Daily Roshni News

چاند کے قیدی۔۔۔ سیما غزل از  قلم

چاند کے قیدی

سیما غزل از  قلم

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ چاند کے قیدی۔۔۔ سیما غزل از  قلم )میں نے بڑی مشکل سے خود پر قابو پایا ۔ اب میں خاموش ہو چکا تھا ۔ کمرے میں چاروں طرف دیواروں پر بنے شمع دانوں میں موم بتیاں جل رہی تھیں ۔ سیاہ دیواروں پر عجیب اور ہیبت ناک تصویریں اور مجسمے کندے ہوئے تھے ۔ میرے بالکل قریب ایک ڈھانچہ نما شخص پیشانی پر چندن کا کشقہ لگائے بیٹھا تھا ۔ میری ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ سی ہونے لگی ۔ شرف الدین کہیں نہیں تھا ۔ وہ ڈھانچہ نما شخص وہی سادھو تھا ۔ مجھے یوں لگ رہا تھا جیسے چہرہ تو اسی سادھو کا ہے لیکن جسم کسی اور کا ہے ۔ کیونکہ جس سادھو کو میں نے کچہری میں دیکھا تھا وہ تو خاصا فربہ جسم کا تھا اور یہ جیسے ڈھانچہ ہو ۔

وہ اپنی آنکھیں مجھ پر گاڑے بیٹھا تھا ۔ پھر وہ اپنی تکلیف دہ آواز میں بولا ۔

،، اس انگوٹھی کو اتار دو وقار الحسن!،، میں تم سے بات کرنا چاہتا ہوں ۔  میں نے بھی اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں ۔ کمرہ روشن ہونے کے باوجود بھی فیروزے سے نکلنے والی روشنی کم نہیں ہوئ تھی ۔ بلکہ مجھے یوں لگ رہا تھا جیسے وہ نیلی نیلی

 روشنی میری نسوں میں داخل ہو رہی ہو ۔

،، میں سن رہا ہوں ، تم بات کرو ،، میں نے بھاری اور سپاٹ آواز میں کہا

،، اس انگوٹھی کی موجودگی میں تم سے بات کرنا ممکن نہیں ہے اسے اتار دو میں تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچاؤ گا ۔

مجھے اس کے وجود سے سخت کراہیت محسوس ہو رہی تھی ۔ میں نے اتنی غلیظ شخصیت اپنی زندگی میں پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی ۔ میرا جی چاہا کہ اسے کہہ دوں میں تم سے بات نہیں کرنا چاہتا مگر میں ایسا نہیں کہہ سکا ۔

میں نے اتنی اذیت صرف اس لیے اٹھائ تھی کہ میں اس سے مل کر اپنی اس پراسرار قوت کے بارے میں جاننا چاہتا تھا ۔ محض یہی بات تھی جس کی وجہ سے میں اسے برداشت کر رہا تھا ۔ میں چند لمحے سوچتا رہا اس کی وجہ سے رحیمو قتل ہوا اور خورشید چچا موت کے گھاٹ اترے ۔ پھر میں نے کہنا شروع کیا ۔

،، تم جس قدر مجھے نقصان پہنچا سکتے تھے تم نے پہنچا لیا ۔ اب میری باری ہے ،،

میں نے اس کی آنکھوں میں بے چینی سے پھیلتی محسوس کی ۔

اس کی بے چینی اور آنکھوں کی جنبش نے پھر میرے دماغ میں کھرونچے ڈالنے شروع کر دیے ۔ میرے اعصاب پھر سے اکڑ گئے ۔ لیکن میں اپنی تمام تر قوت کو جمع کر کے اس کے سامنے ڈٹا رہا

،، میں تم سے کوئی دشمنی نہیں چاہتا بلکہ میں تمہاری طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانا چاہتا ہوں ،، اس کی کھرکھراتی ہوئ آواز بہت ناگوار تھی ۔

،، تمہارا رویہ میرے ساتھ دشمنوں والا ہے ۔ میرا دوست شرف الدین کہاں ہے ؟ میں نے پوچھا

،، وہ محفوظ ہے ،،

،، میں نے یہ نہیں پوچھا ، میرے ہوتے ہوئے تم اسے کوئی نقصان پہنچا بھی نہیں سکتے ۔   میں نے پوچھا ہے کہ وہ کہاں ہے ؟

اپنے لہجے کی گرج اور اعتماد دیکھ کر مجھے خود بھی حیرت ہوئی ۔

،، ابھی میں تم سے بات کرنا چاہتا ہوں ، تنہائی میں ۔۔۔

لیکن میں اس کی موجودگی کو تمہاری بات سے زیادہ اہم سمجھتا ہوں ۔ جو بات کرنی ہے اس کے سامنے کر سکتے ۔ میں نے کرخت لہجے میں کہا ۔

وہ چند لمحے مجھے دیکھتا رہا پھر اس نے آنکھیں بند کر لیں ۔

عین اسی لمحے گھور تاریکی چھا گئی ۔ میں بے چینی سے کھڑا ہو گیا ۔ یہ احساس شدید ہو گیا کہ میں اکیلا ہوں ۔  

،، بیٹھ جاؤ وقار الحسن! اس سادھو کی آواز نے مجھے چونکا دیا

میں شرف الدین کی وجہ سے بہت پریشان تھا ۔ نجانے اس کے ساتھ کیا ہوا اور وہ کہاں ہے ۔ یہ سوچ مجھے سکون نہیں لینے دے رہی تھی ۔  اگر سادھو کو یہ پتہ چل گیا کہ میں اس پر یونہی روعب ڈال رہا ہوں مجھے اپنی کسی پوشیدہ قوت کا پتہ نہیں ہے تو وہ مجھے چھوڑے گا نہیں ۔

میں نے کمال ضبط کا مظاہرہ کیا ۔ اور اندھیرے میں خدا سے مدد طلب کرتا رہا ۔ میں نے پھر سورہ الناس پڑھنا شروع کر دی ۔ ابھی چند لمحے ہی گزرے ہوں گے کہ کمرہ دھیرے دھیرے روشن ہونا شروع ہو گیا ۔

،، نہیں ۔۔۔۔۔۔۔ نہیں ۔۔۔۔۔۔۔ یہ مت کرو ۔۔۔۔۔۔ مت پڑھو ۔ ،، میں نے سادھو کی گھبرائ ہوئ آواز سنی ۔

میں نے مزید تیزی سے پڑھنا شروع کر دیا اور میری آواز بھی بلند ہوتی گئی ۔ اسی لمحے میں نے انگوٹھی کے فیروزے کو چمکتا ہوا محسوس کیا ۔ ابھی کمرے میں روشنی پوری طرح نہیں پھیلی تھی کہ مجھے محسوس ہوا میرے پیچھے کوئی بھاری بھرکم چیز

