Daily Roshni News

غرور

غرور قسط نمبر 1

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )” تمہاری اوقات ہے یہاں بیٹھنے کی؟؟؟ “ وہ اتنی زور سے دھاڑا کہ اسکا دل کانپ اٹھا۔۔۔ڈیپ  ریڈ شرارے میں ملبوس وہ بیڈ پر بیٹھی اپنے شوہر کا انتظار کر رہی تھی جس سے کچھ دیر پہلے اسکا نکاح ہوا تھا اسکا دل کسی سوکھے پتے کی طرح کانپ رہا تھا۔۔۔ وہ ویسے ہی گھبرائی سہمی اسکا انتظار کر رہی  تھی کہ اسکا شوہر روم میں داخل ہوا وہ دروازہ کھولتے ہی تیزی سے اسکی طرف لپکا اور جھٹکے سے اسے بازو سے کھینچ کر اپنے سامنے کھڑا کیا۔۔

” چٹاخ “

وہ اسے تھپڑ سے نوازتا زہریلے  الفاظ اسکی سماعتوں سے گزار رہا تھا۔۔

” زندگی عذاب کر دونگا تمہاری موت مانگو گی تم “

اس نے جھٹکے سے اسکا ہاتھ پکڑا اور اسے کھینچتا ہوا روم سے باہر لے آیا  وہ سہمی چڑیا کی طرح اسکے ساتھ کھنچتی چلی جا رہی تھی سیڑھیوں سے اترتے وہ اسے حال میں لے آیا جہاں مہمان گپ شپ میں لگے ہوئے  تھے اسکا پورا خاندان اس وقت حال میں موجود تھا۔۔ اس نے گرفت ڈھیلی کر کے تقریباً اسے پھینکتے ہوئے  اپنی ماں سے کہا۔

” یہ کیا کر رہی تھی میرے روم میں؟؟؟ اسکی اوقات ہے میری کمرے میں قدم رکھنے کی؟؟ “ اسکی دھاڑ  سے اسکی بہن تک کانپ اٹھی جو پہلی بار اپنے بھائی کا ایسا روپ دیکھ رہی تھی۔

” یہ تمہاری ہی پسند تھی مت بھولو “

اسکی ماں نے نخوت سے کہا

” پسند تھی اب نہیں ہے!!!! اینڈ مائنڈ اٹ یہ مجھے اپنے روم میں نظر نہ آئے “ وہ اسےقہر برساتی نظروں سے گھور کر اپنے روم میں چلا گیا دروازہ بند کرنے کی آواز نیچے تک سنائی دی۔۔

دلہن کے روپ میں سجی وہ زمین پر اوندھے منہ گری پڑی تھی اتنے مہمانوں کے سامنے بےعزتی پر پہلی دفعہ اس نے موت کی شدت سے دعا کی۔۔۔۔ اسکی غلطی کیا تھی صرف اتنی کہ خود کو غلیظ نظروں سے بچانے کے لیے وہ پردہ کرتی تھی؟؟؟ اس نے سامنے کھڑی اپنی بیسٹ فرینڈ کو دیکھا جو فتح مند نظروں سے اسے دیکھ کر آنکھوں ہی آنکھوں میں کہ رہی تھی

” کیوں اُتڑ گیا پارسائی کا بھوت؟؟ “ اس نے اپنی آنکھیں بند کیں تو گالوں پر آنسوؤں کا آبشار بہہ  نکلا۔۔

” کہا تھا ناں جلتی آگ میں تم نے خود کو جھونکا ہے…. افسوس ہوتا ہے کہ تم میری بیسٹ فرینڈ رہ چکی ہو “ وہ مسکراتی نظروں سے اسے دیکھتے گویا ہوئی…

                        ☆………….☆………….☆

” آپی ابو سے مل کر جانا  وہ تمہارا پوچھ رہے تھے “

” ہاں وہیں جا رہی ہوں میری نوٹ بک کہاں ہے کل یہیں تو رکھی تھی “ حجاب بڑبڑاتے ہوے تیزی سے ایک ایک دراز کھول کر چیک کر رہی تھی تبھی مطلوبہ نوٹ بک ملنے پر جلدی سے وہ بیگ اٹھا کر باہر کی طرف دوڑی۔۔۔

” ابو آپ نے بلایا؟؟ “

” ہاں بیٹے آج پوائنٹ سے مت جانا میں خود چھوڑ آؤنگا آج جویریہ بھی نہیں جا رہی “ تاثیر صاحب جو اخبار پڑھ رہے تھے بیٹی کو آتا دیکھ اخبار رکھ کر اٹھ کھڑے ہوئے۔۔

” بابا جویریہ کا تو روز کا بہانہ ہے اس ہفتے یہ اسکی تیسری چھٹی ہے جب اٹینڈینس کا اشو ہوگا تب اسکی عقل ٹھکانے آئے گی “ حجاب نقاب پہن کر بائیک پر سنمبھل کر بیٹھی۔۔ ساتھ ہی اس نے جویریہ کی برائی شروع کر دی جسے سن کر تاثیر صاحب بس مسکرائے۔۔۔

“ حجاب بیٹے یہ باتیں جویریہ کے سامنے کہتیں تو بہتر ہوتا اس طرح پیٹھ پیچھے تو برائی ہوئی نا اب تمہارے حصے  کی نیکی اسکے اعمال میں ہوگی “ حجاب جب یونی کے گیٹ کے پاس آرکی تو اسکے بابا کہتے ساتھ بائیک آگے بڑھا کر نکل گئے اور حجاب اپنی عقل پر ماتم کرتی کلاس میں چلی آئی۔۔۔

                           ☆………….☆………….☆

وہ مہوش کے آسرے یونی آئی تھی لیکن اس نے بھی نہ آکر دھوکا دے دیا حجاب کو دونوں پر سخت غصّہ آرہا تھا کیا تھا اگر بتا کر چھٹی کرتیں حجاب دونوں کے بغیر دن بھر بور ہوتی رہی کلاسز ختم ہوتے ہی حجاب نے اپنے بھائی اُسامہ کو کال کر کے لینے کے لیے بلایا۔ گھر آتے ہی وہ کھانا کھا کر سوگئی آج حجاب اور جویریہ کو مہوش کے گھر جانا تھا جہاں مہوش کی دادی نے میلاد کی تقریب رکھی تھی۔

” حجاب تم تیار نہیں ہوئیں۔۔ “

جویریہ آمنہ(حجاب کی امی)سے مل کر فوراً اسکے کمرے میں چلی آئی جہاں حجاب اپنا نقاب پہن رہی تھی۔۔

” اف خدا کی بندی آج تو اس نقاب کا پیچھا چھوڑ دو “

جویریہ نے جھنجھلا کر کہا

” خبردار جو دوبارہ کبھی ایسی بات کی۔۔۔ نقاب تو میری جان ہے۔۔ اسے پہن کر لگتا ہے میں بہت محفوظ ہوں ہر اُس بُری نظر سے جسے اللہ‎ مجھے بچانا چاہتا ہے۔۔ “ حجاب نے نقاب پن اپ کر کے تیز لہجے میں اسے جتایا۔۔

” میں بس کہہ رہی تھی آج نہ پہنو۔۔ تم جانتی ہو ناں  مہوش کی فیملی کو وہ دوپٹہ چھوڑو کپڑے ہی پورے پہن لیں بڑی بات ہے اور مہوش خود بھی ایسی ہے ہم آدھا گھنٹہ یا زیادہ سے زیادہ  ایک گھنٹہ وہاں بیٹھیں گے پھر مہوش کے روم میں چلے جایئں گے۔۔۔“ حجاب نے اسے سخت گھوری سے نوازا لیکن وہ ڈھیٹ بنتی بولتی رہی۔۔۔

” مہوش نے آج کال کی تھی کہہ رہی تھی ایک تو آتے نہیں میرے گھر اب مشکل سے آرہی ہو تو آسانی سے جانے نہیں دونگی لیٹ نائٹ ہم باتیں کرتے رہیں گے ویسے بھی کل تو سنڈے ہے۔۔۔ “ جویریہ نے آخری بات تھوک نگل کر اجازت طلب نظروں سے حجاب کو دیکھتے کہا جس نے پاس پڑی بک ہلکے سے اسکے سر پر ماری۔۔

” ہاے اللہ‎ “ جویریہ نے اپنا سر سہلایا

” میں جب کہوں ناں  اٹھو گھر کے لیے نکلنا ہے تب شرافت سے اٹھنا سمجھی اب چلو بھائی انتظار کر رہے ہیں۔۔ “ حجاب کہتے ہی روم سے نکل گئی جویریہ بھی منہ میں بڑبڑاتی اسکے ساتھ چل دی۔۔ آمنہ دونوں کو باہر چھوڑنے آئیں  انکے جاتے ہی آمنہ بھی کچن کے کاموں میں مشغول ہوگئیں۔۔۔

” کتنی دیر سے آئی ہو یار میں بور ہو رہی تھی اوپر سے دادی تو آج میری سوتیلی ماں بن بیٹھی ہیں چھوٹی چھوٹی بات پر ٹوک رہی ہیں ۔۔۔ “ مہوش انہیں دیکھتے ہی خوشی سے آکر ان سے لپٹ گئی۔ حجاب سے مل کر وہ جویریہ سے ملی۔۔

