نادیدہ مخلوق
تحریر۔۔۔محمد فہیم
قسط نمبر2
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔نادیدہ مخلوق۔۔۔ تحریر۔۔۔محمد فہیم)ڈھیر کرتا رہتا تھا۔ایک روز اس نے گھر پر پکانے کے لیے گوشت لا کر دیا۔ قبل اس کے کہ کھانا تیار ہوتا ان ماورائی قوتوں نے پورا گوشت اٹھا کر باہر بالوں سے بھرےہوئے ڈرم میں پھینک دیا۔
اکثر و بیشتر ایسا ہونے لگا تو میر و صاحب نے اپنی بیوی کو ہدایت کی کہ میں جو بھی کھانے پینے کی چیز لایا کروں تم اس پر تھاکھ کا دیا کرو پھر یہ ایسانہ کر سکے گا۔ نہ جانے یہ مجرب نسخہ ان کے ہاتھ کہاں سے لگا تھا کہ پھر وہ اس شرارت کو دھرانہ سکے۔
ایک دن یہ ہوا کہ میر و کا کوٹ کھونٹی پر ٹنگا ہوا تھا کہ اس میں آگ لگ گئی۔ میر و صاحب اسے بجھانے میں ابھی پوری طرح کامیاب بھی نہ ہوئے تھے کہ صندوق پر سلیقے سے رکھے لحاف میں سے شعلے نکلنے لگے۔ غرض ایک چیز کی آگ بجھاتے تو دوسری میں لگ جاتی۔ میر وصاحب نے تنگ آکر پھر ایک نادر نسخہ آزمایا۔ بیوی کو مخاطب کر کے بولے
او نیک بختاں ! تینو کتنی واری اکھیاں سی کہ ماچس کی ڈبیا چھپا کر رکھا کر ۔ ائے بے شرم تو آنے دی ماچس بھی نہیں خرید سکتا! (اے نیک بخت! میں نے کتنی بار تجھے کہا ہے کہ ماچس سنبھال کر رکھا کر ۔ یہ بے شرم تو ایک آنے کی ماچس بھی نہیں خرید سکتا۔ بس یہ کہنا تھا کہ نظر نہ آنے والی مخلوق کی غیرت جوش میں آئی اور وہ ماچس پوری طاقت سے میرو صاحب کی ناک پر آن لگی۔ میر ونے وہ ماچس اٹھا کر الماری میں بند کر دی۔
وہ اپنی بیوی کو کہتے رہتے تھے کہ ایسی خطرناک چیزیں بند اور چھپا کر رکھا کرو۔ کھانے پینے کی چیزوں پر تھکن کا دیا کرو تو پھر یہ ہمیں تنگ نہیں کر سکتا۔ وہ بیچاری حتی الامکان ان ہدایات پر عمل کرنے کی کوشش کرتی تھی لیکن اس روز چوک گئی اور ماچس کھلی پڑی رہ گئی تھی۔
میر و پنج وقتہ نمازی تھا۔ اکثر وہ نماز میں مشغول ہوتا جیسے ہی سجدے میں جانتا قریب اتاری ہوئی چپل سے ان کی پشت پر چھترول شروع ہو جاتا۔ لیکن اس ایمان پر سختی سے قائم شخص کی استقامت میں ذرہ برابر بھی فرق نہ آتا۔ سلام پھیر کر نادیدہ قوت سے مخاطب ہوتا۔ اوہ بد بختاں ! نماز تو چین سے پڑھ لینے دیا کر ۔ تو مسلمان بھی ہے یا نہیں!