آ گری ہے ۔ سادھو پیچھے کی طرف سرک رہا تھا ۔ اس کے نوکیلے کندھے کچھ اور جھک گئے تھے ۔ اس کے سیاہ ہونٹوں سے نکلتا جھاگ زیادہ ہو گیا تھا ۔ اس کے چہرے پر تکلیف کے آثار تھے ۔

  آنکھیں وحشت ناک انداز میں سکڑی ہوئی تھیں ۔ ابھی میں اس کی طرف دیکھ ہی رہا تھا کہ اپنی پشت پر شرف الدین کی آواز سن کر اچھل پڑا ۔

،، ہائے ۔۔۔۔۔۔۔ ہائے دیکھا ناں ۔۔۔۔۔ گرا دیا مجھے ۔،،

میں نے پلٹ کر دیکھا ۔ وہ اپنی کمر تھامے ، آنکھیں میچے عجیب بکھرے ہوئے سے انداز میں پڑا تھا ۔ شرف الدین ۔۔۔ میں نے اسے آواز دی

،، ارے تم کہاں چلے گئے تھے ؟ اس نے آنکھیں کھولتے ہوئے کہا ۔ دوسرے ہی لمحے سادھو پر نظر پڑتے ہی وہ اچھل کر کھڑا ہو گیا ۔

 یہ ،،، یہ ۔۔۔۔

میں اب بھی سورہ الناس پڑھ رہا تھا ۔ میں نے اسے بھی اشارہ کیا کہ وہ بھی پڑھے ۔ وہ میرا اشارہ فورآ سمجھ گیا ۔  اس نے میرے ساتھ پڑھنا شروع کر دیا اس کے ساتھ ساتھ وہ حیرت سے کمرے کا جائزہ بھی لیتا جا رہا تھا ۔ میں اسی پوزیشن میں آلتی پالتی مارے بیٹھ گیا ۔ شرف الدین بھی جلدی سے میرے قریب آ کر اسی پوزیشن میں بیٹھ گیا ۔ 

سادھو ایک انجانی سی اذیت میں مبتلا نظر آتا تھا ۔ اچانک وہ کچھ اور جھک گیا ۔ وہ گھٹنوں کے بل ہاتھ زمین پر جھکائے ، جھکا ہوا تھا ۔  اس کا چہرہ مزید بدہیت ہو گیا تھا ۔ اب کمرہ پوری طرح روشن ہو چکا تھا ۔ میں اور شرف الدین ، سادھو کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے ۔ وہ اس طرح جھکتا جا رہا تھا جیسے کوئی اس کی کمر پر بوجھ لاد رہا ہو ۔ اس کی سانس بری طرح پھول گئ تھی ۔ ہم دونوں حیرت سے اس کو دیکھے جا رہے تھے ۔

اچانک اس نے ہاتھ ہماری طرف بڑھایا اور چلایا ۔

،، نہیں ۔۔۔۔۔ نہیں کرو ۔۔۔۔۔ بس کرو ۔ یوں لگ رہا تھا جیسے اس کا دم گھٹ رہا ہو۔ عین اسی لمحے اس کی گدی پر خون کی لکیریں سی بہتی نظر آئیں ۔ خون کے قطرے زمین پر گرتے تو یوں چھن کی سی آواز آتی جیسے گرم توے پر پانی کی بوندیں ٹپکا دی گئی ہوں ۔ ہم دونوں آنکھیں پھاڑے اس کی یہ حالت دیکھ رہے تھے ۔

اس وقت مجھے یوں لگا جیسے میں خوف سے چیخ پڑوں گا ۔

میں نے اتنا خوفناک بچھو کبھی نہیں دیکھا تھا اور نہ ہی اس قسم کے بچھو کے بارے میں سنا یا پڑھا تھا ۔

وہ ایک بہت بڑا ، ہاتھ بھر جتنا سیاہ بچھو تھا ۔ اس کی آنکھیں ہم پر جمی ہوئی تھیں ۔ وہ سادھو کی گردن میں گدی پر چمٹا ہوا تھا ۔ اس بچھو نے کسی کیکڑے کی طرح سادھو کی گدی میں اپنے پاؤں گاڑے ہوئے تھے ۔  خون کی باریک لکیریں بھی انہی جگہوں سے بہہ رہی تھی ۔

   اس کا خوفناک ڈنک اوپر کو مڑا ہوا تھا اور وہ ہر پل سادھو کی گدی پر ڈنک مار رہا تھا ۔  اب میں سمجھ گیا کہ سادھو کس اذیت میں مبتلا ہے ۔  شرف الدین پڑھنا بھول کر اسے ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا تھا ۔

،، شرف الدین ۔۔۔ پڑھتے رہو ،، میں نے چلا کر کہا ۔ اسی لمحے مجھے محسوس ہوا کہ میرا پورا جسم پسینےمیں شرابور ہے ۔ ہم نے پھر سے پڑھنا شروع کر دیا ۔ اس کے ساتھ ساتھ میں نے دروازے کی تلاش میں نگاہیں دوڑائیں مگر مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ یہاں کسی دیوار میں کوئی دروازہ یا کھڑکی نہیں تھی ۔ اس کے ساتھ ہی ہم نے پیچھے کی جانب سرکنا شروع کر دیا ۔

،، تم اس اذیت سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہو تو اس کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ہم یہاں سے چلے جائیں ،، میں نے مضبوط لہجے میں کہا ۔ میں اس منظر سے دہشت زدہ ہو چکا تھا ۔

اچانک دیوار کا کچھ حصہ جیسے ہوا میں تحلیل ہو گیا ہو ۔ یہ دیکھ کر میری جان میں جان آئی کہ اتنا خلا بن گیا تھا کہ اس میں سے ہم آسانی سے اس قید خانے سے نکل سکتے تھے ۔ 

میں سادھو پر نظریں جمائے آہستہ آہستہ دروازے کی طرف بڑھنے لگا ۔

،، اور غور سے سنو ،! اگر دوبارہ تم نے مجھے نقصان پہنچانے کی کوشش کی تو اس سے زیادہ اذیت کا شکار ہو گے ۔ اب میں تمہارے ہر وار کو روکنے کی طاقت رکھتا ہوں ۔،،