” چھمک چھلو پلین یاد ہے نا “ مہوش نے جویریہ سے گلے لگتے کہا۔ جس پر جویریہ نے خون خوار نظروں سے حجاب کو گھورتے کہا

” حجاب کے ہوتے ہوئے کوئی پلین کامیاب  ہو سکتا ہے؟؟ ” مہوش بی بی  اماں بی آپ کا پوچھ رہی ہیں “ ملازمہ نے آکر مہوش کو اطلاع دی جس پر وہ جلدی سے دونوں کو لے کر دادی کے پاس چلی گئی۔۔

” ڈونٹ وری جویریہ! حجاب مان جائے گی دادی کو بولوں گی اُسے روک لیں۔۔“ دادی کے پاس جاتے ساتھ مہوش نے جویریہ کے کان میں دھیرے سے کہا۔۔ جویریہ نے بس سر ہلایا اسے حجاب سے کوئی اچھی امید نہیں تھی ایک دو دفعہ حجاب یہاں جویریہ کے ساتھ آئی تھی حجاب کا رویہ یہاں نارمل ہی ہوتا، لیکن ایک دن  انکا دیر تک رکنے کا پلین بنا تب حجاب نے قسمیں دیکر اس سے گھر چلنے کے لئے کہا  وہ اُس دن اتنی ڈری سہمی ہوئی تھی کہ جویریہ اسکی حالت دیکھ کر خود پریشان ہوگئی۔۔  جویریہ نے اس سے بہت بار پوچھا لیکن حجاب نے طبیعت خرابی کا کہہ کر ٹال دیا۔۔۔  اُس دن بھی حجاب یہاں میلاد اٹینڈ کرنے آئی تھی اور وہ پہلی بار ہی تھا جب جویریہ اور حجاب دادو سے ملیں ورنہ ہمیشہ بس مہوش سے انکا سنا تھا کہ نمازی ہیں اور گاؤں کے رہہن سہن کی عادی ہیں تبھی شہر کی آب و ہوا انہیں نہیں لگتی۔۔

” دادو میں اپنی فرینڈز کو رسیو کرنے گئی تھی۔۔۔ “ دادو نے عینک کے پیچھے سے حجاب اور جویریہ کو غور سے دیکھتے ساتھ اپنی پوتی پر افسوس کیا جو انکے ساتھ رہ کر بھی نہ سدھری۔۔

” ماشاللہ کتنی پیاری بچیاں ہیں، نیک سیرت باحیا دیکھو کس طرح دوپٹا لیا ہے کہ سر سے ڈھلک نہ جائے۔۔ “ دادی کی آنکھیں تو حجاب کا اس طرح ڈھکا چھپا سراپا دیکھ کر چمک اٹھیں جویریہ اپنی تعریف سن کر جھٹ سے ان سے گلے ملی جبکہ نقاب میں چھپے حجاب کے ہونٹ مسکرائے یہ خاتون اسے پہلے ہی دن سے بہت اچھی لگی تھیں حجاب انکے سامنے احترامأ جھکی دادی کی تو خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا انہوں نے شفقت بھرا ہاتھ اسکے سر پر پھیرا

” ماشاءالله بچے ماں باپ کی پرورش دِکھ رہی ہے“ دادی نے اسے خود سے لگاتے کہا۔۔ بہت پہلے اکثر لوگ بزرگوں کے سامنے جھکتے انھیں احترامأ عزت دیتے، نجانے آج کل کیوں یہ روایت ختم ہوگئی۔۔۔

” دادو اب کیسی طبیعت ہے آپ کی؟؟ مہوش بتاتی ہے آپ ہارٹ پیشنٹ ہیں “

” یہ پھر شروع ہوگئی دادی اماں “ جویریہ نے مہوش کو دھیرے سے کہتے کوفت سے ان دونوں کو دیکھا جو ایک دوسرے سے بچھڑی بہنوں کی طرح گفتگو کر رہی تھیں۔۔۔۔

” بس بچے عمر کا تقازہ ہے “ دادو نے دُکھ بھری مسکراہٹ سے کہا۔۔

” دادو میلاد والی آگئی چلیں مہمان بھی انتظار کر رہے ہون گے۔۔ وہاں کوئی بڑا ہے بھی نہیں۔۔ “ دادی جو حجاب پر سوالوں کی بوچھاڑ کرنے والی تھیں یہ سن کر چھڑی سنمبھال کر اٹھنے لگیں کہ حجاب نے انہیں سہارا دیا مہوش جویریہ کو لیکر آگے بڑھ گئی جبکے حجاب دادو کو چلنے میں مدد دینے لگی۔۔

” تم کپڑے نہیں بدلو گی کیا؟؟ جینز پہن کر کون میلاد اٹینڈ کرتا ہے“ جویریہ نے اسکے کپڑوں پر چوٹ کی۔۔۔

” بڑا سا دوپٹا اوڑھ کے بیٹھ جاؤنگی شلوار قمیض ہے نہیں اور باقی  کپڑے ایسے ہیں کہ دادو نے دیکھتے ہی اللہ‎ کو پیارا ہوجانا۔۔۔ “ مہوش نے آنکھ دباتے ہنستے ہوئے  کہا جویریہ افسوس سے اسے دیکھتی رہ گئی۔۔

میلاد کی تقریب گھر کے پچھلے حصے میں ہورہی تھی.۔۔ خوبصورتی سے اسٹیج بنوایا گیا تھا ہر طرف تازہ گلابوں کی مہک تھی حجاب نے اندر آتے ہی نقاب اور عبایا اتار کے رکھ دیا دادو اسے دیکھتی رہ گئیں خوبصورت تو وہ تھی ہی لیکن اسکے تیکھے نفوش نے اسکے حسن کو چار چاند لگا دیے اور کاجل سے بھری آنکھیں اسکے حسن کو نکھار رہی تھیں۔۔

دادو جب پچھلی بار اسے ملیں تھیں تب دیر سے آنے کے باعث حجاب نے ایک پل کو نقاب نہیں اتارا تھا اور کھاۓ پیے بغیر ہی چلی گئی۔۔

دادو نے اسے اسٹیج پر اپنے ساتھ بیٹھایا حجاب کو آج کئی چہرے نظر آئے جو عام دنوں میں گھر رہنا تو دور بلکہ  گھر تشریف ہی مہمانوں کی طرح لاتے تھے۔۔ مہوش کی امی تائی اور بھابی نک سج کے مہمانوں کی طرح کونے میں بیٹھیں کوفت سے ہر آتے بندے کو دیکھ رہی تھیں مہوش بھی جویریہ کو لیکر دور جا بیٹھی میلاد شروع ہوتے ہی خاموشی چھاہ گئی بس اس خوبصورت لڑکی کی آواز پورے ہال میں گونج رہی تھی ابھی میلاد شروع ہوئے آدھا گھنٹہ ہی ہوا ہوگا کہ مہوش جویریہ کو لیکر گھر کے اندر داخل ہوگئی آہستہ آہستہ مہوش کی امی اور تائی بھی نکل گئیں۔۔۔ حجاب کو افسوس ہوا کم سے کم دادی کا دل رکھنے کے لئے کچھ دیر اور بیٹھ جاتیں۔۔

” بیٹے ان پر دھیان نہ دو ساری زندگی گزر گئی انکی یہ حرکتیں دیکھ کر “ دادی دکھ بھرے لہجے میں کہہ کر میلاد پڑھنے والیوں کی طرف متوجہ ہوگئیں حجاب بھی سوچ جھٹک کر انکو سنے لگی۔۔۔

دعا کے بعد وہ اندر چلی آئی ایک ایک قدم اسکا بھاری ہو رہا تھا اسکے لب ہل رہے تھے جس کی سوچیں یہاں آتے ہی اسکے دماغ میں گردش کرتیں حجاب دعا کر رہی تھی وہ یہاں نہ ہو۔۔۔

اور اللہ‎ نے اسکی سن لی وہ بخیریت مہوش کے روم کے باہر پہنچی اور بنا وقت ضائع کیے تیر کی تیزی سے اندر داخل ہوئی۔۔

” شرم نام کی چیز ہے؟؟؟ اس طرح دعا کے بغیر اُٹھ آئیں تم دونوں “

وہ آتے ہی ان پر چڑھ دوڑی۔۔۔

” حجاب تم نے سنا نہیں جس نے کی شرم اُسکے پھوٹے کرم “

مہوش نے کہتے ساتھ اسے پکڑ کے سنگل صوفہ پر بٹھایا۔۔۔

” مہوش تمہیں ذرا احساس نہیں سال میں ایک دفعہ دادو میلاد کراتی ہیں اس میں بھی تم ٹک کے بیٹھ نہیں سکتیں “

مہوش اسکی بات ان سنی کرتی دونوں ہاتھ کان پر رکھے کھانا لینے چلی گئی لیکن جویریہ کو پھنسا گئی جو دانت پیستی رہ گئی۔۔

