Daily Roshni News

شوال کے روزے۔۔۔ تحریر۔۔۔حمیراعلیم

شوال کے روزے

تحریر۔۔۔حمیراعلیم

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انترنیشنل۔۔۔۔ شوال کے روزے۔۔۔ تحریر۔۔۔حمیراعلیم) رمضان کے روزوں کیبعد شوال کے چھ روزے سنت  اور مستحب ہیں۔نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا فرمان ہے۔

” ہر نیکی کا اجر دس گنا ہوتا ہے۔رمضان کے ایک ماہ کے روزے دس ماہ کے برابرہیں۔اور شوال کے چھ روزےدو ماہ کے برابر ہیں اور پورے سال کے روزوں کےبرابر کر دیتے ہیں۔”النسائی۔ابن ماجہ۔صحیح الترتیب و الترہیب 1-421

 اس میں بھی یہی حکمت ہے جو باقی نفلی عبادات میں ہے جس کو اللہ نے اپنے بندوں کے لیے مشروع کیا ہے تاکہ اس کے ساتھ فرض کو مکمل کیا جائے۔

ایک حدیث کیمطابق: ” روز قیامت سب سے پہلے نماز کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔اگرچہ اللہ تعالٰی جانتا ہے مگر وہ فرشتوں کو حکم دے گا: ” میرے بندے کی نماز کو  دیکھو کیا یہ مکمل ہے یا نہیں۔”

اگر تو نماز مکمل ہوئی تو مکمل لکھ دیا جائیگا۔اور اگر کچھ کمی ہوئی تو اللہ تعالٰی فرمائے گا:” دیکھو کیا میرے بندےنے کوئی نوافل ادا کیے تھے۔”

اگر اس نے نوافل ادا کیے ہونگے تواللہ تعالٰی فرمائے گا۔

” میرے بندے کے فرائض کو نوافل سے پورا کر دو۔”

اوراس کے تمام اعمال کیساتھ ایسا ہی معاملہ کیا جائے گا۔”ابو داؤد

 پس شوال کے ان چھ روزوں کا مقام بھی وہی ہے جو نماز کے بعد سنت موکدہ پڑھنے کا مقام  ہے کہ فرض نماز میں جو کمی واقع ہوئی ہے وہ ان سنتوں کے ساتھ پوری کر دی جائے۔

فتاوى نور على الدرب 7/352صيام الست من شوال

شوال کے مہینے کے بارے میں ایک مسئلہ کثرت سے پوچھا جاتا ہے۔

جس نے رمضان کے روزوں کی قضاء دینی ہو اس کے لیے شوال کے چھ روزوں کا کیا حکم ہے؟

 رسول اللہ ﷺ کی حدیث میں آیا ہےعَنْ أَبِى أَيُّوبَ الأَنْصَارِىِّ رضى الله عنه أَنَّهُ حَدَّثَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَتْبَعَهُ سِتًّا مِنْ شَوَّالٍ كَانَ كَصِيَامِ الدَّهْرِصحیح مسلم2815

 ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہےانہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو آدمی رمضان کے روزے رکھے پھر اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو یہ پورا سال روزے رکھنے کی طرح ہے۔

یعنی گویا اس نے پورے سال کے روزے رکھے۔

تو اس فضیلت کو حاصل کرنے کے لیے پہلے رمضان کے روزے پورے کیے جائیں۔

 انسان کو اس بات کی طرف متنبہ رہنا چاہیے کہ یہ فضیلت اس وقت تک حاصل نہیں ہوتی جب تک کہ مکمل رمضان پورا نہ ہو جائے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر انسان کے ذمہ رمضان کے روزوں کی قضاء ہو تو پہلے وہ رمضان کے روزوں کی قضاء کو پورا کرے پھر شوال کے چھ روزے رکھے۔

اور اگر وہ شوال کے چھ روزے رکھ لیتا ہے اور رمضان کے روزوں کی قضاء اس نے ابھی تک نہیں ادا کی تو اس کو یہ ثواب حاصل نہیں ہوگا۔

کیونکہ نبی ﷺ کا فرمان ہے مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَتْبَعَهُ جو رمضان کے روزے رکھتا ہے پھر اس کے پیچھے شوال کے روزے رکھتا ہے۔

جس نے رمضان کے روزوں کی قضاء ادا کرنی ہو اس کے متعلق یہ کہا جائے گا کہ اس نے کچھ رمضان کے روزے رکھے ہیں اس کے متعلق یہ نہیں کہا جائے گا کہ اس نے مکمل رمضان کے روزے رکھے ہیں۔

شوال کے روزے الگ الگ رکھے جائیں یا مسلسل

 یہ روزے الگ الگ اور مسلسل دونوں طرح سے رکھنا جائز ہے لیکن مسلسل رکھنا افضل ہے۔ کیونکہ اس میں نیکی کی طرف سبقت لے جانا ہے اور اس میں ٹال مٹول نہیں پائی جاتی کیونکہ ٹال مٹول کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ  کبھی انسان بالکل ہی روزے نہیں رکھ پاتا۔

الإمام ابن عثيمين رحمه الله تعالى مجموع فتاوى ورسائل جامعة الفقه الإسلامي العالمية في ضوء القرآن والسنة۔

Loading