پریشر تکنیک
لمس کے ذریعے امراض سے شفایابی کا قدرتی طریقہ
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ پریشر تکنیک)اس مضمون کا عنوان پڑھ کر حیرت میں مت پڑ جائے گا۔ دیکھئے ….! یہاں امتحان کی تیاری کے دوران طالب علموں کے ذہنوں پر ہونے والے پریشر کا ذکر نہیں کیا جارہانہ یہاں فنر کس میں زیر بحث پریشر تکنیک کی مشکل اور پیچیدہ مساواتیں بیان کی جارہی ہیں۔ نہ ہی ان صفحات پر مشینوں کی پریشر ٹیکنالوجی کاکوئی تذکرہ ہو رہا ہے۔
روحانی ڈائجسٹ کے قارئین کے لئے ان صفحات میں ہم ذکر کر رہے ہیں لمس کے ذریعے دیئے جانے والے پر یشر یاد ہاؤ کا جو انسانوں کے لئے شفا بخش اثرات رکھتا ہے۔
اپنی زندگی کا احساس ہمیں اپنے پانچ حواسوں کے زریعے ہوتا ہے ۔ انسان اپنی زندگی کے کام سننے، دیکھنے، بولنے ، چھونے اور سونگھنے کی حسوں کی مدد سے کرتا ہے ۔ دیکھنے کے لئے آنکھ ، سننے کے لئے کان، بولنے کے لئے زبان ، سونگھنے کے لئے ناک، یہ اعضا متعلقہ اعصاب کے ساتھ مل کر اپنے افعال سرانجام دیتے ہیں۔
چھونے کی حس انسان کے سب سے بڑے عضو جلد کے ذریعے عمل کرتی ہے ۔ جلد کے ساتھ اعصاب کا طویل ترین حال اس کام میں جلد کا معاون ہوتا ہے ۔ لمس کا احساس انسان کو زندگی کے کئی اہم مادی اور جذباتی معاملات میں مدد فراہم کرتا ہے۔ چھونے کی حس کتنی زیادہ اہمیت کی حامل ہے اس کا اندازہ اس طرح لگائیے کہ ہم کسی چیز کا ذائقہ اس وقت تک محسوس نہیں کر سکتے جب تک کہ اس غذا کے ذرات ہماری زبان پر موجود ریسیپٹرز جنہیں ہم ٹیٹ بڈس ( Taste Buds) کہتے ہیں کونہ چھولیں۔
ہم موسیقی سے تب ہی لطف اندوز ہو پاتے ہیں کہ جب موسیقی کے ساز سے نکلنے والی آوازیں ہوا کے دوش پر سوار ہمارے کانوں کے سماعتی نظام سے ٹکراتی ہیں۔ ہم دیکھ بھی نہیں سکتے کہ جب تک کسی بھی مئے میں سے خارج ہونے والی مقناطیسی لہریں نگاہ کے پردے سے نہ ٹکرائیں یعنی پردے کو چھوٹے بغیر وہ عکس نہیں بنا سکتیں۔
اور کیا ہی بات ہے لمس کی حس کی کہ جب کسی اپنے کا ہاتھ جلتی ہوئی پیشانی کو چھولے تو تاثیر مسیحائی روح تک پھیل جاتی ہے ۔ ماں کا لمس تکلیف سے روتے ہوئے بچے کو سکون بخش دیتا ہے۔
سائنس نے لمس کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا ہے کہ لمس سے جسم میں Oxytocin ہارمونزپیدا ہوتے ہیں۔ یہ ہارمون انسان کو متحرک و فعالرکھتے ہیں۔ قربت کے احساس سے ان میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس لئے انہیں Cuddle Hormone بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ہارمون انسانی رویوں میں خود اعتمادی، یقین اور زندہ دلی کا باعث بنتے ہیں۔ کسی بھی پالتو جانور کو سہلانے سے انسان کے اندر یہ کیمیائی عمل شروع ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں لوگ جانور اور پرندے پالتے ہیں۔ روز مرہ زندگی میں دوستوں و قریبی عزیزوں سے ہاتھ ملانا یا ان سے گلے مانا اس کیمیائی عمل کو تیز تر کر دیتا ہے۔ یہ کیمیائی عمل انسان کی جذباتی زندگی کو تحریک دیتا ہے۔