” یار مہوش زبردستی اٹھا کے لے آئی میں کیا کرتی “ حجاب اسے ایک بھر پور گھوری سے نوازنے کے بعد کھڑکی کے قریب آکر کھڑی ہوئی۔ وہ ہوا کے سرد جھونکے کو محسوس کر رہی تھی کہ مہوش کھانا لیکر آگئی تینوں نے خوش گوار ماحول میں باتوں کے ساتھ کھانا کھایا پھر کچھ دیر بیٹھنے کے بعد حجاب نے گھر جانے کی ر ٙٹ  لگا لی مہوش کو ماننا ہی پڑا کیوں کہ وہ اسے آئندہ نہ آنے کی دھمکی دی رہی تھی۔

مہوش منہ پھلائے دادی سے ملانے کے لئے انکے روم میں لے آئی۔۔

” دادو اب اجازت دیں ہم چلتے ہیں بہت دیر ہوگئی ہے “

” ارے بیٹے تھوڑی دیر رُک جاؤ تم سے باتیں کرنے کے لیے تو سب کو چھوڑ کے اندر چلی آئی۔۔ “

” دادو پھر آجائیں گے ابھی نہیں گئی تو امی بہت پریشان ہونگی ابو بھی آج رات گھر پر نہیں ۔۔ “ وہ محبت سے انکے آگے جھکی دادی نے اسکی بے داغ پیشانی چومی۔۔۔

” دادو ڈارلنگ!!! “

وہی وقت تھا جب حجاب نے مردانہ آواز سن کر خوف سے نقاب لگایا جلدبازی میں اسکا ہاتھ لرز رہا تھا لکین دروازہ کھولے وہ شخص اسکی کاروائی دیکھ چکا تھا وہ بنا کسی کی پروا کیے آگے بڑھا اور دادی کو گلے لگایا اس طرح کہ اس شخص کا بازو حجاب کے بازو سے ٹچ ہوا۔۔۔۔ حجاب کو سخت ناگوار گزرا اُسے یقین تھا اِس شخص نے یہ جان بوچھ کر کیا ہوگا۔۔

” منہ کیوں پھلایا ہے اب آتو گیا “ اس شخص نے کہتے ساتھ اپنی دادی کی پیشانی چومی۔ حجاب خاموشی سے کمرے سے نکلی اسکے پیچھے ہی جویریہ بھی۔۔ دادی نے اپنے پوتے کو گھوری سے نوازا اور منہ پھیر لیا۔۔ جبکے وہ شخص حجاب کو جاتے ہوئے دیکھتا رہا جب تک وہ نظروں سے اوجھل نہ ہوئی۔۔

اردوناول کہانیاں

                       ☆………….☆………….☆

” بچاؤ۔۔۔ مما۔۔مما یہ۔۔۔۔ انکل۔۔۔۔ “

وہ آٹھ سال کی معصوم بچی کچھ بولتی اس سے پہلے ہی اُس شخص نے بچی کے منہ پر ہاتھ رکھ کی اسکی چیخ کا گلا گھونٹا۔۔۔ کمرے میں وحشت ناک خاموشی چھا گئی۔

اسے بُری طرح نوچ کر اب وہ وحشی درندہ خوف سے اس بچی کو دیکھ رہا تھا اگر کسی کو پتا چل گیا تو؟؟ یہ سوچ آتے ہی اسکے ماتھے پر پسینے کے ننھے قطرے نمودار ہوئے باہر سے مسلسل بچیوں کی رونے کی آوازیں آرہی تھیں ایک ہی رٹ لگائے وہ واپس اس درندے کو اُکسا رہی تھیں۔۔۔

” چھوڑو میری دوست کو “

اس شخص نے پل بھر کو سوچا پھر دونوں ہاتھ سے بچی کا گلا گھونٹا وہ اپنے ہاتھ پاؤں مارتی اپنی ماں کو پکارتی رہی۔۔۔۔

” بیڈ انکل۔۔۔۔۔۔۔۔ گندے۔۔۔۔۔۔ گندے۔۔۔ “ باہر سے آتی چیخیوں سے  اسکا خوف مزید بڑھایا اور زور لگا کر اس نے پل بھر میں اس بچی کی چلتی سانسیں روک دیں۔۔۔۔۔۔

اسکا پورا وجود پسینے میں شرابور تھا وہ سر کو دائیں بائیں ہلا کر اس چہرے سے دور جا رہی تھی جو اسکے قریب تر آتا جا رہا تھا۔۔۔۔۔ گھنی مونچھوں تلے ہونٹ شیطانیت سے مسکرا رہے تھے۔۔ وہ شخص اِسے بُلا رہا تھا اِسے آوازیں دے رہا تھا۔۔

” حجاب یہاں آؤ میں سمجھاتا ہوں “

وہ شیطان مسکرا رہا تھا۔۔۔۔۔ حجاب چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے اس کے پاس جا رہی تھی۔۔ ایک ایک قدم پر خوف مزید بڑھ رہا تھا۔۔۔۔۔

یہ خواب ہے ہاں یہ سچ نہیں ہو سکتا اسکا ذہن جاگ رہا تھا لیکن جسم حرکت کرنے سے قاصر تھا

وہ اٹھنا چاہتی تھی جاگنا چاہتی تھی اس بھیانک خواب سے لیکن کوشش کے باوجود اسکی آنکھیں نہیں کھل رہی تھیں وہ روکنا چاہتی تھی خود کو آگے بڑھنے سے لیکن اسکا جسم اسکے دماغ کا ساتھ نہیں دے رہا تھا تبھی کسی نے جھنجھوڑ کر اسے اٹھایا۔۔۔

” حجاب “ جھٹ سے اس نے آنکھیں کھولیں، اسکا ذہن بیدار ہوا پل بھر میں اسکے ذہن نے سامنے موجود اس چہرے کو پہچانا یہ اسکی ماں تھی ہاں یہ حجاب کی امی تھی، ذہن نے آگاہی دی تو جسم نے حرکت کی وہ اپنی ماں کے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کے رو پڑی۔۔۔

” بس میری جان کوئی نہیں ہے۔۔۔۔ میں ہوں ناں کوئی ہاتھ تو لگائے میری گڑیا کو۔۔۔ ہاتھ توڑ دوں اُسکے۔۔۔ “ حجاب کی ماں وہیں بیٹھی حجاب کا سر اپنی گود میں رکھے اسکے بال سہلانے لگیں حجاب نے بھی سختی سے انکا ایک ہاتھ اپنی گرفت میں لیا۔۔۔۔ آج بھی اسکی آنکھوں میں چودہ سال پہلے والا خوف تھا۔۔۔۔

آمنہ نے حجاب کی پیشانی چومی وہ ہر رات اسے دیکھنے آتی ہیں یہ خواب انکے لئے عام ہے لیکن انکی بیٹی کے لئے ہر بار نئی آزمائش آج بھی وقت پر آکر انہوں نے حجاب کو جگا دیا۔۔۔ لیکن یہ صرف خوب تھا انکی دعا ہے یہ خواب خواب ہی رہے لیکن کون جانے زندگی نے آگے کیا کھیل کھیلنا ہے۔۔۔۔

                        ☆………….☆………….☆

” مما مجھے ڈرائیور انکل کے ساتھ نہیں جانا۔۔۔ “

پرنیا کا مرجھایا چہرہ دیکھ کر ایک پل کو اسکے حرکت کرتے ہاتھ رُک گئے خوف کی گہری لہر اسے اپنی بیٹی کے چہرے پر صاف نظر آرہی تھی۔

” کیوں بیٹا؟؟ انکل نے ڈانٹا ہے “

” نہیں وہ مجھے پیار کرتے ہیں.. اور وہ.. “ اسکے ہاتھ لرز اٹھے ہاتھوں میں تھامی ناشتے کی ٹرے گرتے گرتے بچی۔۔

” میں تو آپ کو پیار کرتا ہوں نہ رانیہ بیٹا “

پرانی یاد نے اسے مزید خوفزدہ کردیا۔۔۔۔۔

“ اور کیا؟؟ “ لال ہوتی غصّے بھری آنکھوں سے اپنی بیٹی کو دیکھتے ہوے پوچھا اس وقت اسکا دل کانپ رہا تھا اسکی بیٹی نجانے کیا کہنے والی تھی؟؟ اسنے ناشتے سے بھری ٹرے ٹیبل پر رکھی۔

” مجھے یہاں ہاتھ لگاتے “

پرنیا نے اپنی گردن پر ہاتھ رکھتے اب کے غصّے سے کہا وہ معصوم ان باتوں سے انجان اپنی ناپسندیدگی ظاہر کر رہی تھی جیسے ڈرائیور کا عمل اسے اچھا نہیں لگا۔۔۔

” مجھے ان سے ڈر بھی لگتاہے مما۔۔ “ اب کی پرنیا آکر اسکی ٹانگوں سے چپک گئی اسنے پلک چھبکائے بغیر جھک کے اسے اپنے سینے سے لگایا۔۔۔

” یا میرے خدا!!!!! کونسی بھول ہوئی مجھ سے؟؟ میرے کس عمل کے بدلے تو نے مجھے ایسے جہنم میں ڈال دیا۔۔ جیسے مالک ویسے نوکر۔۔۔ اب میں کیا کروں کیسے اپنے بچوں کو ان سے محفوظ رکھوں۔۔۔ کیا مجھے؟؟ ہاں!! ایک یہی راستہ ہے میرے پاس۔۔“ تیز چلتی دھڑکنوں کو سمبنھالتے اسکا دل رو رہا تھا اب ایک ہی راستہ تھا اسکے پاس اس نے جھک کے پرنیا کے گال چومے۔