وہ انکار میں سر ہلاتا رہا مگر جھاگ بھرے منہ سے ایک لفظ نہیں نکال سکا میں نے اتنا ہی غنیمت جانا اور دروازے کی طرف سرکنے کی رفتار تیز کر دی ۔ نہ معلوم میرے ذہن میں کیا آیا میں نے ایک دم آیت کرسی پڑھنا شروع کر دی   اور پھر خود پر اور شرف الدین پر پھونک مار کر دروازے سے باہر نکل آیا ۔ جس وقت ہم باہر نکل رہے تھے سادھو کے چیخنے کی آوازیں بڑھ گئی تھیں ۔ اس کی آنکھیں خوف سے ابلتی جا رہی تھیں ، رنگ نیلا پڑ چکا تھا ۔

اچانک وہ چیخ مار کر اوندھے منہ گر پڑا ۔ یہ وہی لمحہ تھا جب ہم نے کمرے سے باہر قدم رکھا ۔ زمین پر قدم رکھتے ہی ہم دونوں لڑکھڑا گئے ۔ یوں لگا جیسے ہم نے کہیں اوپر سے چھانگ لگا دی ہو

 یہ کھنڈر کے انتہائی دائیں جانب والا حصہ تھا ۔ ہم کھنڈر کی بیرونی دیوار سے باہر کھڑے تھے ۔ ہماری بائیں جانب کیچڑ اور پانی سے بنی دلدل تھی اور اس کیچڑ میں بلبلے سے پھوٹ رہے تھے ۔

دروازہ نما وہ خلا ختم ہو چکا تھا ۔ دیوار اور اس دلدل کے درمیان صرف اتنی جگہ تھی کہ اگر ہم   زرا سی بے احتیاطی کرتے تو سیدھے دلدل میں جا گرتے ۔ کھنڈر کی دیواریں بالکل سپاٹ تھیں کوئی جگہ ایسی نہیں تھی جسے پکڑ کر سہارا لیا جا سکتا ۔ بہرحال ہم بہت احتیاط سے دیوار پر ہاتھ جما کر آگے بڑھے ۔ کچھ دور جا کر دلدل ، دیوار سے دور ہو گئ ۔ یہ تھوڑا سا فاصلہ بھی عبور کرتے ہوئے ہمارے پسینے چھوٹ گئے ۔  

قدرے کھلے حصے میں آ کر میں بے دم سا ہو کر گر پڑا ۔ میں نے چاروں طرف نگاہ دوڑائی ابھی سرکنڈوں کے اس جنگل کو بھی عبور کرنا تھا یہ ہمارے لیے ایک اور امتحان تھا ۔ خیر کچھ دیر بعد ہم چل پڑے اور کسی نہ کسی طرح اس جنگل سے نکلے ۔ ہم دونوں بالکل خاموش تھے ۔

ہم باہر نکلے تو سب کچھ ویسا ہی تھا اب وہ عورتیں واپس جانے کے لیے تانگوں کی طرف جا رہی تھیں ۔ ایک طرف وہ تانگا بھی کھڑا تھا جس پر ہم آئے تھے۔ شرف الدین تیزی سے اس جانب لپکا

   ،، اے بھائی صاحب ۔۔۔ شرف الدین نے اس کا کندھا پکڑ کر ہلایا ۔

وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا ۔

آں ۔۔۔۔ ہاں ۔۔۔ کیا ہے ۔۔۔۔ اوہ ۔۔۔ آپ لوکاں ؟ اس نے جلدی سے اٹھتے ہوئے کہا ۔ ،، اتی جلدی کائے کو آ گئے ؟ ہم تو سمجھے تھے گھنٹے بھر سے زیادہ ہی لگے گا ۔

میں اور شرف الدین حیران رہ گئے ۔ جس قسم کی وہ باتیں کر رہا تھا اس سے لگتا تھا کہ ہمیں واپس آنے میں زیادہ دیر نہیں لگی

   وہ کہہ رہا تھا کہ آپ کو واپس آنے میں آدھا گھنٹہ لگا ہو گا ۔

ہم واپس چل پڑے ۔ تانگے والا بہت باتونی تھا ۔ کچھ نہ کچھ بولے چلا جا رہا تھا ۔ ہم گھر پہنچے ۔

،، بڑی جلدی لوٹ آئے ۔،، اماں نے کہا

میں اور شرف الدین پھر چونک اٹھے ۔ ہاں اماں بس آ گئے واپس ۔

سنہرے بابا نہیں ملے ہم نے ان کا بہت انتظار کیا ۔

ہمارے ہاتھ اور منہ مٹی سے اٹے ہوئے تھے ۔ ہم نے ہاتھ منہ دھویا

پھر وضو کر کے عشا کی نماز پڑھی ۔

ہم نماز پڑھ کر تایا کے پاس جا بیٹھے ۔

ارے ہاں ۔۔۔ وقار میاں! وہ آیا تھا ۔۔۔۔ کیا نام ہے ۔۔۔۔؟ ارے وہ رمضو کا بیٹا ۔

،،لڈن ؟،، میں چونک اٹھا ۔

،، ہاں بھئی وہی ۔۔۔ عجیب بات کی اس نے ۔ تایا نے خلاؤں میں گھورتے ہوئے کہا ۔

،، کیا ۔۔۔۔ کیا بات ؟،،

،، تم سنو گے تو یقین ہی نہیں کرو گے ۔ یقین تو مجھے بھی نہیں آیا مگر اس کے چہرے سے تو نہیں لگ رہا تھا کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے ۔  تمہیں پوچھ رہا تھا ۔ تمہاری اماں سے بھی ملا   ۔ ہم نے کہا کہ انتظار کرو تم واپس آ جاؤ گے ۔ مگر وہ بیٹھا ہی نہیں ، کہنے لگا خورشید چچا کے کام سے جا رہا ہوں ۔ لوٹ آؤں گا ۔،،

،، خورشید چچا کے کام سے ؟ کیسا کام ؟ ہم دونوں بیک وقت بول پڑے

یہ تو نہیں بتایا ، میں تو اس کی آواز سن کر ہی گڑبڑا گیا یہ پوچھنے کا تو خیال ہی نہیں آیا ۔ وہ کہہ رہا تھا کہ کل رات خورشید چچا نے اسے تمہارا پیغام دیا کہ وہ فوراً یہاں آ جائے ۔ سنا تم نے ؟ وہ مجھے ہونقوں کی طرح بیٹھا دیکھ کر بولے ۔

کل رات خورشید چچا نے امروہہ میں یہ پیغام دیا تھا ۔ یعنی اس وقت جب وہ یہاں ہسپتال میں زندگی اور موت کی کش مکش میں تھے ۔  ، اس وقت وہ اسے امروہہ میں یہ پیغام دے رہے تھے ۔

وہ زندگی کی جنگ ہار گئے اور آج صبح سویرے ہم نے انہیں دفنا دیا مگر وہ انہی کے کسی کام سے گیا ہے ، کہتا تھا کہ اگر آج کام

