مرشد کی محبت میں کشش 🙏🏻
حضور قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے تھے کہ بھئی پیر مرید کا مسئلہ ایسا ہے کہ پیر جو ہےاپنے مرید کے ساتھ جو بھی کچھ کرتا ہے…. مرید کو پتہ ہی نہیں…. اندھا کھاتہ ہے…. وہ سمجھتا ہے کہ بس میں ہوں….. میں ہی اپنے پیر و مرشد سے محبّت کرتا ہوں۔ حالانکہ صورت اس کے بالکل برعکس ہے۔ ایک زمانے میں مجھے یہ خیال بار بار آنے لگا کہ میں اپنے پیر و مرشد سے بہت محبّت کرتا ہوں۔ میرے برابر، میرے پیر و مرشد سے کوئی محبّت نہیں کر سکتا۔ بہت ساری باتیں ایسی ہوتی تھیں کہ میں اپنے ذہن میں سوچتا تھا، وہ حضور قلندر بابا اولیاء تک پہنچ جاتی تھیں۔ تو ایک دن انہوں نے مجھے بٹھایا، بٹھا کے فرمایا، خواجہ صاحب! آپ نے میگنٹ دیکھا ہے؟ میں نے کہا ہاں حضور دیکھا ہے۔ کہنے لگے… لوہا دیکھا ہے؟ میں نے کہا حضور لوہا بھی دیکھا ہے۔ فرمایا: کبھی یہ بھی دیکھا ہے کہ لوہے نے میگنٹ کو کھینچ لیا ہو؟ میں نے کہا صاحب یہ تو نہیں دیکھا! تو کہنے لگے…. پھر مرید پِیر سے محبّت کیسے کر سکتا ہے؟ مرید اپنے پیر سے محبّت کا دعویٰ کیسے کر سکتا ہے جب لوہا میگنٹ کو نہیں کھینچ سکتا! اصل میں پیر اپنے مرید سے محبّت کرتا ہے…. اس محبّت کا جب عکس مرید کے اندر داخل ہوتا ہے تو مرید یہ سمجھتا ہے کہ میں اپنے پیر سے محبّت کرتا ہوں۔ میگنٹ لوہے کو کھینچتا ہے… لوہا یہ سمجھ رہا ہے… میں اپنے قدم سے چل کر میگنٹ کی طرف جا رہا ہوں۔ لیکن اگر میگنٹ وہاں سے اٹھا لیا جائے تو لوہا ایک بےجان شے ہے… وہ اُس کے اندرحرکت نہیں ہوگی۔ میگنٹ کھینچ رہا ہے۔ لوہا یہ سمجھ رہا ہے کہ میں چل کے جا رہا ہوں۔ پِیر و مرشد محبّت کر رہا ہے….. اپنے مُرید کے ساتھ ایثار کر رہا ہے… مرید یہ سمجھ رہا ہے… میں پِیر و مُرشد کی طرف بھاگا ہُوا چلا جا رہا ہوں۔ کوئی نہیں بھاگ سکتا۔ کشش ہے۔ وہ ایک کشش ہے جو آدمی کو کھینچ رہی ہے۔ آپ کوئی ایبٹ آباد سے آ گیا، کوئی پشاور سے آگیا… ابھی جیسے وقار صاحب نے کہا: اِس سردی کے زمانے میں، گھر بار کا آرام چھوڑ کے یہاں جنگل بیابان میں پڑے ہوئے ہیں…. کیوں پڑے ہوئے ہیں؟ کشش ہے۔ میگنٹ ہے۔ وہ میگنٹ آپ کو کھینچ رہا ہے۔ وہ قلندر بابا اولیاءؒ کا میگنٹ ہے۔ وہ مجھے بھی کھینچ رہا ہے، آپ کو بھی کھینچ رہا ہے۔ ہم یہ سمجھ رہے ہیں کہ صاحب ہم پشاور سے یہاں آگئے۔ صورتحال یہ ہے کہ آدمی پڑوس میں کسی سے نہیں ملتا… مہینوں ہو جاتے ہیں۔ کبھی راہے گاہے ملاقات ہو گئی… میاں، السلام علیکم! بھئی خیریت ہے…؟ بھئی خیریت ہے…! وہ اِدھر کو چلا گیا… وہ اُدھر کو چلا گیا۔ اور یہاں صورت یہ ہے کہ مکّے مدینے لوگ جا رہے ہیں قافلوں کی شکل میں، پیسے بھی خرچ کر رہے ہیں، تکلیفیں بھی اٹھا رہے ہیں، مہینوں مہینوں پڑے ہیں۔ میں نے وہاں دیکھا، مدینہ منوّرہ میں لوگ بیٹھے ہوئے ہیں… بس یوں ٹکٹکی لگائے حضور پاک ﷺ کے روضے کو دیکھ رہے ہیں۔ وہ گنبد جو ہے، اُسے دیکھ رہے ہیں۔ میں اپنی صورت بتاؤں… میں گیا، میں نے وہاں سلام پڑھا، سب کچھ کِیا، مراقبہ کِیا، بیٹھا، واپس آیا، واپس آ کے جناب وہاں پانی پیا، پھر بیٹھے دیکھ رہے ہیں۔ پھر وہاں سے اُٹھے تو دو چار صفیں پھلانگ کے پھر بیٹھ گئے، پھر دیکھ رہے ہیں۔ پھر جناب… اُدھر کو جا کے…. اُس مسجد میں اُس طرف کو چلے گئے… پھر دیکھ رہے ہیں۔ تو میں یہ سوچا کرتا تھا کہ میں دیکھتا کیا ہوں؟ یہ چکّر کیا ہے بھئی؟ میں تو اندر سے سلام بھی پڑھ کے آیا۔ نفلیں بھی پڑھیں.. جو بھی کچھ… سبھی کرتے ہیں… یہ چکّر کیا ہے؟ یہ میں کیا چیز دیکھتا ہوں؟ اب گنبد کے علاوہ اور کوئی چیز نظر بھی نہیں آتی… گنبد ہی نظر آتا ہے۔ تو میری سمجھ میں حضور قلندر بابا اولیاءؒ کی یہ بات آ گئی کہ میگنٹ لوہے کو کھینچتا ہے… لوہا میگنٹ کو نہیں کھینچتا۔
حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی رحمتہ اللّٰہ علیہ
عرس خطاب 1992