” آپ بیٹھ کے بھائی کے ساتھ ناشتا کرو میں آتی ہوں۔۔ گھبرانا نہیں مما ہیں نا۔۔ “ وہ اسکا گال تھپک کر تیزی سے اٹھ کے اپنے کمرے میں چلی آئی سامنے ہی اسکا شوہر آفس جانے کی تیاری کر رہا تھا بلیک سوٹ میں ملبوس وہ خود پر پرفیوم چھڑک رہا تھا۔۔

وہ دھیمے قدم اٹھاتی اسکے پیچھے آن کھڑی ہوئی اسکا شوہر اسکی موجودگی محسوس کرتے حیرت سے پیچھے مڑا۔۔

” کیا ہوا؟؟ “

” مجھے تم سے بات کرنی ہے۔۔ “ نظریں جھکائے  ہاتھوں کو آپس میں مسلتے وہ اسے پریشان لگی

” کرو “ بےنیازی سے کہتے وہ مُڑا اور ڈریسنگ پر رکھا فون اور والٹ اٹھایا

” ڈرائیور کو نکال دو اسکی جگہ کوئی۔۔۔ “

” کیوں؟؟ “ جتنی تیزی سے اس نے اپنا حدشہ بیان کیا اُسی تیزی سے اسکا شوہر پیچھے مُڑا

” وہ صحیح  آدمی نہیں۔۔ اُسکی نظریں، حرکتیں اس سے پہلے کہ وہ پرنیا ۔۔۔ “ زنانے دار تھپڑ کی آواز خاموش کمرے میں گونجی اسکے شوہر نے سختی سے اسکے بازو کو جھکڑے خود سے قریب کیا اتنا قریب کے اِسکی بیوی اِسکی سانسیں اپنے چہرے پر محسوس کر رہی تھی

” تم سمجھتی کیا ہو خود کو؟؟ آسمان سے اُتری پری ہو؟؟ ہر مرد تمہارا دیوانہ ہے؟؟ تمہیں دیکھنے کے علاوہ کسی کو کوئی کام نہیں؟؟۔۔۔ “ غصّے سے کہتے اسنے جھٹکے سے اپنی بیوی کو بیڈ پر پٹخا اور سائیڈ سے پانی کا بھرا گلاس اپنے حلق سے اتارا ۔ اسکی بیوی سنبھل کر بیڈ پر بیٹھ چکی تھی اِسی رویے کی امید تھی اُسے وہ پلک جھپکائے بغیر اسکی ایک ایک کاروائی دیکھ رہی تھی۔۔

اس وقت غصّے سے اسکی دماغ کی رگیں پھٹ رہی تھیں۔۔ خالی گلاس رکھنے کے بجاۓ اِسنے پوری قوت سے دیوار پر دے مارا اور اِسکے ساتھ بیڈ پر اِسکے سامنے آبیٹھا اِسکے بےحد قریب اور ٹھوڑی سے پکڑ کے اسکا چہرہ اونچا کیا

” اپنے بارے میں کیا کہنا ہے تمہارا؟؟ بہت پارسا ہو نا کیا کیا اب تک؟؟ بولو بیوی کے ہوتے ہوئے تمہارا شوہر باہر منہ مارتا پھرتا ہے۔۔ شدید نفرت کرتا ہے تم سے کیا اسکے دل میں جگہ بنا پائی ؟ تم جیسی پارسا لڑکیاں تو دن رات ایک کر کے شوہر کے دل میں گھر بناتی ہیں تم نے اب تک کیا کیا بولو؟؟ یا کسی معجزے کا انتظار تھا؟؟ تمہارا شوہر تمہارے پیروں میں آن گرے گا۔۔۔ “ وہ ہنسا زہر خند ہنسی۔۔۔۔

” میں تمہیں شوہر مانتی ہی نہیں تو انتظار کیسا؟؟ اور نہ ہی کوئی معجزہ ہونا میرا حساب تم سے اللہ‎ لےگا۔۔ “ وہ اسکی آنکھوں میں دیکھتے بےخوفی سے بولی۔۔۔ اِسکی انہی باتوں سے اِسکے شوہر کے دل میں اِسکے لیے نفرت مزید بڑھ جاتی آخر اپنا ٹھکرانا کہاں قبول تھا اُسے۔۔۔۔

” تمہیں لگتا ہے تم بہت معصوم ہو؟؟ میں ظالم ہوں ظلم کرتا ہوں؟؟تو ایک بات یاد رکھنا اللہ‎ دلوں کا حال بہتر جانتا ہے اور اللہ‎ کو وہ عورتیں نہیں پسند جو رو رو کر موت مانگتی ہیں۔۔ “ کہتے ساتھ اس نے کسی بیکار شے کی طرح اِسے چھوڑا اور اُٹھ کے جانے لگا ورنہ یقیناً آج وہ اِسے قتل کر دیتا۔۔۔

” تم رسوا ہوگے دیکھنا اللہ‎ تم سے ہر حساب لیگا میرے ایک ایک آنسو کا تم سے حساب لیگا میں دیکھوں گی تمہیں تڑپتا ہوا روتا ہوا خدا کے سامنے گڑگڑاتے ہوئے لیکن دیکھنا اُسے بھی تم پر رحم نہیں آئے گا۔۔۔ تم خوار ہوگے در در جاکر اسے ڈھونڈو گے معافی مانگو گے تمہیں وہ نہیں ملی گا، کہیں نہیں ملے گا، تم اِس دنیا میں اُسے ڈھونڈتے رہو گے لیکن افسوس وہ نہیں ملےگا۔۔۔ کیونکہ وہ تم جیسے لوگوں کا نہیں ہوتا نہیں ہوتا۔۔ تم قابل بھی نہیں کہ اُس کے سامنے سر اٹھا سکو۔۔۔ تم حرام کھاتے ہو حرام پیتے ہو۔۔ حرام رشتے بناتے ہو حلال تم جیسوں کے لیے نہیں۔۔ “

وہ پیچھے سے روتے ہوے اسے بددعائیں دے رہی تھی لیکن اس کے شوہر کو پروا کہاں تھی اسکی امپورٹنٹ میٹنگ تھی جو یقیناً اسکے لئے بہت اہم تھی….

 ایسے مسلمانوں پر سو توپوں کی سلامی “ حجاب بکس لیکر کلاس سے نکلی تو اسکی نظر سامنے فون پر بات کرتی لڑکی پر پڑی جس نے جینز کے ساتھ شارٹ شرٹ پہنی تھی ساتھ سر پر سلیقے سے حجاب لیا تھا۔۔۔

” حجاب چُپ رہو وہ سن نہ لے “ حجاب کے ساتھ چلتی جویریہ نے دانت پیستے کہا۔حجاب کی آواز اتنی بلند تھی کہ وہ لڑکی آرام سے سن سکتی تھی۔۔۔

” اگر وہ لڑکی سن لیتی کتنا برا لگتا اُسے؟؟ “

” کاش سن لیتی شاید عقل آجائے پر وہ تو اپنے عاشق سے بات کرنے میں مصروف ہے “ حجاب نے بےنیازی سے کہا۔۔۔

” چُپ حجاب یہاں سے نکل جائیں پھر اپنا لیکچر دیتی رہنا بلکہ جا کر مائیک پر اعلان کرنا “  جویریہ نے بنا لحاظ تیز لہجے میں کہا کیوں کہ ابھی بھی وہ لڑکی پاس کھڑی فون پر بات کر رہی تھی۔ حجاب اسے آنکھیں دکھاتی آگے چل دی جویریہ بھی اسکے ساتھ چلتی گارڈن ایریا میں آگئی۔۔۔

” حجاب کیا مسلہ ہے تمہیں؟؟ انکی مرضی وہ جو کریں تم کون ہوتی ہو کسی کو جج کرنے والی؟؟ ان سے اتنی پرابلم ہے؟؟ مجھے تو پھر پتا نہیں کیا سمجھتی ہوگی میں تو سر پر دوپٹہ تک نہیں لیتی “ دونوں یونیورسٹی کے پاس بنے گارڈن میں آگئیں جویریہ نے حجاب کے بیٹھتے ہی غصّے سے سرخ چہرہ لئے اسے کہا حجاب اتنی تیزی سے چل رہی تھی کہ جویریہ اسکا ساتھ دیتے دیتے ہانپنے لگی ۔۔۔۔

” نہیں تم اس سے بہتر ہو جو پارسائی کا ناٹک نہیں کرتی وہ تو آدھی انگریز آدھی مسلمان بنی پھرتی ہیں۔۔ جان بوجھ کر مردوں کو خود کی طرف اٹریکٹ کرنے کے لئے حجاب لیکر پارسائی کا ڈھونگ کریں گی یا پھر جینز پہن کر سب کی نظروں کا مرکز بنی پھریں گی۔۔۔ “ حجاب نے بھی اسے اسی کے لہجے میں جواب دیا۔۔

