Daily Roshni News

خودی کی بیداری اور لا فانی انسان.!!!

خودی کی بیداری اور لا فانی انسان.!!!
زندگی میں حقیقی طور پر زندہ وہی ہوتا ہے جو اپنی ذات کا عرفان پا لیتا ہے۔ وہ جو گوشت و پوست کے فانی جسم سے نکل کر اپنی لافانیت اور ابدیت کا شعور حاصل کر لیتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں “ولا خوف علیہم ولا ہم یحزنون” کا فیض ظاہر ہوتا ہے—یعنی وہ ہر خوف اور ہر غم سے آزاد ہو جاتا ہے۔ اب اس کے لیے موت اور زندگی کا فرق مٹ جاتا ہے، کیونکہ وہ فنا کے پردے کے پار دیکھنے لگتا ہے۔
زندگی اور موت کا تسلسل: ہر لمحہ تعمیر و تخریب۔
عام آدمی سمجھتا ہے کہ پیدائش ایک ماضی کا واقعہ اور موت ایک مستقبل کا حادثہ ہے، لیکن حقیقت میں موت و حیات ہر لمحہ، ہر پل وقوع پذیر ہو رہے ہیں۔ جسم میں ہر لمحہ نئے خلیے (Cells) پیدا ہو رہے ہیں، پرانے مر رہے ہیں۔ ہم ہر روز تھوڑا تھوڑا مر رہے ہیں اور تھوڑا تھوڑا پیدا ہو رہے ہیں۔ اس لیے موت کوئی مستقبل کا حادثہ نہیں بلکہ حال کا ایک مسلسل عمل ہے۔
یہی حقیقت قدیم صوفی تعلیمات، جدید حیاتیات (Biology)، اور کوانٹم فزکس سبھی میں موجود ہے: ✔️ صوفیا کہتے ہیں کہ موت کا خوف صرف اس کو ہوتا ہے جو خود کو جسم سمجھتا ہے، جو اپنی حقیقت کو جان لے وہ موت کے خوف سے آزاد ہو جاتا ہے۔
✔️ جدید سائنس بتاتی ہے کہ انسان کے جسم کے خلیے مسلسل مر رہے ہیں اور پیدا ہو رہے ہیں، یعنی ہر لمحہ موت و حیات کا عمل جاری ہے۔
✔️ کوانٹم فزکس کے مطابق کائنات میں اصل حقیقت توانائی (Energy) ہے جو کبھی فنا نہیں ہوتی، بس ایک حالت سے دوسری حالت میں منتقل ہوتی ہے۔۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ کچھ ہے جو موت کے اس تسلسل سے آزاد ہو؟
ہاں! وہ ہے انسان کی خودی، اس کی روح، اس کا اصل جوہر!
خودی کی بیداری: اندر کے انسان کی آزادی

انسان گوشت و پوست کا جسم نہیں بلکہ باطن کی روشنی ہے۔ اصل انسان وہ ہے جو جسم کے اندر پوشیدہ ہے، جو جسم سے باہر نکلنے اور آزاد ہونے کی تڑپ رکھتا ہے۔ یہی وہ اندر کا انسان ہے جو سفرِ عرفان پر گامزن ہوتا ہے، جو نئی دنیا، نئے جہانوں کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے۔
۔
یہی وہ راز ہے جسے صوفیا نے “موت قبل از موت” کہا، یعنی زندگی میں جیتے جی اپنے فانی جسم سے آزادی حاصل کرنا۔ جو لوگ اس حقیقت کو پالیتے ہیں، وہی حقیقی معنوں میں زندہ ہوتے ہیں۔ جیسا کہ علامہ اقبال فرماتے ہیں:

“اگر ہو زندہ تو ہے دلکشا زندگی،
نہ ہو زندہ تو کچھ بھی نہیں زندگی!”

