ڈاکٹر جمیل جالبی کی اج برسی ہے ۔
ان کی یاد میں ڈاکٹر شکیل فاورقی مرحوم کی ایک نایاب تحریر ۔
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل)ڈاکٹر جمیل جالبی رو سال پہلے 18اپریل کو اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ وہ جامعہ کراچی کے وائس چانسلر، مقتدرہ قومی زبان کے صدر نشین، اردو لغت بورڈ کے صدر نشین اور انکم ٹیکس کمشنر رہے۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں حکومتِ پاکستان نے انہیں ستارہِ امتیاز اور ہلالِ امتیاز سے نوازا۔ڈاکٹر جالبی نے اپنی زندگی میں چار کردارکامیابی سےنبھائے۔ ان کی عملی زندگی کاآغاز بحیثیت ہیڈ ماسٹر بہادر یار جنگ اسکول ہوا۔ وہ ایک کامیاب مدرس ثابت ہوئے اور ان کے شاگرد جو اب خود ضعیف العمر ہیں انہیں بڑی عقیدت سے یاد کرتے ہیں۔ قیامِ پاکستان کا یہ ابتدائی دور ہر نوجوان کے لیے ایک جدوجہد کا دور تھا۔جمیل جالبی نے سندھ یونیورسٹی سے جو اس وقت کراچی میں قائم تھی ایم اے کی سند حاصل کی۔ انہوں نے ایل ایل بی بھی کیا۔ ان کی طبیعت کی جولانی نے ان سے مقابلے کے امتحان کا تقاضہ بھی کیا جس میں کامیابی حاصل کرکے وہ محکمہ انکم ٹیکس سے وابستہ ہوئے۔ بحیثیت ایک لائق اور فرض شناس سرکاری افسر کے انہوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔
سرکاری ملازمت جمیل جالبی کی طبیعت میں شامل جستجوئے علم اور ذوقِ تحقیق کو متاثر نہ کرسکی اور انہوں نے جامعہ سندھ کے شعبہ اردو کے صدر نشین پروفیسر ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان رحمہ الله علیہ جو ایک صاحبِ طریقت صوفی بزرگ تھے کی زیرِ نگرانی اپنا پی ایچ ڈی کا تحقیقی مقالہ تحریر کیا۔علمی اور تحقیقی میدان میں بھی ڈاکٹر جمیل جالبی کا نام روشن ہوا۔ بعد میں ان کی ادبی، علمی اور تحقیقی خدمات کے اعتراف میں انہیں ڈی لٹ کی سند بھی تفویض کی گئی۔
محکمہ انکم ٹیکس سے وظیفہ یاب ہونے کے بعد ڈاکٹر جمیل جالبی کو شیخ الجامعہ کراچی مقرر کیا گیا جہاں وہ ایک بہترین منتظم اور رہنما ثابت ہوئے اور ان کا شمار بہترین شیوخ الجامعہ میں ہوا۔
ایک قابل و لائق استاد، ایک فرض شناس سرکاری افسر، ایک کامیاب منتظم اور رہنما اور ایک بہترین علمی و ادبی محقق ہونا ڈاکٹر جمیل جالبی کو گزشتہ ایک صدی کے دانشوروں میں ممتاز کرتا ہے۔
ڈاکٹر جمیل جالبی ماہرِ لسانیات، لغت نویس، تنقید نگار، تقابلِ ادبیات کے ماہر، مورخ اور تہذیب و ثقافت کے تجزیہ کار تھے۔ ان موضوعات پر ان کی سو سے زیادہ تصانیف موجود ہیں۔
اردو ادب کی ایک جامع تاریخ مرتب کرنا بے شمار مصنفین و محققین کا گزشتہ ایک صدی میں خواب رہا۔ ڈاکٹر رام بابو سکسینہ، پروفیسر آل احمد سرور، ڈاکٹر رشید احمد صدیقی، ڈاکٹر یوسف حسین اور کئی اہم اسمائے گرامی ہیں لیکن ڈاکٹر جمیل جالبی نے تن تنہا جو تاریخِ اردو ادب مرتب کی ہے اس کارنامے نے انہیں گزشتہ ایک صدی کے تمام دانشوروں میں ممتاز کیا ہے اور بلاشبہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ اس دورِ جدید کے محمد حسین آزاد ہیں بلکہ ان سے بھی منفرد اور یکتا۔
ڈاکٹر شکیل الرحمن فاروقی