مدتوں یہ سلسلہ جاری رہا۔ اس قسم کے واقعات ہوتے رہے۔ پھر وہ لوگ بچوں کو نظر بھی آنے لگے۔ ان کے پانچ چھ سالہ بچے نے ایک روز دیکھا کہ ایک بالشی صاحب سبز عبا پہنے ہوئے صحن میں سے کچھ چین چن کر اپنی جھولی میں بھر رہے ہیں۔ بچہ معصوم تھا۔ اس نے بیچ کر اپنی ماں کو متوجہ کیا دیکھے ماں یہ کمینہ اپنی جھولی میں پتھر بھر رہا ہے۔ ابھی اتناہی کہا تھا کہ اس شخص نے بچے کو بازو سے پکڑ کر صحن کی دیوار سے دے مارا۔ بچے کا بازو ٹوٹ گیا ہسپتال میں کئی روز اس کاعلاج کروایا گیا۔
اب پانی سر سے اونچا ہو چکا تھا یعنی وہ قوتیں تشدد پر اتر آئی تھیں۔ محلے داروں نے میر و سے چھپا کر اب اپنے طور پر بزرگوں کی خدمات حاصل کرنا شروع کیں کیونکہ وہ ان چیزوں کو نہیں مانتا تھا۔
آس پاس کے چھوٹے موٹے مولوی اور عامل حضرات کو لائے لیکن وہان کا کچھ نہ بگاڑ پائے۔ انہوں نے بھاگ جانے میں ہی عافیت جانی۔
ایک روز راولپنڈی سے ایک بزرگ کو بلوایا گیا انہوں نے کئی گھنٹوں تک عمل اور کچھ قرآنی آیتوں کے ذریعے ان طاقتوں کو مجبور کیا کہ وہ بات کریں۔ تب پتہ چلا کہ یہ جنات ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ عرصہ دراز سے یہاں قیام پذیر ہیں اور اب میرو کے یہاں آنے سے انہیں تکلیف پہنچتی ہے۔ اس لیے میر و یہ گھر خالی کر دے۔
جب بزرگ نے یہ مطالبہ میرو کے آگے رکھا تو میر و بھڑک اٹھا۔ ” میں کیوں کہیں اور جاؤں….؟ میں سرکاری ملازم ہوں۔ سرکار نے یہ کواٹر میرے نام الاٹ کیا ہے۔ یہ میراگھر ہے۔ ان سے کہویہ کہیں اور جائیں۔
یہ بحث بھی مہینوں چلتی رہی اور چھوٹے چھوٹے واقعات میں تشدد بھی بڑھتا گیا۔
لوگوں نے ایک بار پھر ان بزرگ سے رجوع کیا۔ حالات کی سنگینی بیان کر کے اس مسئلہ کا کوئی حل نکالنے کی ضرورت پر زور دیا۔ بزگوار نے محلے کے چند لوگوں کو جمع کر کے اس جن فیملی کے سربراہ کو سب کے سامنے طلب کیا۔ وہی درخواستیں پھر دہرائیں گئی۔ تنگ آکر اس جن فیملی نے کہا کہ یہ شخص بہت ڈھیٹ ہے۔ ہم چاہیں تو اتنا تنگ کریں کہ چند روز میں ہی یہ یہاں سے بھاگ جائے لیکن اس کی بے زبان بیوی اور معصوم بچوں پر ترس کھا کر کہتے ہیں کہ ہم اس عورت کو اپنی بہن بناتے ہیں اور وعدہ کرتے ہیں کہ آئندہ اپنی بہن اور اس کے بچوں کو کسی طرح تنگ نہیں کریں گے۔ یہ ایک کمرہ صاف ستھرارکھیں۔ اس میں بچوں کا آنا جانا بند کر دیں کہ اس میں ہمارا قیام ہوگا۔ اسے پاک صاف رکھنا ان کی ذمہ داری ہو گی۔ ان بزرگ کی موجودگی میں میر و صاحب نے اس معاہدے کو تسلیم کیا اور پابند رہنے کا وعدہ بھی کیا۔ اس کے بعد سالوں تک ہمارا جانا آنا وہاں رہا ہمیں پتہ چلتا رہا کہ دونوں فیملیز شیر و شکر ہو کر رو رہی ہیں اور پھر اس طرح کا کوئی واقعہ سنائی نہیں دیا۔
قارئین کرام اس واقعے کے عینی شاہدین میں سے شاید کوئی اب بھی موجود ہو ۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ دسمبر 2024