 نہ کیا تو خورشید چچا بہت ڈانٹیں گے ۔ میں نے یہ سب سن کر اسے خورشید چچا کی موت کے بارے میں نہیں بتایا ۔

ان کی بات ختم ہوتے ہی میں اٹھ کھڑا ہوا ۔ اماں بھی اسی وقت کھانے کی ٹرے لیے آ گئیں ۔ اور لڈن کے بارے میں کہا کہ وہ صبح سویرے آنے کا کہہ گیا ہے ۔ میں پھر بیٹھ گیا ۔

تایا نے بھی ہمارے ساتھ کھانا کھایا ۔  کھانا کھا کر ہم بیٹھک میں چلے آئے ۔ وہاں پہنچتے ہی میں لیٹ گیا ۔ شرف الدین بھی دیوان پر لیٹ گیا ۔

وقار الحسن ۔۔۔ یوں لگ رہا ہے جیسے کوئی بھیانک خواب دیکھا تھا ۔

اب میرے ذہن میں حویلی اور وہاں کے معاملے چکرانے لگے تھے میں اب جلد از جلد ان حالات سے جھٹکارا چاہتا تھا ۔

چاند کے قیدی

سیما غزل

قسط نمبر 48

اس دن دوپہر میں کھانے کے دوران چھوٹے چچا اور چچی نے بہت

تماشا کیا ان کا سارا زور جائیداد کا حصہ حاصل کرنے میں تھا ۔ ان کی زبانوں نے ان کے تمام عزائم کو ظاہر کر دیا تھا ۔ انہوں نے نہ تایا کی عمر کا خیال رکھا اور نہ ہی اماں کے رتبے کا ۔ دوپہر کا کھانا اس بدمزگی کا شکار ہو گیا ۔ اماں نے تایا سے کہا کہ وہ وکیل کو بلوا کر آج کے آج ہی یہ معاملہ نمٹا دیں ۔ ہر کسی کو جائیداد میں سے حصہ دے دیا جائے تاکہ روز روز کی بدمزگی سے چھٹکارا حاصل ہو ۔

اس شام میں اور شرف الدین جا کر ٹکٹ لے آئے امروہہ جانے کے ۔

 لڈن کا کہیں پتہ نہیں تھا ۔ مجھے صبح ہی سے اس کا انتظار تھا ۔ اماں نے کہا تھا کہ اس نے صبح آنے کا کہا تھا مگر اب شام ہو چکی تھی ۔ ایک بے چینی سی مجھے پریشان کیے دے رہی تھی ۔ کوئی پتہ نہیں تھا اس کا جہاں جا کر میں اس کا پتہ کرتا ۔ ہم امروہہ جانے کے ٹکٹ لے آئے تھے اور وہ اب یہاں سے بھی غائب تھا

شام کو وکیل صاحب آ گئے ۔ اماں اور تایا نے ان کو ضروری کاغذات تیار کرنے کے لیے کہا ۔ جس پر انھوں نے وعدہ کیا کہ ایک ہفتے تک وہ کاغذات تیار کر دیں گے ۔ اماں نے سکھ کا سانس لیا کہ وہ آرام سے ایک ہفتہ امروہہ رہ لیں گی ۔ بہرحال ہم اگلے روز امروہہ جانے کے لیے تیار تھے ۔

شرف الدین ٹکٹ لینے کے بعد گھر چلا گیا تھا ۔ ہمارا پروگرام دس ، گیارہ بجے نکلنے کا تھا ۔ میں نے شرف الدین سے کہا کہ اگر وہ رات کو آ جائے تو ہم سنہرے بابا کی طرف چلیں گے ۔ مجھے ان کے ملنے کی امید تو نہیں تھی مگر ہو سکتا تھا کہ اس مجذوب سے ملاقات ہو جاتی ۔ 

خیر رات ہوتے ہی شرف الدین آ گیا اور میں اماں سے جلد آنے کا کہہ کر نکل آیا ۔ ہم مسجد کی طرف چل دے ۔ باتوں میں پتہ ہی نہیں چلا اور ہم مسجد  پہنچ گئے ۔ ہم نے اس فقیر بابا کو آس پاس دیکھا مگر وہ کہیں نہیں نظر آئے اور سنہرے بابا کے حجرے پر بھی تالا لگا ہوا تھا ۔ عشا کی نماز ہم نے وہی پڑھی اور واپس

گھر کی جانب چل پڑے ۔ گھر آیا تو بہنوں نے ضد پکڑ رکھی تھی

ہم نے نیا مکان دیکھنے جانا ہے اماں سے اجازت لے کر ہم تینوں باہر کی جانب چل پڑے ۔ ہم باہر آئے تو لڈن کو شرف الدین کے پاس کھڑے دیکھ کر میں بھونچکا رہ گیا ۔

،، تم ۔۔۔۔ تم کہاں تھے ؟۔ تمہیں تو صبح آنا تھا ۔،،

،، وہ ۔۔۔ بس چھوٹے مرزا ۔۔۔۔ ایک کام میں پھنس گیا تھا ۔،،

ٹھیک ہے تم اندر جاؤ ۔ تایا اور اماں سے مل لو ، اور اب کہیں نہیں جانا ۔ میں واپس آ کر تم سے بات کرتا ہوں ۔ میں نے نوٹ کیا کہ لڈن کی حالت بہت خراب تھی ۔ اس کا سانس پھولا ہوا تھا ۔ اور وہ بار بار اپنے چہرے سے پسینہ صاف کر رہا تھا ۔

ہم چاروں ٹہلتے ہوئے نئے مکان کی جانب چل پڑے ۔ ہوا میں خنکی دھیرے دھیرے پھیل رہی تھی ۔ ابھی ہم نے گلی بھی عبور نہیں کی تھی کہ مجھے پیچھے سے کسی کے پکارنے کی آواز آئ ۔ میں نے اور شرف الدین نے پلٹ کر دیکھا تو تایاہانپتے  کانپتے چلے آ رہے تھے ۔ وہ ہمیں ہاتھ ہلا ہلا کر آوازیں دے رہے تھے ۔

ہم پلٹ کر ان کی طرف تیزی سے بڑھے ۔ ہم جونہی ان کے قریب پہنچے میں تایا کا چہرہ دیکھ کر حیرت زدہ رہ گیا ۔ ان کے چہرے پر بلا کی وحشت تھی ۔