” حجاب وہ کوئی پارسائی کا ناٹک نہیں کرتیں کوئی خود کو حجاب میں کمفرٹیبل فیل کرتا تو کوئی نقاب میں ورنہ یہاں تو عبایا کے ساتھ بھی لڑکیاں نقاب سےزیادہ حجاب لیتی، نماز پڑھتیں لڑکوں سے باتیں کرتیں پھر کیا وہ بھی پارسائی کا ڈھونگ کرتی ہیں؟؟؟ “

” لڑکوں سے بات کرنا گناہ نہیں بس ان سے نرم لہجے میں نہ مخاطب ہو کے پیچھے ہی لگ جائیں ورنہ کیا فیمیل ٹیچرز نہیں کرتیں لڑکوں سے باتیں؟؟ “ وہ کہاں اپنی غلطی مانے والی تھی تڑخ کے جواب دیا

” انکے بارے میں کیا کہنا ہے جو نقاب میں یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ بائیک پر جاتی ہیں اور تمہیں کیسے پتا وہ لڑکی اپنے عاشق سے بات کر رہی تھی؟؟ “ جویریہ کے ماتھے کے بل اسکی بات سن کر کچھ اور بڑھ گئے

” اُس لڑکی کو دیکھ کے ہی لگ رہا تھا اپنے عاشق سے بات کر رہی ہوگی ایسی لڑکیاں یہی کام کرتی ہیں۔۔

اور تمہیں ہی ایسی نقاب والیاں ملتی ہیں مجھے تو آج تک کوئی ایسی نہیں دیکھی۔“جویریہ کو اسکی سوچ پر افسوس ہوا اس وقت وہ خود کو غیبت کر کے گنہگار محسوس کر رہی تھی۔۔

” حجاب یہ جو تم سب پر فتویٰ جاری کرتی رہتی ہو یہ غیبت نہیں؟؟ “ جویریہ نے تھک ہار کر کہا اس سے بحث واقعی فضول ہے۔۔

” جب انسان کے پاس جواب نہیں ہوتا تو ایسے ہی سوال بدلتا ہے نو موڑ آرگیومنٹس اب پریزنٹیشن بنائیں لیپ ٹاپ نکالو “ حجاب نے اسکا بیگ لیکر لپ ٹاپ نکالا جویریہ کا موڈ چھٹی تک خراب رہا۔۔۔۔

                         ☆………….☆………….☆

” ابراز۔۔۔ ابراز “

” دانش۔۔ دانش “

سنسان روڈ پر ہر طرف ان کے نام کی صدائیں گونج رہی تھیں ہوا میں چاروں طرف ان کے نام کا شور تھا ینگسٹر چلا چلا کر نام پکار کر انہیں حوصلہ دے رہے تھے۔۔۔۔

ابراز اور دانش دونوں ہی بائیک اسٹارٹ کر چکے تھے۔۔ جیسے ہی انکے ایک ساتھی(ریفری)نے سیٹی بجائی دونوں زن سے بائیک آگے بڑھا گے۔۔۔ دونوں بلیک جیکٹ میں ملبوس سر کوہیلمٹ سے ڈھانپے ہوئے تھے۔۔۔ ھوا کو چیرتی بائیک اپنی منزل پر رواں تھی دونوں ہی ساتھ تیزی سے آگے بڑھ رہے تھے یکدم ابراز نے سپیڈ اور بڑھا دی دانش بھی کہاں پیچھے رہنے والا تھا وہ کچھ ہی منٹوں میں اسکے برابر آن پہنچا۔۔۔ دونوں کی بائیک تیزی سے ایک مخصوص پوائنٹ کی طرف پہنچنے والی تھیں آخری وقت تھا دونوں بس پوائنٹ سے چند قدم کے فاصلے پر تھے سب لڑکے لڑکیاں سانس روکے انہیں دیکھ رہے تھے تبھی ابراز کی بائیک پوائنٹ کو چیرتی آگے رکی۔۔۔ فضا میں ابراز کی جیت کا شور گونجا سب ینگسٹر چلا چلا کر اسکا نام پکار رہے تھے۔۔۔

” ابراز بریلینٹ۔۔۔ “ مہک جو ہجوم کے ساتھ کھڑی تھی آکر اسے گلے ملی۔۔۔

” اسٹاپ اٹ اتنا چپکتی کیوں ہوں سخت زہر لگتی ہیں وہ لڑکیاں جو خود آکر بانہوں میں جھولتی ہیں “ ابراز نے کوفت سے کہتے اسے خود سے دور کیا تو اسکے سب دوست آکر اس سے ملے جبکہ مہک اپنی اس عزت افزائی پر غصّے سے کھولتی ابراز کی کار سے ٹیک لگا کر کھڑی ہوگئی۔۔۔

” امیزنگ برو۔۔۔ “ ابراز نے دانش کو داد دی

” جیتے تو تم۔۔۔ “ دانش نے نرمی سے مسکرا کر کہا۔۔

” لیکن خوشی نہیں ہوئی اُس دن ہوگی جب زندگی کی کوئی بڑی بازی جیتوں گا “ ابراز نے جیکٹ اتارتے کہا

” ہار کر بھی خوش ہو سکتے ہو دوست۔۔۔ زندگی کے کھیل عجیب ہیں کب پانسا پلٹ جائے خبر بھی نہیں ہوتی “ ابراز کو نجانے کیوں اسکی بات دل کولگی۔۔۔ یہ ریس وہ مہک کے کہنے پر کھیلا تھا انٹرسٹ اسے واقعی نہیں تھا۔۔ لیکن کھیل۔۔۔۔ کبھی کوئی کھیل کیا کر جائے انسان سوچ بھی نہیں سکتا اِس وقت بھی دانش کی باتوں سے ابراز کو لگا اِسکی قسمت بھی اِسکے ساتھ کوئی کھیل کھیلنے والی ہے۔۔۔

” بےبی تم جانتی ہو مجھے منانا نہیں آتا نہ مناؤں گا غصّہ فضول ہے۔۔۔ آجاؤ اندر “ ابراز دانش اور سب لوگوں سے مل کر قریباً پندرہ منٹ بعد آکر کار میں بیٹھا۔۔

” ڈیفنس سینٹرل لائبریری جانا ہے “ مہک جو منہ پھلائے بیٹھی تھی غصّے سے کھولتے تیز لہجے میں بولی

” یہ پڑھنے کا شوق کب سے جاگا “ ابراز نے کان کو انگلی سے مسلا اسے چیخنے چلانے والی عورتوں سے سخت نفرت تھی۔۔۔

” جب سے تم نے اگنور کرنا اسٹارٹ کیا ہے “  مہک نے آگے کی چند لٹوں کو انگلی سے لپیٹا انداز بےنیاز سا تھا

” اب غصّہ چھوڑو ورنہ رکشہ پکڑ کے گھر جاؤ۔۔۔ پیسے ہیں “ کار اسٹارٹ کرنے سے پہلے ابراز نے کہا مہک مصنوعی مسکرائی۔۔۔ پیسے اسکے پاس واقعی نہیں تھے ابراز نے دل جلانی والی مسکراہٹ سے جتا کر کار اسٹارٹ کی۔۔۔۔۔

                        ☆………….☆………….☆

حجاب پریزنٹیشن بنانے کے بعد جویریہ کے ساتھ بکس ایشو کروانے ڈیفنس سینٹرل لائبریری آگئی جو اسکی یونیورسٹی سے بےحد قریب تھی۔۔

” ابرازجسٹ ٹو منٹس بس بکس مل گئیں “ ایک لڑکی کی آواز حجاب کی سماعتوں میں گونجی لیکن جھٹکا اسے مردانہ آواز سن کر ہوا۔۔

“ no more than that ”

حجاب نے پیچھے مُڑکے دیکھا تو وہی تھا یہ شخص کیوں بار بار اسکے سامنے آجاتا وہ چاہ کر بھی اس سے دور نہیں بھاگ سکتی۔ وہ فون پر کوئی میسج ٹائپ کر رہا تھا اسنے حجاب کو نہیں دیکھا حجاب نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نکل جانا چاہا لیکن اسکی قسمت وہ کیسے بھول گئی ایک آفت سامنے ہے تو دوسری وہ اپنے ساتھ لے آئی ہے۔۔

” او ایم جی فائینلی!!!! حجاب دیکھو مجھے مل گئی کہاں کہاں نہیں ڈھونڈا اس بک کو یار کہاں کہاں آرڈر دیکر غلط بک منگوا لی “ جویریہ کے منہ سے حجاب سن کر وہ شخص انکی طرف متوجہ ہوا۔۔ جہاں چہرے پر پہلے بیزاری تھی اب حجاب کو دیکھتے ہی ایک چمک سی نمودار ہوئی، ہونٹوں پر دلفریب مسکراہٹ در آئی۔۔۔

حجاب نے بس ایک نظر اسے دیکھا، اس مسکراہٹ کو دیکھ کر اسکا دل کانپ اٹھا یعنی وہ اسکی نظر میں آچکی ہے تیزی سے وہ کاؤنٹر کی طرف بڑھی نظریں جھکائے اسے دیکھنے سے گریز کرتے ہوئے وہ آگے بڑھی لیکن وہ شخص اسکی راہ میں حائل ہوگیا۔۔۔