سماجی رابطے ہوں، اپنوں سے خوش گوار تعلق یا زندگی کی گرم جوشی یہ ہارمونز ہر حالت میں متحرک ہوتے ہیں۔
لمس میں ایک شفا بخش صلاحیت بھی ہوتی ہے، اکثر لوگ جب شدید تھکن محسوس کر رہے ہوں تو ان کے ہاتھوں کی انگلیاں غیر ارادی طور پر ہتھیلیوں اور پیروں کے تلوے دبانے لگتی ہیں۔ اگر کوئی فرد ان کے نگوں اور ہتھیلیوں کو ہولے ہولے دہائے یا صرف سہلائے بھی تو سکون مل جاتا ہے، تھکن دور کو جاتی ہے۔ یہ ایک قدرتی عمل ہے۔
نس کی اسی شفا بخش خصوصیت کے پیش نظر چین میں ایک طریقہ علاج دریافت کیا گیا۔ اسے پریٹر تکنیک Pressure Technique کا نام دیا ہے، اس تکنیک کو زون تھراپی Zone Therapy، ریفلیکسولوجی ,Reflexology اور ایکو پریشر Acupressure بھی کہا جاتا ہے۔ پریشر تکنیک ڈھائی ہزار سال قدیم طریقہ علاج ہے۔
اپنی افادیت کی بدولت یہ آج بھی مقبول ہے۔ پریشر تکنیک کی مقبولیت کی ایک وجہ اس کا آسان اورہر شخص کے لئے قابل عمل ہونا بھی ہے۔ بہت عجیب سا لگتا ہے کہ جب کوئی فرد سر درد، پیٹ درد، موچ الٹی چکر یا پھر ہارمون کی خرابی کی شکایت لے کر آئے
اور طبیب اس کے پیروں کار ریلیکس مساج کر کے اس کا علاج کر دے۔
اس مساج کے ذریعے کئی تکالیف کے تو فوری نتائج حاصل ہو جاتے ہیں۔ جیسے کہ پیر کی موچ، کمریاسر کا در دیا ہے نیند نہ انا و غیرہ۔
اس علم کے ماہرین کہتے ہیں کہ زون تھراپی کو ضمنی Supplementary علاج کے طور پر التیار کرنا چاہیے یعنی ایلو پیتھی یا میڈیکل سائنس کے مطابق علاج ہو رہا ہے تو ریفلکسولوجی سے بطور ضمنی یا متبادل علاج استفادہ کیا جا سکتا ہے۔
ریفلکسولوجی کس طرح اثرانداز ہوتی ہے۔ ہمارا جسم ماورائی توانائی کا ایک ٹرانسمیٹر ہے جہاں توانائی کی لہریں اپنے متعین راستے یا چینلز پر سفر کرتی ہیں۔ ماہرین نے ان چینلز کے انتہائی یا اعتنامی مقامات پر یعنی ہاتھ کی ہتھیلیوں اور پاؤں کے تلوؤں پر بعض پوائنٹس کا جسم کے اعضاء سے ربط کا مشاہدہ کیا ۔ انہوں نے بتایا کہ اگر ایسے کسی متعلقہ ہو اسکٹ پر دباؤ ڈالا جائے یا مساج کیا جائے تو جسم کے مخصوص حصوں میں توانائی کا بہاؤ درست ہو جائے گا۔ اگر وہاں کوئی بیماری ضمور پارہی ہے تو وہ ختم ہو سکتی ہے۔ جدید میڈیکل سائنس نے ابتداء میں اکثر روایتی طریقہ علاج کی مخالفت کی تھی ۔ مختلف سائنسی تحقیقات سے حاصل ہونے والے نتائج کی بناء پر اب آلٹرنیٹو تھراپی یا متبادل طریقہ علاج کے طور پر تسلیم۔۔۔جاری ہے
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ دسمبر2024