،، کیا ہوا ۔۔۔۔ کیا بات ہے ؟ تایا ۔

،، وہ لڈن ۔۔۔۔ لڈن کو کچھ ہو گیا ہے ۔

اتنا سنتے ہی میں اور شرف الدین گھر کی طرف دوڑ پڑے ۔ دروازہ کھلا ہوا تھا ۔ بڑے برآمدے کی محرابوں میں ٹنگی ہوئی لالٹینوں کی روشنی میں ، میں نے لڈن کو صحن کے بیچ تڑپتے دیکھا ۔ اماں

اس پر جھکی کچھ پوچھ رہیں تھیں ۔ میں بھاگتا ہوا اس کے قریب پہنچ کر بیٹھ گیا ۔

،، کیا ہوا ۔۔۔۔ لڈن کیا ہو گیا ہے ۔ ؟ میں نے اس کے ماتھے پر چپکے بال پیچھے کرتے ہوئے پوچھا اور پھر اچھل کر کھڑا ہو گیا ۔

اس کے دہانے کے دائیں کونے میں سے سفید سفید سا جھاگ باہر آ رہا تھا ۔ اس کی آنکھیں پھٹی ہوئی سی تھیں ۔  میں نے اماں سے چیخ کر لالٹین لانے کو کہا ۔ وہ لپک کر لالٹین اتار لائیں ۔ لالٹین کی روشنی میں اسے دیکھ کر میں لرز اٹھا ۔ اتنی دیر میں شرف الدین اور تایا بھی آ گئے ۔ میں نے اماں وغیرہ کو وہاں سے جانے کو کہا اور پھر لڈن کو اٹھا کر بیٹھک کی طرف دوڑ لگا دی ۔ شرف الدین اور تایا بھی اندر آ گئے باقی لوگوں کو میں نے باہر روک لیا اور دروازے کی چٹخنی لگا دی ۔ 

  میں نے پلٹ کر لڈن کی طرف دیکھا تو بے ساختہ قسم کی ایک چیخ میرے ہونٹوں تک آ کر رہ گئی ۔ وہ منظر ہی اتنا ہولناک تھا کہ میں لرز اٹھا ۔ شرف الدین کسی بت کی طرح ساکت کھڑا لڈن کو دیکھے جا رہا تھا ، تایا کی حالت بھی اس سے مختلف نہ تھی ۔

مجھے لگ رہا تھا جیسے میں کھنڈر کے اسی تاریک کمرے میں ہوں

اور وہی سادھو دونوں گھٹنوں کے بل زمین پر ہاتھ ٹکائے جھکا جا رہا ہو ۔ اس کے منہ سے سفید سفید جھاگ نکل کر زمین پر گر رہا تھا ۔ اس کا چہرہ نیلا پڑتا جا رہا تھا ، آنکھیں باہر کو ابلی ہوئ تھیں ۔ فرق صرف اتنا تھا کہ یہ سادھو نہیں لڈن تھا ۔ میری نگاہیں بے ساختہ اس کی گردن کی طرف اٹھ گئیں ۔ باریک خون کی لکیریں مجھے اتنی کم روشنی میں بھی نظر آ رہی تھیں ۔

،، ارے اسے ہسپتال لے جاؤ ۔۔۔ کیا ہو گیا ہے اسے ۔ تایا ایک دم چیخ اٹھے ۔

،، نن ۔۔۔۔ نہیں ۔۔۔۔ نہیں ۔۔۔۔ ،، اس نے سادھو کے انداز میں ہاتھ ہلاتے ہوئے کہا ۔ اس کی سانس پھولی ہوئی تھی ۔

،، چھوٹے مرزا ۔۔۔۔۔ وہ ۔۔۔۔ وہ ۔۔۔۔ یہیں ہے ۔ ۔۔۔۔ یہیں کہیں ۔

مجھے خیال آیا کہ میں آیت کرسی پڑھنا شروع کر دوں مگر یہ سوچ کر سہم گیا کہ کہیں لڈن کا حال بھی سادھو جیسا نہ ہو جائے ۔ وہ بچھو یقیناً اس وقت لڈن کی گدی پر سوار ہو گا اور اسے لہولہان کر دے گا ۔

تایا مجھے بت بنے دیکھ کر اس کی طرف لپکے لیکن میں نے انہیں سختی سے روک دیا ۔

اس کی آنکھوں سے اب پانی بہنے لگا تھا ۔ جھاگ زیادہ ہو گئی تھی ۔ گردن سے بہنے والی خون کی لکیریں سے اب خون نیچے زمین پر قطروں کی صورت میں بہنے لگا تھا ۔ 

،، یہ ۔۔۔۔۔ یہ ۔۔۔۔ خو ۔۔۔۔ خور ۔۔۔ شی ۔۔۔ شید ۔۔۔ چچا ۔۔ نے ۔۔ دی تھی ۔۔۔ یہ ۔۔۔۔ یہ

یہ اس نے شدید اذیت کے عالم میں کہا ۔ ابھی میں کچھ سمجھنے کی کوشش کر ہی رہا تھا کہ اس نے ایک ہاتھ اٹھایا اور ہلکا سا جھٹکا دیا اس کے ساتھ ہی ایک چابی پھسلتی ہوئی میرے پیروں کے قریب آ کر رک گئی ۔ میں نے لپک کر اسے اٹھایا اور حیرت سے تکنے لگا ۔ وہ اس مکان کے اس کمرے کی چابی تھی جہاں رحیمو دفن تھا ۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس مکان کے ہر دروازے کی چابی میرے پاس موجود تھی پتہ نہیں پھر خورشید چچا کے پاس یہ فالتو چابی کہاں سے آئی ۔ مجھے نہیں پتہ تھا کہ وہ کون سا کام تھا جو خورشید چچا نے لڈن کے ذمے لگایا تھا ۔ میں نے وہ چابی جیب میں رکھ دی ۔ تایا پھر سے چیخ اٹھے وہ لڈن کی طرف بھاگے ،، یہ مر جائے گا اسے ہسپتال لے جاؤ ۔

میں نے لپک کر ان کو پکڑ لیا وہ ہاتھوں سے نکلے جا رہے تھے ۔

تایا ۔۔۔۔۔ میں غصے اور گھبراہٹ میں چیخ پڑا ، قریب مت جائیے

۔۔۔ میری بات سنیے ۔۔ بات سنیے ۔۔ میرے چیخنے پر وہ ایک دم چپ ہو گئے ۔

میری نگاہ لڈن کی جانب اٹھ گئ ۔ وہ پورے کا پورا نیلا پڑ چکا تھا

اس کی آنکھیں باہر کو ابل آئ تھیں ۔ آدھا چہرہ منہ سے نکلنے والے جھاگ میں چھپ چکا تھا ۔ عین اسی وقت کمرے میں روشن لالٹین بجھ گئی ۔ کمرے میں ایک ساتھ بہت سی چیخیں گونجی اور مجھے یوں لگا جیسے میں موت کے کنویں میں اترتا جا رہا ہوں ۔  اسی لمحے شرف الدین کی آواز آئ وہ چیخ کر کہہ رہا تھا