” اتنا سنبھالتی ہو خود کو پھر بھی گر گئیں کیا فائدہ ایسی حفاظت کا جب مقابل کی نظریں زیر کرنے کا فن جانتی ہوں “ الفاظ کے ساتھ نظریں ایسی تھیں کہ حجاب کو اپنی ریڑھ کی ہڈی میں سنسنی ہوتی محسوس ہوئی وہ اُسےہی دیکھ رہا تھا کاجل سے بھری ان خوبصورت آنکھوں کو۔۔۔۔ اس شخص کے ہونٹوں کو مسکراہٹ چھو کر گزری جیسے اسکی کیفیت سے لطف اٹھا رہا ہو حجاب کو رونا آرہا تھا وہ اسکی نظروں میں آچکی تھی۔۔۔ اس سے اب ہلا بھی نہیں جا رہا تھا کاش جویریہ اسے گھسیٹ کے یہاں سے لے جائے کچھ ہوجائے کوئی آجائے اسے لینے۔۔۔ خوف کے زیراثر اسکی آنکھیں لباب پانیوں سے بھر گئیں لیکن مقابل نے رحم نہ کیا گری ہوئی بک اٹھا کے اسکے ٹھنڈے پڑتے ہاتھ کو اس شخص نے اپنے ہاتھوں میں لیا اور دوسرے ہاتھ میں تھامی بک حجاب کے ہاتھوں میں رکھ دی۔۔

” حجاب۔۔اوہ ابراز بھائی آپ۔۔ “

جویریہ دونوں کو ساتھ دیکھ کر چونکی حجاب جو پتھر کا مجسمہ بنی ہوئی تھی جویریہ کی آواز سن کر اپنے ہوش و حواس میں لوٹی بک وہیں پھینکتے ہوئےوہ تیزی سے باہر کی طرف دوڑی۔۔

” اسے کیا ہوا؟؟ “ جویریہ بھی کہتی تیزی سے اسکے پیچھے چلی دی۔۔

حجاب باہر آکر وہیں بینچ پر بیٹھ گئی ہینڈ بیگ سے پانی کی بوتل نکال کر اپنے ہاتھوں کو رگڑ رگڑ کے دھونے لگی۔۔

” حجاب  یہ کیا کر رہی ہو؟؟ “ جویریہ اسکی حرکت دیکھ کر چونک اٹھی حجاب کا نقاب تک رونے کی وجہ سے گیلا ہو چکا تھا۔۔

” جویریہ تم نے دیکھا وہ۔۔ وہ گھٹیا شخص وہ گندا ناپاک انسان اس نے مجھے چھوا۔۔۔!!!! اسنے مجھے بھی ناپاک کردیا۔۔۔ اسکی۔۔ اسکی ہمت کیسے ہوئی مجھے ہاتھ لگانے کی۔۔۔“ جویریہ حیرت سے بت بنی اسے دیکھ رہی تھی پھر کوئی اور اسکا تماشا دیکھے اس سے پہلے جویریہ اسکا ہاتھ پکڑ کر تیزی سے آٹو لیکر گھر آگئی۔۔۔

” تمہیں ہوا کیا تھا آر یو میڈ؟؟ کیسی پاگلوں جیسی حرکتیں کر رہی تھی وہاں اور چھوڑو اپنے ہاتھ کو حجاب۔۔۔ “ جویریہ نے غصّے سے اسکا ہاتھ پکڑا جسے وہ بار بار رگڑ کر سرخ کر چکی تھی۔۔

گھر آتے ہی کوئی دس پندرہ بار وہ اپنے ہاتھ کو دھو کر بُری طرح رگڑ چکی تھی  جویریہ اسکی ایک ایک کاروائی خاموشی سے دیکھتی رہی لیکن اب مزید اس میں برداشت کرنی کی ہمت نہیں تھی۔۔۔

” ہاں پاگل ہو چکی ہوں۔۔ اس نے…. اس نے جان بوچھ کے یہ حرکت کی تاکہ میں بےسکون رہوں۔۔ “ چیختی چلاتی وہ یکدم خاموش ہوکر پھر رونے لگی۔۔۔

” تم نہیں جانتی جویریہ میں نے خود کو کتنا سنبھال کے رکھا ہے۔۔۔ یہ دنیا جینے نہیں دیتی۔۔۔۔  معصوم بچی جویریہ اُسے تک یہ دنیا نوچ کھاگئی ۔۔۔۔ ج۔۔۔۔جب۔۔۔ ج۔۔۔۔۔جب رانیہ کے ساتھ وہ سب ہوا تو ہر ایک کا کہنا تھا اُس کی بھی غلطی ہوگی آخر سارا دن محلے میں آوارہ گردی جو کرتی پھرتی تھی تم خود بتاؤ آٹھ سال کی۔۔۔۔مع۔۔۔۔۔۔ معصوم بچی آوارگردی؟؟  “ کہتے ساتھ وہ پھوٹ پھوٹ کے رو پڑی۔۔ جویریہ نے اسے گلے لگایا

” حجاب۔۔ آئی ایم  سوری یار۔۔ بٹ کیا پتا غلطی سے ٹچ کیا ہو؟؟ “ حجاب نے کچھ نہیں کہا وہ اس سے دور ہو کر بیڈ پر لیٹ گئی اور چادر اپنے اوپر اوڑھ لی صاف اشارہ تھا وہ تنہائی چاہتی ہے۔۔۔جویریہ بھی لائٹس بند کر کے خاموشی سے نکل گئی۔۔۔

                      ☆………….☆………….☆

” ابراز یہ تو میرا گھر ہے ہمیں کلب جانا ہے آج تمہاری جیت کی خوشی میں پارٹی رکھی ہے۔۔ “ مہک لائبریری سے بُک ایشو کرتے ہی اسکے پیچھے دوڑی تھی جو اسے چھوڑ کر اپنی کار میں جا بیٹھا تھا۔ مہک اسے غصّے میں دیکھ کر کچھ بھی پوچھنے کا ارادہ تُرک کر چکی تھی اور چپ چاپ آکر کار میں بیٹھ گئی۔۔۔۔

” ونر وہ ہوتا ہے جو لاحاصل کو حاصل کر سکے۔۔ ایسی فضول جیت کی خوشی منانے میں میرا کوئی انٹرسٹ نہیں کار سے اترو۔۔۔ “ وہ کار کی اسٹئرنگ تھامے سختی سے بولا مہک کا پارہ اسکی بات سن کر ہائی ہوگیا۔۔۔

” کس چیز کا غرور ہے تمہیں؟؟ اس سے زیادہ میں تم جیسے سائیکو بندے کو برداشت نہیں کر سکتی میں تو کیا کوئی بھی لڑکی تمہارے ساتھ رہنے سے موت کو ترجیح دےگی گڈ بائے فور ایور “ وہ پھنکارتی ہوئی کار کا دروازہ دھاڑ سے بند کر کے چلی گئی ابراز نے زور سے مکا اسٹئرنگ پر دے مارا۔۔۔

” حجاب تاثیر۔۔۔۔۔۔تم کیا ہو؟؟؟ کیوں میں تمہیں اتنا سوچتا ہوں؟؟ کیوں تمہارے الفاظ کسی زہریلی ناگن کی طرح ڈستے ہیں مجھے۔۔۔ “ وہ کچھ دیر وہیں اس پہیلی کو سلجھاتا رہا پھر زن سے کار گھر کی طرف بڑھائی۔۔۔۔

” بی اماں کیا خرابی ہے اس میں؟ نام ہے ایک، اسٹیٹس ہے خوبصورت ہے اور کیا چاہیے؟؟ “ فبیحہ نے ایک لڑکی کی تصویر بی اماں کو دکھائی جسے دیکھ کر بی اماں بُرا سا منہ بنا کر رہ گئیں۔۔۔

” کچھ نہیں بس سیرت چاہیے جو اس میں نہیں۔۔۔ وہی ہے نہ جس نے باپ کو کہا تھا اکاؤنٹ میں پیسے ڈالوانا ورنہ رات گھر نہیں آؤنگی یہ اگر میرے رازی کی بیوی بنی تو وہ بیچارہ پورے ملک میں اسے ڈھونڈتا پھرے گا، نہ اخلاق ہے نہ تمیز بس میک اپ کروا لو مدھو بالا بن کر آجائیں گی۔۔۔ “ بی اماں نے باقاعدہ تصویر ٹیبل پر پٹخی۔ فبیحہ نے بمشکل غصّہ ضبط کیا جبکے حیات صاحب اپنے فون میں مصروف رہے ویسے بھی یہ ان کی روز کی چخ چخ  تھی جس کی انہیں عادت ہو چکی تھی۔۔۔

” ہائے رازی کہاں ہو نظر ہی نہیں آتے۔۔۔ “ مہوش جو ٹیکسٹ کرنے میں مصروف تھی رازی کو اندر آتا دیکھ وہیں سے چیخی۔۔۔

” اسکو دیکھ بچہ تھکا ہارا گھر آیا ہے پانی دینے کے بجائے ہائے کرنے بیٹھ گئی سلام فرض نہیں کیا تجھ پر چل اٹھ پانی پلا بھائی کو ہمیں دیکھ مجال ہے جو بھائی کے سامنے بغیر دوپٹے کے بھی آئیں۔۔۔۔۔“ دادو نے اسے کندھے پر ایک جھانپڑ رسید کیا مہوش نے آنکھوں کی پتلیاں گھوما کر ماں کو اشارہ کیا۔۔

