فکر اقبال( ح)
اقبال نے کہا کہ
۔۔۔۔۔ ۔۔
اس کائنات بود کی مشکل بساط پر
مہروں کی گردشوں سے پریشان ہو نہ تو
اقبال نے کچھ ایسی حکایت نواز دی
دور حضرسے اتنا نہ ہو بدگمان تو
مانا یہ میں نے مانا کہ ایسا ہی
سب ہوا
اقبال نے کہا تھا کہ انصاف سے جیو
دہقان کو بھی نان جویں مل سکے جہاں
کھلیان کی اک ایسی شریعت پہ زور دو
لیکن کہیں سے اہل سیاست جھپٹ پڑے
نعرہ کیا بلند،مصیبت پہ زور دو
رقمیں ملیں جہاں سے اداؤں کے مول پر
لے لو انہیں نہ اپنی شرافت پہ زور دو
ایسی سیادتیں کہ رہیں زیر دست و پا
اقبال کی تھی فکر ،جلالت پہ زور دو
غیرت،حمیتیں،کہیں،پیمانہ – خودی
ٹوٹا کچھ اس طرح سے وطن ڈولنے لگا
نہ عافیہ بچی نہ کوئی اور بچ سکا
تب ہی تو یہ کہا تھا،قیادت پہ زور دو
اقبال ذی نگاہ نے اک روز یہ کہا
اپنی جبیں کو تو نہ کہیں بیچ دیجیو
سجدہ نہ کر کسی کو محبت کے نام پر
اغیار کی خوشی میں نہ تن بیچ دیجیو
اقبال کے شعور کا نوحہ تھا جا بجا
بےشک حلیم اس کی طبیعت بپھر گئی
اس نے تو یہ کہا تھا محبت پہ زور دو
وہ ساری گفتگو جو یہاں نظم ہو گئی
لاریب ہے صحیح ،ہیں بجا سب حکایتیں
تاہم میں پھر بھی ہوتی ہوں اقبال سے کشید
مہروں کی گردشوں سے پریشان ہو نہ تو
پیدائش – حروف پہ ایمان لانا تو
فرخندہ شمیم