،، دیوان پر چڑھ جائیں ۔۔۔۔ دیوان پر ۔۔۔ تایا ۔۔۔ وقار الحسن دیوان پر ۔۔

اور میں تایا کو جکڑے دیوان کی جانب بڑھ گیا جو کہ میرے انتہائی دائیں جانب تھا ۔

،، چھوڑو مجھے ۔۔۔۔ چھوڑو مجھے ۔۔۔۔ یہ کیا بے ہودگی ہے ،،

تایا پھر مچلے اور میرے ہاتھوں کی گرفت سے آزاد ہو گئے ۔

اسی لمحے عجیب کھرکھراتی سی آواز آئ پھر یوں محسوس ہوا جیسے کوئی پکے فرش کو اپنے ناخن سے کھرچ رہا ہو ۔ میں دیوان پر چڑھ چکا تھا اور تایا کو آوازیں دے رہا تھا ۔ شرف الدین بھی میرے قریب تھا مگر مجھے تایا کی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی

میں پاگلوں کی طرح چیخنے لگا ۔

باہر سے اماں ، تائ اور بہنوں کے رونے اور چیخنے کی آوازیں آ رہی تھیں ۔ لگتا تھا جیسے میں کسی طوفاں بلا خیز میں گھرا ہوا ہوں ۔ اچانک مجھے اپنے پیروں پر کھردرا سا لمس محسوس ہوا ۔

اس سے پہلے میں کچھ سمجھ پاتا ۔ سوکھی سوکھی اور پتلی پتلی انگلیوں والے ہاتھ نے میری دونوں ٹانگوں کو ٹخنوں کے اوپر سے جکڑ لیا ۔

ایک بے ساختہ قسم کی طویل چیخ میرے ہونٹوں سے نکلی اور جیسے قیامت سی آ گئی ۔ شرف الدین نے مجھے اپنے دونوں ہاتھوں سے جکڑ لیا ۔ مجھے یوں لگ رہا تھا جیسے کوئی نیچے سے مجھے کھینچ رہا ہو ۔ اگر شرف الدین نے مجھے نہ پکڑ لیا ہوتا تو میں نیچے گر چکا ہوتا ۔ باہر گھر والے چیخ رہے تھے ۔ انہیں نہیں پتہ تھا کہ اندر کیا کچھ ہو رہا ہے ۔

تایا کی آواز نہیں آ رہی تھی میں ان کی وجہ سے سخت پریشان تھا ۔ میرے پیروں میں تکلیف اس قدر بڑھ گئی تھی کہ مجھ سے نہیں کھڑا ہوا جا رہا تھا مجھے لگ رہا تھا کہ میں اب گرا کہ تب گرا ۔

یوں لگ رہا تھا جیسے کسی نے میرے دونوں پیروں کو لوہے کے شکنجے میں جکڑ دیا ہو اور وہ بڑی آہستگی سے اس شکنجے کو تنگ ، مزید تنگ کرتا جارہا ہو ۔ اگر یہی کیفیت رہتی تو میں اپنے پیروں سے جلد ہی محروم ہو جاتا ۔ تکلیف سے میری آنکھیں بھیگ چکی تھیں ۔ اچانک مجھے جھٹکا لگا اور میں لڑکھڑا کر گر پڑا ۔ شرف الدین مجھے پکڑنے کی کوشش کر رہا تھا مگر شدید اذیت سے میرا کھڑے رہنا دوبھر ہو چکا تھا ۔ ان سوکھی اور پتلی انگلیوں کی گرفت مضبوط ہوتی جا رہی تھی اس لیے میں اپنا توازن برقرار نہیں رکھ سکا اور گر پڑا اور پھر شاید میں بے ہوش ہو گیا تھا ۔ بے ہوش ہونے سے پہلے میں نے اپنے قریب بلی کی آواز سنی ۔اس کی غراہٹ اتنی خوفناک تھی کہ ہر آواز پر حاوی ہوتی ہوئی محسوس ہوئ پھر میرا ذہن اندھیرے میں ڈوب گیا ۔

چاند کے قیدی

سیما غزل

قسط نمبر 49

میں نہیں جانتا کہ مجھے کتنی دیر بعد ہوش آیا ۔ لیکن ہوش آنے کے بعد پہلا احساس مجھے اپنے پیروں میں شدید تکلیف کا تھا ۔

دماغ بالکل سن تھا ۔ ذہن پر دھند سی جمی محسوس ہو رہی تھی

کانوں میں عجیب و غریب سی بھنبھناہٹ کی آوازیں تھیں جو ناگوار سا تاثر پیدا کر رہی تھی ۔  میں نے آنکھیں بند کر دی ۔

پھر اچانک دھند چھٹ سی گئی اور میں نے بے اختیار اٹھنے کی کوشش کی پر اٹھ نہ سکا وہ ہسپتال کا کمرہ تھا ۔  لوہے کے اسٹینڈ سے ایک بوتل لٹکی ہوئی تھی ۔  جس سے لگی سوئ میرے بازو میں پیوست تھی بے اختیار اٹھنے کی وجہ سے سوئ ہل گئی تھی اور نس میں چھبن کا احساس ہو رہا تھا ۔

کمرے میں کوئی موجود نہیں تھا جس کی وجہ سے مجھے شدید حیرت ہوئی تھی ۔ بیٹھک کا وہ ہیبت ناک سین یاد آتے ہی بے اختیار میری نظر اپنے پیروں کی طرف گئ ۔ میرے دونوں پیروں سے کچھ اوپر پٹیاں بندھی ہوئی تھیں ۔ لوہے کی ایک راڈ اس طرح رکھی ہوئی تھی جس کی وجہ سے میں اپنے پیر اوپر نہیں اٹھا سکتا تھا ۔ مجھے اپنے پاس گھر کا کوئی فرد نظر نہیں آیا ۔

شرف الدین بھی وہاں نہیں تھا ۔ دور دور تک گہرا سناٹا تھا جس میں مجھے اپنا دم گھٹتا ہوا سا محسوس ہوا ۔

میں نہیں جانتا کہ گھر میں کیا کچھ ہوا تھا میرے بے ہوش ہونے کے بعد ۔ گہرے سناٹے میں جھینگروں کی آوازیں ظاہر کر رہی تھیں کہ یہ رات کا کوئی پہر ہو گا ۔   میں نے اخلاق کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اونچی آواز میں ڈاکٹر کو بلایا ۔ میرے کان کسی آہٹ پر لگے ہوئے تھے مگر مجھے یوں لگا جیسے میری آواز کی بازگشت لوٹ کر آئ ہو ۔  مجھے کمرے میں بھی کسی حرکت کا احساس نہیں ہوا ۔ پھر میری نگاہیں اپنے برابر والے بستر پر جم سی گئیں وہاں کوئی منہ لپیٹے پڑا تھا ۔   اس میں بھی کوئی حرکت نہیں ہوئی تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے میں کسی مردے خانے میں پڑا ہوں