” ہائے اللہ‎ ہم ایسے آنکھوں کی پتلیاں گھومائیں تو اماں وہیں سے آنکھیں نوچ لیں اور آج کل کی مائیں نہ کام نہ کاج بس آئینے میں خود کو دیکھ دیکھ کر بالائیں لیتی ہیں رہا سہا کام اس موئے موبائل نے کر دیا۔۔۔۔ “ دادی نے مہوش کی یہ حرکت دیکھ دل پر ہاتھ رکھتے کہا ابراز وہیں سے انکی نوک جھوک سن کر آکر بی اماں کے پاس بیٹھ گیا ایسے کے بیچ میں وہ تھیں اور انکے دائیں بائیں طرف ابراز اور مہوش۔۔

” بی اماں آنکھیں جو نوچ لوں تو بچے دیکھیں کیسے؟؟ آپ دے دیں اپنی آنکھیں فوراً سے نوچ کے دکھاؤں گی ایسی نکمی اولاد کی “ فبیحہ تو ویسے ہی برداشت کی آخری حد پر تھی فوراً سے تڑخ کر کہا بی اماں نے جھٹ سے پاس پڑی عینک آنکھوں سے لگائی جیسے ابھی وہ اِنکی آنکھیں نوچ لے گی۔۔۔

” بس زبان لائی ہو میکے سے “ بی اماں نے اونچی آواز میں طنز کیا۔۔

” میں چلا جاتا ہوں، آپ شوق سے ایک دوسرے کے بال نوچیں۔۔۔ “

ابراز اٹھنے ہی لگا تھا کہ دادو نے ہاتھ پکڑ لیا۔۔

” تو بیٹھ جا چُپ چاپ نہیں لڑ رہے۔۔۔ “ دادو نے اسے آنکھیں دِکھائیں

” رازی یہ دیکھو تمہارے لیے میں نے لڑکی پسند کی ہے کیسی ہے۔۔ “

فبیحہ نے اسے تصویر پاس کی وہ پکڑتا اس سے پہلے دادو نے وہ تصویر لیکر مٹھی میں دبا کر اسے پھینکا۔۔۔

” چھوڑ تو۔۔۔ نہ دیکھ۔۔۔۔ کپڑے تو اس نے پہنے نہیں گناہ تجھے ملےگا تو میری سن۔۔۔ میں نے تیرے لئے چاند سے بھی خوبصورت لڑکی ڈھونڈی ہے، چاند میں بھی داغ ہوتا ہے لیکن وہ بےداغ ہے، بااخلاق،نیک سیرت، پاکیزہ اور سب سے بڑی بات زبان تو میکے سے ساتھ لائے گی ہی نہیں۔۔۔ تو نے دیکھا بھی ہوگا اسے مہوش کی دوست ہے۔۔۔ حجاب۔۔۔۔ جیسا نام پاکیزہ ویسی خود پاکیزہ۔۔۔۔۔ “ ابراز کے کان تو حجاب کا نام سنتے ہی کھڑے ہوگئے۔۔ وہ خود نہیں جانتا تھا کیوں وہ دن رات اُس لڑکی کو اپنی سوچوں کا مرکز بنائے بیٹھا ہے اسے حجاب سے نہ محبت تھی، نہ نفرت بس ضد تھی جسے وہ پورا کرنا چاہتا ہے۔۔۔۔

” بول میں رشتہ لیکر جاؤں “ دادو نے امید بھری نظروں سے ابراز کو دیکھا جو دھیرے سے مسکرایا

” دادی آج تک آپ کا کہا ٹالا ہے؟؟؟ “ مہوش کا دل جہاں حجاب سن کر خوش ہوا تھا وہیں بھائی کا اقرا سن کر اسکا دل خوشی کے مارے جھوم اٹھا جب کے حیات صاحب اور فبیحہ نے بےاختیار ایک دوسرے کو سکتے کے عالَم میں دیکھا۔۔۔

” دماغ ٹھیک ہے اس نقاب والی سے شادی کروگے؟؟؟ “ ابراز کی بات سن کر فبیحہ تقریباً چیخ اٹھی۔۔۔

” موم میں شادی کرونگا تو اُسی سے۔۔۔ مجھے بیوی چاہیے شوپیس نہیں جسکی نمائش کراتا پھروں۔۔۔ “ بمشکل غصّہ ضبط کرتا وہ نارمل انداز میں بولا لیکن الفاظ کاٹ دار تھے جسے فبیحہ نے طنز کی صورت میں محسوس کیا

” چپ رہو۔۔ میں اسے اپنے سرکل میں برداشت نہیں کر

سکتی “ وہ کسی طور ماننے کو راضی نہ تھی۔۔۔

” اف موم۔۔۔ آپ ہمیں بھی کہاں اپنی لائف میں برداشت کرتیں ہیں۔۔ جب پہلے میری فکر نہیں تھی تو اب کیوں؟؟؟ میری شادی اُسی سے ہوگی۔۔۔ ورنہ اُس شخص کو ماردونگا جو اُس سے نکاح کریگا۔۔۔ “ ابراز کی آخری بات کسی بم کی طرح وہاں بیٹھے ہر نفوس کو لگی تھی۔۔۔ وہ اپنا فیصلہ سنا کر جا چکا تھا جبکہ دادو نے بھی وہیں بیٹھے بیٹھے ایک فیصلہ کیا جسے آج ہی سر انجام دینا تھا۔۔۔۔

                       ☆………….☆………….☆

“ sweet heart i will be there!!! Just few more minutes ”

وہ اپنے بال ٹاول سے رگڑتا اسکے سامنے آکھڑا ہوا جو پرنیا کو سلا رہی تھی ساتھ احتشام کو ڈانٹ رہی تھی جس کا سونے کا ارادہ نہیں تھا۔۔۔

” مس یو ٹو بےبی آج رات تمہارا ہی ہوں “

وہ بغور اسے دیکھتے کہ رہا تھا جو اسکی رات والی بات پر خون کے گھونٹ پی کر رہ گئی۔۔۔اسکا شوہر اسکے چہرے پر کچھ كهوجنا چاہتا تھا لیکن آج بھی وہ چہرہ بےتاثر تھا۔۔۔

” اٹھو کپڑے نکالو۔۔۔۔ “ وہ فون رکھتے ہی اسکی طرف متوجہ ہوا وہ اٹھ کر اسکے کپڑے نکالنے لگی۔۔ لیکن آج نجانے کیوں اسکا دل رو رہا تھا آج تک ایسا کبھی نہیں ہوا، اسے کوئی فرق نہیں پڑا، وہ تو خود یہی چاہتی تھی وہ اسکے قریب نہ آئے بھلے کسی اور کے پاس جائے لیکن اس کے آس پاس نہ رہے۔۔۔۔

” ڈیڈ آئی وانٹ اسپورٹس بائیک۔۔ “  احتشام آکر باپ سے لپٹ گیا جو پرنیا کی پیشانی چوم رہا تھا۔۔۔

” اوکے کل گھر واپسی پر تمہاری بائیک تمہارے سامنے

ہوگی۔۔ “

” سچی ڈیڈ آئی لو یو۔۔ “ احتشام نے خوشی سے اپنے باپ کو گلے لگایا۔۔ اسکی نظریں بار بار اپنی بیوی کی طرف اٹھتیں اور مایوس ہوکر واپس لوٹتیں۔ اب وہ موبائل پر احتشام کو کچھ بائیکس کی پکس دکھانے لگا پھر اسکی پسند پر کال کر کے آرڈر کی جو کل احتشام کی اسکول اوف ٹائمنگ میں ڈیلیور ہوگی۔۔۔

” حلیم بنا رہی ہو یا شرٹ پریس کر رہی ہو؟؟ “

وہ کوشش کرتا بچوں کے سامنے لہجہ نارمل رکھے۔۔

” شرٹ جل گئی “

آج پہلی بار اس نے کوئی ایسی حرکت کی تھی۔۔۔ شرٹ جان بوچھ کے جلائی۔۔۔۔ وہ خود نہیں جانتی کیوں؟؟

وہ جو کب سے اسے دیکھ رہا تھا جھٹکے سے اٹھا اور اسکا ہاتھ پکڑ کے کھنچتے ہوئے اسے ٹیرس پر لے آیا جو انکے روم میں ہی گلاس وال دھکیلتے آجاتی۔  احتشام اسکے فون سے گیم کھیلنے لگ گیا تبھی انکے عمل سے بےخبر رہا کمرہ آخری فلور پر ہونے کی وجہ سے ٹیرس کی اونچائی بہت تھی۔۔۔ اسکے شوہر نے اسے ایک بازو سے پکڑ کے نیچے کی طرف دھکیلا ٹیرس کی اونچائی دیکھ کے بھی اسے ڈر نہ لگا۔  وہ موت کا منظر بخوبی دیکھ سکتی تھی اتنی اونچائی سے گرنے کے بعد شاید ہی کسی کی سانسیں واپس آئیں۔۔ آج موت یا اسکے شوہر کی شعلہ برساتی آنکھیں بھی اسکی بیوی کو خوف میں مبتلا نہ کر سکیں۔۔ کوئی ڈر و خوف نہیں تھا ڈر تو اسے خود سے لگ رہا تھا آج۔۔ ہاں یہ ڈر ہی تھا جس کی وجہ سے وہ بےچین ہے، جس سے اس نے شدید نفرت کی بدعائیں دیں آج اُسی کے لیے اسکا دل دھڑک رہا ہے۔۔۔ اسے ڈر لگ رہا تھا دل کے اس شور سے اسکا اپنا دل اسے دھوکا دے رہا تھا۔۔۔