انسان کا باطنی ارتقا: جب اندر کا انسان خلا باز بن جائے!
۔
جب کوئی اپنے اندر کے لافانی جوہر کو پہچان لیتا ہے، تو وہ محض ایک عام انسان نہیں رہتا، وہ ستاروں سے آگے دیکھنے والا بن جاتا ہے، وہ کائناتی سفر پر نکل پڑتا ہے!
۔
یہی وہ مقام ہے جہاں انسان محض زمین کا باسی نہیں رہتا، وہ آسمانوں کا راہی بن جاتا ہے، وہ “روحانی خلا باز” بن جاتا ہے!
۔
اسی حقیقت کو اقبال نے یوں بیان کیا:
“ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں!”
یعنی ابھی روح کی پرواز ختم نہیں ہوئی، ابھی آگے بہت کچھ دیکھنا ہے، جاننا ہے، سمجھنا ہے!
۔
✔️ جب انسان حقیقت شناس ہو جاتا ہے، تو اس کے لیے رنگ و بو کا یہ عالم کافی نہیں رہتا۔
✔️ وہ مزید بلندیوں، مزید جہانوں، مزید رازوں کی تلاش میں نکل پڑتا ہے۔
✔️ وہ ایک مقام پر رکتا نہیں، ہر دن ایک نئی پرواز بھرنے کے لیے تیار رہتا ہے۔
۔
انجمن کا رازداں: جب انسان کائنات کی گونج سننے لگے!
۔
جو لوگ حقیقت کو پا لیتے ہیں، وہ ایک نئی انجمن کا حصہ بن جاتے ہیں۔
یہ عام انسانوں کی انجمن نہیں، بلکہ وہ ہستیوں کی انجمن ہے جو رازداں بن چکے ہیں، جو حقیقت کی آواز سن چکے ہیں، جو کائنات کے بھید جان چکے ہیں۔
۔
یہ وہ مقام ہے جہاں انسان تنہا نہیں رہتا، بلکہ اسے ان ہستیوں کی معیت مل جاتی ہے جو اس راستے کے مسافر ہیں۔ وہی ہستیاں جن کے بارے میں اقبال نے کہا:

“گئے دن کہ تنہا تھا میں انجمن میں،
یہاں اب مرے رازداں اور بھی ہیں!”
۔
یہی وہ اصل انجمن ہے، یہی وہ اصل راستہ ہے جو انسان کو اپنے فانی وجود سے نکال کر ابدی روشنی میں لے جاتا ہے۔
۔
کیا ہم بھی اس سفر کے راہی بن سکتے ہیں؟
۔
* موت اور زندگی ہر لمحہ ہو رہی ہیں، جو اس حقیقت کو جان لیتا ہے، وہ حقیقت شناس ہو جاتا ہے۔
* جسم کا فنا ہونا اصل فنا نہیں، اصل انسان وہ ہے جو موت کے اس تغیر سے آزاد ہے۔
* جب انسان خودی کو بیدار کر لیتا ہے، تو وہ ایک عام انسان نہیں رہتا، وہ ستاروں سے آگے دیکھنے والا بن جاتا ہے۔
* یہی لوگ حقیقی رازداں ہوتے ہیں، وہ انجمن میں تنہا نہیں رہتے، بلکہ ان کا کارواں آسمانوں تک جا پہنچتا ہے۔
اب سوال یہ ہے:
کیا ہم بھی اپنی خودی کو بیدار کر کے اس انجمن کا حصہ بن سکتے ہیں؟
کیا ہم بھی ستاروں سے آگے جہاں تلاش کر سکتے ہیں؟
کیا ہم بھی خود کو اپنے فانی جسم سے آزاد کر سکتے ہیں؟
اگر ہاں، تو پھر ہمیں اپنے باطن میں جھانکنا ہوگا، اپنے اصل جوہر کو پہچاننا ہوگا، اپنے اندر کے انسان کو دریافت کرنا ہوگا!
“طبیب وجاہت علی خان”
منقول تحریر ۔

Loading