میں نے پھر بلند آواز میں پکارا اس بار بھی   کوئی آہٹ پیدا نہیں ہوئ، برابر والا بھی بے حس و حرکت  پڑا رہا۔

میری ریڑھ کی ہڈی میں ٹھنڈی ٹھنڈی لہریں دوڑنے لگیں۔ میرے اعصاب بری طرح شل ہو گئے۔ میں اندرونی گھبراہٹ کا شکار ہو گیا اور چیخ چیخ کر شرف الدین کو، ڈاکٹر کو آوازیں دینے لگا۔

میری آواز بازگشت کی صورت میں لوٹ کر واپس آتی رہی۔ میں نے تکلیف کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنے پاؤں کو آزاد کرانے کی کوشش کی پر ناقابل برداشت تکلیف کی وجہ سے میرا دماغ چکرا گیا۔

 مجھ پر غشی طاری ہو گئی اور میں بے دم ہو کر گر پڑا۔  میں نے اپنے برابر لیٹے وجود کو اپنی طرف متوجہ کرنا چاہا۔ خشک گلے سے چیخنے کی وجہ سے میرے گلے میں پھندا سا لگ گیا۔ اسی وقت میں نے اس سفید چادر میں حرکت سی محسوس کی۔

وہ شاید جاگ گیا تھا یا شاید نیند میں کسمسا رہا تھا۔ اس کی نیند ٹوٹ رہی تھی۔ اس شخص نے چادر کے اندر لیٹے ہی لیٹے کروٹ لی اور اب اس نے اپنا رخ میری طرف کر لیا۔ چادر اس کے سر سے سرکنے لگی۔ میں آنکھیں پھاڑے اس کا چہرہ باہر آنے کا منتظر تھا۔

میں نے غور سے دیکھا۔ جو کچھ میں نے دیکھا اس پر میں یقین کرنے کو تیار نہیں تھا۔  میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے ۔ وہ سفید رنگ کے باریک اور چھوٹے چاول کے برابر کیڑے تھے جو اس کی پیشانی پر کلبلا رہے تھے ۔     پتہ نہیں اسے کیا بیماری تھی ۔

اچانک اچانک مجھے یوں لگا جیسے میرا سر چھت سے جا ٹکرایا ہو ۔ اس شخص کے چہرے سے چادر ہٹ چکی تھی ۔ اس کے پورے چہرے پر کیڑے کلبلا رہے تھے اور وہ ۔۔۔۔۔ وہ رحیمو تھا ۔ وہی رحیمو جسے ہم اپنے ہاتھوں سے دفن کر چکے تھے ۔  اس کا چہرہ جگہ جگہ سے ادھڑا ہوا تھا ۔ شاید انہی کیڑوں نے اسے کھایا تھا ۔

مجھے بے پناہ خوف محسوس ہوا ۔ وہ اب ایک مردہ تھا جبکہ چند لمحوں پہلےاس نے کروٹ لی تھی ۔

میرے دماغ میں آندھیاں سی چل رہی تھیں ۔ میرے ہاتھ پاؤں یخ ہو چکے تھے ۔ میرے اعصاب آہستہ آہستہ جواب دینے لگے مجھے ایسے لگنے لگا جیسے وہ کیڑے میرے منہ پر بھی رینگ رہے ہوں ۔

میں پھر بے ہوشی کے اندھے کنوئیں میں اترتا گیا ۔

نہ جانے کتنی دیر بے ہوش رہا پھر ہوش میں آیا تو تایا کی آواز کانوں میں پڑی ۔ میں نے آنکھیں کھولی تو محسوس ہوا کہ میں صرف اپنی آنکھوں کو حرکت دے سکتا ہوں میں جسم کو حرکت دینے سے معذور تھا ۔ اس کی وجہ مجھے سمجھ نہیں آئی ۔

اب مجھے سب کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں ۔ سارے میرے قریب تھے مگر میں نہ جانے کیوں بے حس و حرکت تھا جیسے رسیوں سے جکڑا ہوا ہوں ۔

تبھی ڈاکٹر کو بلایا گیا اوراسنے چیک اپ کے بعد مجھے انجکشن لگا دیا سکون آور میں سونا نہیں چاہتا تھا لیکن اس مسکن دوا کی وجہ سے نیند کی وادیوں میں اترتا چلا گیا ۔

میری آنکھ پھر چڑیوں کی چہچہاہٹ سے کھلی ۔ آنکھ کھلتے ہی ڈھیروں روشنی آنکھوں میں بھر گئی ۔  میں اب خود کو حرکت دے سکتا تھا اس پتھریلے پن کے جان لیوا احساس سے نجات مل چکی تھی ۔  کمرے میں اماں اور شرف الدین موجود تھے اور سو رہے تھے ۔  دروازے پر دستک کی آواز سے وہ دونوں اٹھ گئے ، باہر نرس تھی جو ہاتھ میں ادویات کی ٹرے تھامے کھڑی تھی ۔

میرے پیر بھی اب آزاد تھے ۔ 

اتنے میں تایا بھی گھر کا چکر لگا کر آ گئے ۔ مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئے ۔ انہوں نے کہا شکر ہے اتنے روز بعد کوئی خوشی کی خبر دیکھنے کو ملی تمہیں ہوش آ گیا ۔ میرا ذہن ان اتنے روز پر اٹک کر رہ گیا ۔ مجھے نے پریشان ہو کر پوچھا مجھے یہاں آئے کتنے روز ہو گئے تایا ؟

اماں ، تایا مجھے بتائیں وہاں کیا ہوا تھا ؟ اور لڈن ؟ کیا ہوا ؟ کیا وہ مر گیا ؟

میرے اس جملے پر کمرے میں گہرا سناٹا چھا گیا ۔ سب چپ ہو کر میری صورت دیکھنے لگے ۔ ان کے چہرے پر بے بسی تھی ۔

،، کیا بات ہے اماں ؟ میرا دل ہولنے لگا تھا ۔

،، وقار الحسن ۔۔ میں چاہتا ہوں کہ یہ باتیں ہم گھر جا کر کریں ۔ ابھی کچھ دیر میں ڈاکٹر آ جائے گا اور اس کے سامنے ایسی باتیں کرنا مناسب نہیں ۔۔ تایا نے کہا ۔   