” کیا چاہتی ہو؟؟ بولو یہیں سے پھینک دوں تمہیں؟؟ مجھے اور میرے بچوں کو تمہاری کوئی ضرورت نہیں تو زندہ رہ کر کب تک یہ دن بھر آنسوؤں بہا کر نحوست پھیلا  رکھو گی؟؟ ظلم ہوا ہے نہ تمہارے ساتھ؟؟ بےزار ہو نہ اس زندگی سے؟؟ تو آسان حل یہی ہے ہمیں بھی تمہاری ضرورت نہیں گو ٹو ھیل “

شوہر کی سنجیدہ آنکھیں اور آگ برساتا لہجہ بھی اسے خوفزدہ نہ کر سکا۔ دوسرے ہاتھ سے اس نے اپنے شوہر کا بازو پکڑا اور اسکے سینے سے لگی بلک اٹھی۔۔۔۔

” پتا نہیں میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے میں خود نہیں جانتی۔۔۔ مجھے بس سونا ہے ڈھیر سارا سونا ہےاور کبھی نہیں اٹھنا۔۔۔ “

وہ ظالم لڑکی کیا کہہ گئی تھی اسے خود اندازہ نہیں تھا جبکہ اسکا شوہر آخری الفاظ سن کر جی جان سے کانپ اٹھا تھا۔۔۔

” تم کون ہو جینے مرنے کا فیصلہ کرنے والی آئندہ مرنے کا نام لیا تو زبان کاٹ دونگا “ سختی سے اسے خود میں بھینچے وہ اسکی کمر کے گرد گرفت سخت کر چکا تھا۔۔۔

” کیا پریشانی ہے؟؟ کیوں اتنی ڈل ہو رہی ہو؟؟ “ کچھ لمحوں بعد جب رونے کی شدت میں کمی آئی تب اسکے شوہر نے ٹھوڑی سے پکڑ کے اسکا چہرہ اونچا کیا

” پتا نہیں “ آواز رندھی ہوئی تھی۔۔۔

” کسی نے کچھ کہا؟؟ “ اب کی بار محبت سے دونوں ہاتھوں سے اسکا چہرہ تھاما

” نہیں “ وہ نفی میں سر ہلانے لگی

” پھر؟؟ “ محبت بھرا لہجہ ایک بار پھر وہ اپنی ہی نفرت سے ہار گئی یہ وہ نہیں تھا جو اسے روتا دیکھ کر پُر سکون ہوجاتا یہ تو کوئی اور ہی تھا۔۔۔۔

” دل میں درد ہو رہا “ آنسوؤں کا سیلاب اسکے شوہر کے ہاتھ بھگو گیا۔۔۔ دل کا درد مزید بڑھ گیا

” کیوں؟؟ “ اسکے شوہر کو آج ان آنکھوں میں اپنا عکس صاف دکھائی دیا

” پتا نہیں۔۔ “ وہ نظریں چُراگئی ساتھ شوہر کے دونوں ہاتھ جو اسکے چہرہ تھامے ہوے تھے انھیں جھٹکا۔۔۔آخر کب تک وہ جان بوجھ کر شوہر کی محبت سے انجان رہے گی۔

” کیا پتا ہے؟؟ میری آنکھوں میں دیکھ کر جواب دو “ وہ کہاں اس سے ہارنے والا تھا ایک ہاتھ اسکی کمرکے گرد حائل کیا جبکے دوسرے ہاتھ سے اسکی ٹھوڑی پکڑ کے سر اونچا کیا وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا ان آنکھوں میں آج نہ نفرت تھی نہ انا بس محبت تھی اپنی بیوی کے لئے۔۔۔ایک بار پھر اسے وہ خط یاد آگیا۔۔۔ وہ اسکی شرٹ دونوں ہاتھوں کی مٹھی میں جکڑے۔۔ اس پر سر رکھے رو دی

” یہی کہ مجھ سے کوئی راضی نہیں۔۔ کوئی بھی نہیں۔۔۔ “

” کون نہیں ہے “ وہ نرمی سے اسکی پیٹھ تھپکنے لگا۔ دل ہی دل میں آج وہ بہت خوش تھا اسے یقین ہو چلا تھا محنت رائیگاں نہیں جاتی۔۔۔۔۔۔۔

” اللہ‎ “ اسکے شوہر کے حرکت کرتے ہاتھ رُک گئے۔۔ چند لمحے آسمان کو تکتے جیسے وہ سب منظر ذہن میں ریوائنڈ کر رہا تھا پھر اسے دونوں کندھوں سے تھامے جنونی انداز میں اگلا سوال دغا۔۔۔

” اور۔۔ “ وہ خاموش رہی

” پلیز بولو نا؟؟ آج چُپ مت رہو تمہاری چپ میری جان لے لے گی “

” شوہر “ رندھی ہوئی آواز کے ساتھ اسکے حلق سے الفاظ برآمد ہوئی جس نے اسکے شوہر کو زندگی کی نوید سنائی

” مانتی ہو شوہر اُسے؟؟ “ خوشی بےیقینی کیا کیا نہ تھا اسکے شوہر کی آنکھوں میں۔۔۔۔

” ہاں “ وہ جھکا تھا اور اسکی بےداغ پیشانی چومی۔ آج یہ لمس اسے سکون بخش رہا تھا نہ گھن آئی نہ نفرت ہوئی بلکہ محبت بھرا لمس اسکی آنکھیں نم کر گیا یہی تو ہے جو اسے بےچین کیے ہے۔۔۔ یہ محبت ہاں آج وہ ہار گئی اپنے شوہر سے، اس دل سے جہاں وہ بستا ہے۔۔۔۔۔۔ وہ اسکا ہاتھ پکڑ کے کمرے میں لے آیا۔۔۔

” بیٹھو “ اسے بیٹھنے کا کہہ کر خود اسکی گود میں سر رکھے لیٹ گیا۔ نم آنکھوں سے وہ اسکا روشن چہرہ دیکھ رہی تھی جو اسے ہمیشہ خوفناک لگتا تھا آج وہ چہرہ اسے خود سے زیادہ خوبصورت اور روشن لگ رہا تھا۔۔

” میرا سر دباؤ “ اگلا حکم جاری کیا لیکن وہ یک ٹک اسے دیکھے گئی۔۔

” تم سے کہہ رہا ہوں۔۔ کہاں ہو “ وہ جو آنکھیں موندھے لیٹا تھا اسے حرکت کرتا نہ دیکھ آنکھیں کھولے تھوڑے سخت لہجے میں بولا۔۔۔ وہ کپکپاتے ہاتھوں سے اسکا سر دبانے لگی آج سے پہلے ایسی کوئی خواہشں اسکے شوہر نے نہیں کی تھی اگر کہتا بھی تھا تو صرف چڑانے کے لئے لیکن آج جہاں وہ بدلی تھی وہیں اسکا شوہر بھی اس میں تبدیلیاں دیکھ چکا تھا شاید تبھی آج اسکے شوہر نے پہل کی۔۔۔

” بس چھوڑو یہاں آکر میرے ساتھ لیٹو “ پانچ منٹ بھی نہیں ہوئے ہونگے کہ اسکے شوہر نے اگلا حکم سنایا۔ اسنے دھیرے سے اسکا سر اپنی گود سے ہٹا کر سرھانے پررکھا۔۔۔ جھجھکتے ہوئے وہ دوسری بات پر عمل کرنے کے لئے بیڈ پر جھکی تھی اسکا ارادہ بچوں کی سائیڈ پر سونے کا تھا جو بیڈ کی دوسری سائیڈ پر سو رہے تھے۔۔۔

” یہاں سر رکھو۔۔۔ “ اپنا بازو پھیلائے وہ اسے اپنے پاس سونے کی دعوت دے رہا تھا۔۔۔

” اتنا سوچ کیا رہی ہو شرافت سے یہاں آؤمیں اٹھا تو تم جانتی ہو۔۔۔ “ رعب دار لہجے میں وہ اسے دھمکی دے کر پاس آنے پر مجبور کر گیا۔۔ وہ کچھ ججھک کر اسکے پاس آئی اور آنکھیں موند کر اسکے پھیلے بازو پر سر رکھ دیا۔۔۔

” میری طرف دیکھو۔۔۔ “

” پلیز۔۔۔ “ وہ کروٹ شوہر کی سائیڈ لیکر اسکے سینے میں منہ چھپا گئی۔ آنکھیں کھولنے کی اس میں ہمت نہ تھی وہ جو خود کو ہمیشہ اس سے بہتر سمجھتی تھی آج کہیں سے وہ اس باوقار شخص کی ایک انگلی برابر بھی نہ لگ رہی تھی۔۔۔۔اسکے شوہر نے بھی ضد نہ کی بس اسے سختی سے خود میں بھینچ لیا۔۔۔۔۔

Loading