کوجرم قرار دے دے ،وہی جرم ہے، وہی قابلِ تعزیر ہے، قابلِ دست اندازئی پولیس ہے اور اسی کا مجرم سزا کا مستحق ہے۔
خاوند یا بیوی کو دھوکا دینا چونکہ اسقدر بڑا جرم نہیں کہ اس کے مجرم کو سزا دی جائے تو ایسا کرنے والے کے خلاف دوسرا فریق صرف طلاق کا مقدمہ درج کر کے علیحدگی اختیار کر سکتا ہے۔ لیکن اس علیحدگی کے نتیجے میں جو اولاد پر بیتتی ہے، جو ان کی نفسیاتی نشونما اور اخلاقی تربیت متاثر ہوتی ہے۔
وہ عمر بھر کے لیے نفسیاتی الجھنوں کو ساتھ لیے پھرتے ہیںلیکن اس جرم کا مقدمہ دنیا کے کسی بھی ترقی یافتہ ملک بھی دائر نہیں ہو سکتا۔ لاکھوں کے حساب سے جنس کا کاروبار کرنے والی خواتین جنھیں آج کے انسانی حقوق کی دنیا میں سیکس ورکر کے ’’باعزت لقب ‘‘سے یاد کیا جاتا ہے ، اگر وہ اپنے اس پیشہ یا پروفیشن کے مخصوص حالات کی وجہ سے بد ترین بیماریوں کا شکار ہو کر بسترِمرگ سے لگ جاتی ہیں تو کیا آج کے دور کاکوئی مہذب معاشرہ دنیا میں وجود رکھتا ہے کہ ان لوگوں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کر کے جن کی ہوس نے ان عورتوں کو موت کے دروازے پر جا پہنچایا ہے۔
یہ الگ بات ہے کہ ایسی خواتین کی مدد کے لیے عالمی سطح پر این جی اوز متحرک ہو جاتی ہیں لیکن چونکہ قانون ایسا کرنے والوں کو مجرم نہیں گردانتا ، حکومت انھیں صرف بد احتیاط کہہ کر چپ ہو جاتی ہے ، اس لیے چاہے ہزاروں عورتیں جان سے چلی جائیں ان مجرموں پر مقدمہ نہیں چل سکتا۔ایسے ہزاروں معاملات ہیں جہاں انسانوں نے اپنے مفادات کے تابع قانون سازی کی اور آج اس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں ۔آپ ہر ایسے قانون کا مطالعہ کر کے دیکھ لیں جہاں انسان کے وضع کردہ ضابطئہ اخلاق کے تحت بہت سے جرائم کو قانون کی فہرست سے خارج کر دیا گیا تو وہاں آپ کو اس کے پسِ پردہ اربوں ڈالر کا مفاد نظر ضرورآئے گا ۔
شراب پینا جرم نہیں ہے ، لیکن شراب پی کر گاڑی چلانا، جہاز اُڑانا جرم ہے۔ اس لیے کہ اس کے پیچھے اربوں ڈالر کا شراب کا کاروبار ہے۔ میڈیسن کے علم کے مطابق شراب کے استعمال سے جو بیماریاں پیدا ہوتی ہیں انھیںAlcholism سے جڑی بیماریوں اور پاگل پن کا کہا جاتاہے۔اسی طرح عورتوں کے کاروبار کو دنیا کے کسی ’’مہذب‘‘ ملک میں بذات خود منع نہیں کیا گیا ہے۔یعنی اگر ایک عورت خود اپنا جسم بیچتی ہے تو وہ جرم نہیں ہے، البتہ اس عورت کو ایسا کرنے پر مجبور کرنے یا پھر اس کے ایسا کرنے کی دلالی یا موجودہ دورمیں مارکیٹنگ جرم ہے ۔ فحش فلموں کا کاروبار بذاتِ خود جرم نہیں ہے، البتہ ان فلموں میں کام کرنے والوں کے لیے بالغ یعنی 18سال کا ہونا ضروری ہے۔اس لیے کہ اس کے پیچھے اربوں ڈالر کی انڈسٹری ہے۔ عورت کو کاروبار کے لیے استعمال کرنا جرم ہے لیکن کاروبار کی مارکیٹنگ کے لیے اسے نیم برہنہ تک کر کے اور پھر ہر چوک و چوراہے پر اس کی تصاویر لگانا کوئی جرم نہیں ہے۔ انسان نے جب بھی قانون سازی کی اسے اپنے ذاتی سیاسی اور کاروباری مفاد کے تا بع رکھ کر کیا۔ بے راہ روی کو رواج دینے کے لیے شادی کی ایک حد مقرر کر دی گئی اور اس کے لیے سو طرح کی دلیلیں گھڑی گئیں ، پوری دنیا میں ممالک سے قانون مرتب کروائے گئے ۔ اٹھارہ سال سے کم عمر کی شادی پر پابندی لگا دی گئی ، نتیجہ یہ نکلا کہ صرف امریکا میں ہر سال دس لاکھ اٹھارہ سال سے کم عمر لڑکیاں مائیں بنتی ہیں۔ یعنی قانون کے مطابق اٹھارہ سال سے کم عمر کی شادی جرم ہے اور قابلِ دست اندازی پولیس ہے۔لیکن اٹھارہ سال سے کم عمر ماں بننا جرم نہیں بلکہ ایک معاشرتی مسئلہ ہے اوراس کے لیے این جی اوز کو آگے آنا چاہیے اور ان لڑکیوں کی مدد کرنا چاہیے۔
آپ دولت جمع کریں، ڈھیر لگا دین ، ذاتی عیاشیوں پر خرچ کریں اس دنیا میں کو ئی قانون آپ کو گرفت میں نہیں لے سکتا بھی نا مکمل کام انصاف ہے کہ اس وقت دنیا میں 430 کے قریب ایسے افراد ہیں جن کی دولت اگر دنیا میں تقسیم کر دی جائے تو کوئی ہو گا، نگاہ ہے روز گار نہ رہے۔ 50 لوگوں کے پاس دنیا کی 265 دولت ہے۔ لیکن کوئی قانون انہیں اس دولت کو فریوں پر تقسیم کرنے کے لیے جزا اور تقسیم نہ کرنے پر سزا نہیں دیتا۔
انسانوں نے اپنے لیے قانون بنائے ،معاشرے تخلیق کیے ،لیکن یہ تمام قوانین موجودہ سیکولر نظام ِ زندگی کا تحفہ ہیں ۔سیکولر نظامِ زندگی کی کوکھ سے سرمایہ دارانہ جمہوریت نے جنم لیا جس نے انسانوں کو یہ پٹی پڑھائی کہ مذہبی اخلاقیات اور قوانین کا تعلق نہ حکومت سے ہے اور نہ ہی اجتماعی زندگی سے ۔انسانوں کی اکثریت جیسا قانون چاہے بنا سکتی ہے اور اسے نافذ کر سکتی ہے اور یہی بہترین طرزِ زندگی اور انصاف کا موجودہ خوبصورت تصور ہے ۔یعنی سب جرم ،سزا،عدل و انصاف اسی دنیا میں ہی ہو گا چونکہ اس کائنات کا کوئی خالق نہیں ہے جو قانون عطا کرنے کا اختیار رکھتا ہو،اس لیے کہ آخرت بھی وجود نہیں رکھتی ۔ہمیں اسمبلیوں کے ذریعے ہی انصاف کو قوانین کے ذریعے نافذ کرنا ہے۔آپ دنیا کے دو سو کے قریب ممالک کے قوانین کامطالعہ کر لیں، آپ سوچتے سوچتے بے بس ہو جائیں گے، لیکن آپ حتمی اور آخری انصاف کی ایک جھلک بھی وہاںنظر نہیں آئے گی۔ یہ سب کے سب قوانین انسانوں کو مکمل انصاف فراہم کرنے سے قاصر ہیں ۔وہ قانون جس سے بچ نکلنے کے ہزار راستے موجود ہوں ،وہاں مکمل انصاف کا تصور ہی نہیں ہو سکتا۔جہاں شہادت تلف کر کے گواہ خاموش کروا کر انصاف کو روکا جا سکے وہاں کیسے مکمل انصاف کیا جا سکتا ہے ۔
اﷲ اورآخرت کے تصور کے بغیر نہ معاشرے تخلیق پا سکتے ہیں اور نہ ہی مکمل انصاف کا تصور وجود میں آتا ہے۔
تصور کیجیے دنیا کے مہذب ترین ممالک کا اور پھر ۔۔۔جاری ہے۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ فروری 2016