ریلیٹیویٹی اور کوانٹم نظریات کی کہانی
تحریر۔۔۔ عبدالباسط
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔۔ ریلیٹیویٹی اور کوانٹم نظریات کی کہانی۔۔۔ تحریر۔۔۔ عبدالباسط) نکائنات ایک عظیم راز ہے، جس کے گوشوں میں ستاروں کی چمک اور ذرات کا پراسرار رقص چھپا ہے۔ اس کے تانے بانے کو سمجھنے کے لیے انسان نے دو عظیم نظریات وضع کیے:
البرٹ آئن سٹائن کا نظریہ ریلیٹیویٹی اور کوانٹم نظریات۔ یہ دونوں 20ویں صدی کے سائنسی شاہکار ہیں، جو کائنات کے بڑے اور چھوٹے پیمانوں کو روشن کرتے ہیں۔ ریلیٹیویٹی وقت، فضا اور کشش ثقل کے ہموار جال کو بیان کرتی ہے، جبکہ کوانٹم نظریات ذیلی ایٹمی ذرات کے عجیب و غریب جہان کو کھولتی ہے۔ یہ دونوں مل کر ہمیں کائنات کی گہرائیوں میں لے جاتی ہیں اور سائنسی خوبصورتی کا ایک حسین امتزاج پیش کرتی ہیں۔ آئیے، اس داستان کو قدم بہ قدم سمجھتے ہیں۔
خصوصی ریلیٹیویٹی: وقت اور فضا کا لچکدار کھیل
ریلیٹیویٹی کی کہانی 1905 میں شروع ہوتی ہے، جب آئن سٹائن نے خصوصی ریلیٹیویٹی پیش کی۔ اس نظریے نے ہمارے وقت اور فضا کے بارے میں تصورات کو بدل دیا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ وقت ایک یکساں دریا کی طرح بہتا ہے اور فضا ایک مقررہ ڈھانچہ ہے، لیکن آئن سٹائن نے کہا کہ یہ دونوں دیکھنے والے کی رفتار پر منحصر ہیں۔ اس کا بنیادی اصول روشنی کی رفتار ہے۔تقریباً 300,000 کلومیٹر فی سیکنڈ جو کائنات میں ہر حال میں مستقل رہتی ہے۔ اگر آپ روشنی کی رفتار کے قریب سفر کریں، تو وقت اور فضا کو اس کے مطابق خود کو ڈھالنا پڑتا ہے۔
مثال کے طور پر، ایک تیز رفتار خلائی جہاز میں وقت زمین کے مقابلے میں سست ہو جاتا ہے، جسے “ٹائم ڈائلیشن” کہتے ہیں۔ اسی طرح، حرکت کرنے والی چیز کی لمبائی سکڑ جاتی ہے، جسے “لینتھ کنٹریکشن” کہا جاتا ہے۔ یہ خیالی کہانیاں نہیں، بلکہ سچائی ہیں جنہیں تیز رفتار ایٹمی گھڑیوں کے تجربات نے ثابت کیا۔ خصوصی ریلیٹیویٹی ہمیں ایک ایسی کائنات دکھاتی ہے جہاں وقت اور فضا لچکدار ہیں، جو رفتار کے ساتھ مل کر ایک متحرک جال بناتے ہیں۔ یہ تصور کائنات کے بڑے پیمانے کو سمجھنے کا پہلا قدم تھا۔
عمومی ریلیٹیویٹی:
کشش ثقل کا خمیدہ جادو
1915 میں، آئن سٹائن نے اپنے نظریے کو وسعت دی اور عمومی ریلیٹیویٹی پیش کی، جو کشش ثقل کو نئے انداز سے بیان کرتی ہے۔ نیوٹن کے مطابق، کشش ثقل دو اجسام کے درمیان ایک قوت تھی، لیکن آئن سٹائن نے اسے وقت-فضا کے تانے بانے میں مادے کے پیدا کردہ خم کے طور پر دیکھا۔ تصور کریں کہ وقت اور فضا ایک نرم چادر کی مانند ہیں۔ اگر اس پر سورج جیسا بھاری جسم رکھا جائے، تو وہ چادر خم کھا جاتی ہے۔ سیارے اس خم کے گرد چکر لگاتے ہیں، اور یہی کشش ثقل کا راز ہے۔
اس نظریے نے کائنات کے کئی معموں کو حل کیا۔ سیارہ عطارد کے مدار کا معمولی انحراف، جو نیوٹن کے قانون سے سمجھ نہ آتا تھا، عمومی ریلیٹیویٹی نے درست پیش گوئی کی۔ 1919 میں سورج کے گرہن کے دوران، ستاروں کی روشنی کا سورج کے قریب سے گزرتے ہوئے خم ہونا اس نظریے کی شاندار تصدیق تھی۔ سب سے حیرت انگیز بات یہ کہ کشش ثقل وقت کو متاثر کرتی ہے۔بلیک ہولز جیسے انتہائی بھاری اجسام کے قریب وقت سست ہو جاتا ہے، حتیٰ کہ تقریباً رُک سا جاتا ہے۔ یہ کائنات کے بڑے ڈھانچے کی ایک ایسی تصویر ہے جو سائنسی خوبصورتی سے بھرپور ہے۔
