خصوصی کلام
شاعر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محسن نقوی
میں آڑھے تِرچھے، خیال سوچُوں
کہ بے اِرادہ کتاب لکھوں
کوئی شناسا سی غزل تراشوں
کہ اجنبی سا اِنتساب لکھوں
گنوادوں ایک عُمر کے زمانے
کہ ایک ایک پل کا حساب لِکھوں
یہ میری طبعیت پر منحصر ہے
میں جس طرح کا نصاب لکھوں
عذاب سوچوں ، ثَواب لِکھوں
طویل تر ہے سفر، مگر تمہیں کیا
میں جی رہا ہوں، مگر تمہیں کیا
تمہیں کیا، کہ تم تو کب سے
میرے اِرادے، گنوا چکی ہو
جلا کر سارے حُروف اپنے
میری دُعائیں جَلا چُکی ہو
میں رات اوڑھوں، کہ صُبح پہنوں
تم اپنی رَسمیں، اُٹھا چُکی ہو
سُنا ہے سب کچھ، بُھلا چکی ہو
تو اَب اِس دِل پہ، جَبر کیسا
یہ دِل تو، حَد سے گذر چکا ہے
گذر چکا ہے، مگر تمہیں کیا
کہ اِس میں خزاں کا موسم ٹہر چکا ہے
مگر تمہیں کیا، کہ اِس خزاں میں
میں جس طرح کے بھی, خُواب لِکھوں