میں نے مشکل سے اپنی بے چینی کو چھپایا ۔   اماں کے چہرے پر شدید دکھ کے آثار تھے ۔ مجھے اچانک اپنی انگوٹھی کا خیال آیا ۔

میں نے دیکھا کہ وہ انگوٹھی اب بھی میرے ہاتھ میں موجود تھی

   میں نے شرف الدین سے سنہرے بابا کے بارے میں پوچھا ۔

،، نہیں ۔۔۔۔ میں گیا تھا وہاں ، مجھے فقیر بابا ملے تھے ۔ وہ ناراض تھے کہ ہم ۔۔۔۔۔ وہ کچھ کہتے کہتے رک گیا ۔ اس نے چونک کر اماں اور تایا کی طرف دیکھا

،، کیوں ناراض تھے ؟ اماں نے فوراً پوچھا

،، وہ ۔۔۔۔۔ انہوں نے ہمیں بلایا تھا ہم نہیں گئے تھے میں

 نے گڑبڑا کر  کہا

اتنی دیر میں ڈاکٹر اور نرس اندر داخل ہوئے ۔ ۔انہوں نے اندر آ کر مجھے دیکھا تو میں نے ان سے درخواست کی کہ مجھے گھر جانا ہے ۔ ڈاکٹر نے مجھے کہا کہ میں آپ کے زخموں کو دیکھ لوں اس کے بعد ہی کوئی فیصلہ کر سکوں گا ۔  اگر بہتر حالت ہوئی تو آپ گھر جا سکتے ہیں ۔مگر ہر روز پٹی تبدیل کرانے کے لیے آنا پڑے گا

اتنی دیر میں نرس نے پٹی باندھنے کا سامان    سامنے لا کر رکھا

نرس نے پٹی کھولنی شروع کی

 میری نگاہ اپنے ٹخنوں پر تھی ۔ وہاں ایسا زخم تھا جیسے کسی نے میرے پیروں میں لوہے کے باریک تار ڈال کر کس دیے ہوں یا لوہے کی بیڑیاں پہنا کر چھوڑ دیا ہو ۔ زخم ایک دائرے کی صورت میں تھا ۔ میں نے اپنے پیروں پر انگلیوں کی گرفت محسوس کی تھی ۔ مگر اب جو نشان تھے وہ ایسے تھے جیسے کوئی کڑا میرے پیروں میں دھنس گیا ہو ۔

 میں حیران رہ گیا ۔ شرف الدین نے مجھے چپ رہنے کا اشارہ کیا

،، یہ عجیب وغریب شوق آپ کی جان بھی لے سکتا ہے ،، ڈاکٹر نے زخم کا معائنہ کرنے کے بعد کہا ۔

،، جی ۔۔۔۔ میں نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا ۔

یوں لوہے کے کڑے پہننا کیسا شوق ہوا بھلا ڈاکٹر نے پٹی باندھتے ہوئے کہا ۔ ضروری کارروائی کے بعد ہم ہسپتال سے نکل آئے ۔

  میں چند دونوں تک چلنے پھرنے کے قابل نہیں رہا تھا لیکن یہ خوشی تھی کہ ہسپتال سے فارغ ہو گیا تھا ۔

تایا میں کتنے روز بعد گھر لوٹ رہا ہوں ۔

،، ہاں!بیٹا آج چالیسواں روز ہے ،،

ان کا جملہ میرے پورے وجود میں دھماکہ بن کر گونجا

،، چالیس روز ۔۔۔ میں چیخ اٹھا

شرف الدین نے مضبوطی سے مجھے پکڑ لیا ۔ میں نے حیرت اور خوف سے اسے دیکھا شرف الدین اتنے روز ۔۔۔۔ مجھے ایسا کیا ہوا تھا ؟

،، وقار الحسن تم موت کے منہ سے واپس آئے ہو ۔۔۔ تمہیں سترہ روز میں صرف ایک دن ہوش آیا پھر بے ہوش ہو گئے ۔ بس اللّہ کو تمہاری زندگی مقصود تھی جس کی وجہ سے آج تم زندہ ہو ۔ 

گھر میں سب ہی مجھے دیکھ کر رہ پڑے ۔ میرا پلنگ برآمدے میں تایا کے ساتھ لگا دیا گیا تھا ۔   شرف الدین بیٹھک کی طرف چلا گیا ۔ بیٹھک کے باہر جوتوں کی کئ جوڑیاں رکھی تھیں ۔    یوں لگ رہا تھا جیسے بیٹھک کا دوسری طرف والا دروازہ کھلا ہے کیونکہ وہاں روشنی معمول سے زیادہ ہو رہی تھی ۔

اچانک مجھے اگر بتی اور لوبان کی خوشبو نے آن گھیرا ۔  مجھے اس خوشبو سے سخت چڑ تھی ۔ یہ خوشبو موت سے منسوب تھی ۔   تمام ہونے والی اموات میں یہی اہم چیز تھی جو ہر چیز پر حاوی ہوتی محسوس ہوتی تھی ۔

اچانک مجھے چھوٹی پھوپی کا خیال آیا ۔ میں پریشان چاروں طرف دیکھ رہا تھا ۔ پھر گھر میں عورتوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہو گیا ۔ وہ سب کمرے سے باہر جوتے اتار کر اندر چلی گئیں

جیسے کمرے میں چاندنیاں بچھی ہوئی ہوں ۔ اب میری وحشت عروج پر پہنچ گئی ۔  

،، تایا ۔۔۔۔ میں بے ساختہ پکار اٹھا ۔۔۔۔ یہ سب کیا ہے ۔ کیا ہو رہا ہے یہاں ؟

وہ جلدی سے میرے قریب آ گئے ۔ ،، بیٹا خود کو سنبھالو ،،

ہم صدمات برداشت کرتے کرتے تھک گئے ہیں ۔ ہمارے سینوں میں چھید سے پڑ گئے ہیں ۔

تایا ۔۔۔۔ میرا کلیجہ پھٹ جائے گا ، اب ۔۔۔۔ کیا ۔۔۔ کیا لڈن مر گیا ؟،،

تایا نے ہاں میں سر ہلایا اور رونے لگے ۔ اور اس کے ساتھ ہی وہ چھوٹی پھوپی کا نام لے کر بھی روئے جا رہا تھے ۔ میرے دماغ نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا ۔ انھوں نے کہا میں شرف الدین کو تمارے پاس بھیجتا ہوں وہ تمہیں تمام تفصیل سے آگاہ کر گا یہ کہتے ہوئے وہ بیٹھک کی طرف بڑھ گئے ۔

Loading