کوانٹم نظریات: ذرات کا عجیب رقص
جہاں ریلیٹیویٹی کائنات کے بڑے پیمانے کو سمجھاتی ہے، وہیں کوانٹم نظریات اس کے چھوٹے سے چھوٹے اجزا ایٹموں، الیکٹرانوں اور فوٹونز کے جہان میں داخل ہوتی ہے۔ اس کی ابتدا 1900 میں میکس پلانک سے ہوئی، جب انہوں نے کہا کہ توانائی چھوٹے “کوانٹا” میں خارج ہوتی ہے۔ آئن سٹائن نے اسے فوٹو الیکٹرک اثر کے ذریعے آگے بڑھایا، ثابت کیا کہ روشنی لہر بھی ہے اور ذرہ بھی۔ اس “دوہری فطرت” نے کوانٹم نظریات کو جنم دیا، جو کہتی ہے کہ مادہ اور توانائی دونوں خصوصیات رکھتے ہیں۔
کوانٹم دنیا کے قوانین ہمارے عام فہم سے بالکل ہٹ کر ہیں۔ ورنر ہائزنبرگ کے “غیر یقینی پن کے اصول” کے مطابق، ہم کسی ذرے کی پوزیشن اور رفتار کو بیک وقت درست نہیں جان سکتے۔ “سپر پوزیشن کہتی ہے کہ ایک ذرہ کئی حالتوں میں ہو سکتا ہے جب تک اسے مشاہدہ نہ کیا جائے جیسے شرؤڈنگر کی بلی، جو زندہ اور مردہ دونوں ہو سکتی ہے۔ “اینٹینگلمنٹ” دو ذرات کے درمیان ایک پراسرار رابطہ دکھاتی ہے، جہاں ایک کی حالت بدلنے سے دوسرا فوراً متاثر ہوتا ہے، چاہے وہ کہکشاؤں کے فاصلے پر ہوں۔ آئن سٹائن نے اسے “خوفناک” کہا، لیکن یہ سچ ہے۔
دونوں نظریات کا امتزاج اور تضاد
ریلیٹیویٹی اور کوانٹم نظریات کائنات کے دو مختلف چہرے دکھاتی ہیں۔ ریلیٹیویٹی وقت-فضا کو ایک ہموار، خمیدہ جال سمجھتی ہے، جبکہ کوانٹم نظریات چھوٹے پیمانے پر غیر یقینی اور احتمالات کی دنیا پیش کرتی ہے۔ دونوں اپنے دائرے میں درست ہیں، لیکن جب بلیک ہولز جیسے مقامات پر بڑا پیمانہ اور چھوٹا پیمانہ ملتا ہے، تو یہ متضاد ہو جاتی ہیں۔ سائنسدان انہیں یکجا کرنے کے لیے “کوانٹم گریویٹی” یا “تھیوڈی آف ایوریتھنگ” پر کام کر رہے ہیں، جو کائنات کے حتمی قانون کی تلاش ہے۔ یہ تضاد ہی ان نظریات کی گہرائی اور خوبصورتی کو بڑھاتا ہے۔
عملی اثرات اور سائنسی حسن
یہ دونوں نظریات محض خیالی نہیں، بلکہ ہماری دنیا کو بدلنے والے ہیں۔ ریلیٹیویٹی GPS سسٹم کی بنیاد ہے، جو وقت-فضا کے خم کو مدنظر رکھتا ہے۔ کوانٹم نظریات نے لیزرز، سیمی کنڈکٹرز اور کوانٹم کمپیوٹرز کو جنم دیا۔ دونوں مل کر کائنات کے اسرار بگ بینگ سے لے کر بلیک ہولز تک کو سمجھنے میں مدد دیتی ہیں۔ یہ وقت اور فضا کے لچکدار جال اور ذرات کے پراسرار رقص کی کہانی ہے، جو ہمیں کائنات کی عظمت اور ہماری چھوٹی، لیکن اہم جگہ کا احساس دلاتی ہے۔آخر میں اتنا کہا جاسکتا ھے۔
ریلیٹیویٹی اور کوانٹم نظریات کائنات کی دو عظیم داستانیں ہیں ایک بڑے پیمانے کی، دوسری چھوٹے کی۔ یہ ہمیں ایک ایسی دنیا دکھاتی ہیں جہاں وقت سست ہو سکتا ہے، فضا خم کھا سکتی ہے، اور ذرات ایک ساتھ کئی حالتوں میں ناچ سکتے ہیں۔ یہ سائنسی نظریات نہ صرف ہمارے علم کو وسعت دیتے ہیں، بلکہ ہمارے تخیل کو بھی پرواز دیتے ہیں۔ کائنات کا یہ سائنسی رقص ہمیں بتاتا ہے کہ حقیقت شاید وہ نہیں جو ہم دیکھتے ہیں، بلکہ وہ جو ہم سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں—ایک ایسی کہانی جو سائنس اور خوبصورتی کا شاندار سنگم ہے۔