قرآنی انسائیکلو پیڈیا
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )قران پاک رشد و ہدایت کا ایسا سر چشمہ ہے جو ابد تک ہر دور اور ہر زمانے میں انسان کی رہنمائی کرتا رہے گا۔ یہ ایک معلم مکمل دستور حیات اور ضابطہ زندگی ہے۔ قرآنی تعلیمات انسان کی انفرادی زندگی کو بھٹی صراط مستقیم دکھاتی ہیں اور معاشرے کو اجتماعی زندگی کے لیے رہنما اصول سے بھی واقف کراتی ہیں۔
حرق عربی زبان میں حرق کے معنی جلنے کا عمل ہے۔ کسی شے کے آگ سے جلنے (Burn)، تپش سے بھوننے یا سکنے (Parch)، گرمی سے جھلنے (Scorch) اور بھاپ یا گرم پانی کی جلن (Scald) کو بھی حرق کہا جاتا ہے۔ حرق کے عمومی معنی آگ لگنے (Fire) اور آتش زدگی (Arson) کے ہیں، یہ لفظ جلنے کی نوعیت کی نشان دہی کرتا ہے ، عربی میں کہا جاتا ہے کہ حرقت النـار یـدہ آگ نے اس کا ہاتھ جلا دیا ” حرق البنزين المنزل پٹرول نے گھر کو جلا دیا‘ حرقت أشعة الشمس جلده “سورج کی تمازت نے اُس کی جلد کو جلا دیا “ وغیرہ۔ امام راغب اصفہانی، مفردات القرآن میں لکھتے ہیں کہ حَرْقُ الشَّيئ کے معنی کسی چیز میں بغیر اشتعال کے جلن پیدا کرنے کے ہیں۔ ماہر لغات ابن فارس کے
مطابق اس لفظ کے بنیادی معنی میں لوہے سے ریتی کو رگڑنا، چونکہ اس سے حرارت و گر می پیدا ہوتی ہے۔ آخرَقَ كَذَا کہتے ہیں کسی چیز کو جلانا اور اخترق کے معنی میں جلنا، یعنی وہ نقصان جو گرمی، سردی، ہوا یا دیگر عوامل سے انسان، پودوں یا چیزوں کو پہنچے، آگ سے زخمی ہونا (Injure)، بھسم یا ختم ہونا ( consume) عربی میں احترق کہلاتا ہے۔ گرم (Hot) یا تیز دھار دار ( Sharp ) شے اور چٹ پٹا مسالہ دار کھانے (Pungent) سے پیدا ہوئی جلن بھی حرق کہلاتی ہے۔ ان چیزوں کو جو آگ بھڑ کانے میں مدد دیں حراق کہتے ہیں جیسے جلد آگ پکڑنے والی لکڑی (Touchwood) اور آتشگیر نگیر مادہ (Tinder) وغیرہ۔ محرق کے معنی ہیں جلانے کی جگہ یعنی لکڑی جلانے کی بھٹی (Furnace) یا مردے جلانے کی جگہ شمشان ( Cremation) وغیرہ استعار تأیہ لفظ شدت، سختی (Vehemence) گرم جوشی (Ardour) محل (Conflagrative) اور اشتعال انگیزی (Incendiary) کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ فعل اس وقت بھی استعمال ہوتا ہے جب جلنے کا عمل خود بخود، بغیر کسی خارجی مدد کے یا اپنے ذاتی اثر سے ہو رہا ہو ۔ اس میں فاعل خود جلاتا ہے اور جلنے کا بر اور است سبب ہوتا ہے، چنانچہ شعلہ کو بھی حریق کہا جاتا ہے، کیونکہ وہ خود کو بھی جلاتا ہے ۔ آگ کے علاوہ جلن پیدا کرنے والے ہر عمل کو حریق کہا جاتا ہے ۔ مَاء حُراق ایسے بہت کھاری پانی کو کہتے ہیں جو اپنے کھاری پن سے جلا ڈالے۔ بہت زیادہ ملامت کر کے اذیت پہنچائے اسی سے استعارہ کہا جاتا ہے ۔ اَحْرَقَنِی بَلَو مِه یعنی اس نے مجھے ملامت سے جلا ڈالا۔ قرآن مجید میں یہ لفظ الْحَرِيقِ، حَرِّقُوهُ، احْتَرَقَتْ اور نُحَرِقَنَّهُ کی شکل میں 9 مرتبہ آیا ہے۔ قرآن مجید زیادہ تر یہ لفظ جہنم کی تپش اور جلانے کے عذاب (عَذَابَ الْحَرِيْقِ) کے ضمن میں آیا ہے۔ ترجمہ : ” ہم نے ان کی یہ بات بھی (ان کے اعمال نامے میں) لکھ کی ہے ، اور انہوں نے انبیاء کو روحانی ڈائجسٹ جنوری 2025ء 149
جو ناحق قتل کیا ہے، اس کو بھی، اور (جب فیصلہ کا دن آئے گا اس وقت) ہم ان سے کہیں گے کہ : دہکتی آگ کے عذاب (عَذَابِ الْحَرِيقِ ) کا مزہ چکھو۔ (سورۃ آل عمران (3): آیت 181] ترجمہ : ” تکبر سے اینٹھتے ہوئے بجتیں کرتے ہیں کہ لوگوں کو اللہ کی راہ سے برگشتہ کر یں۔ ان کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور ہم قیامت کے دن ان کو آگ کا عذاب (عَذَابَ الْحَرِيْقِ ) چکھائیں گے ۔“ [سورہ حج (22): آیت 9]
ترجمہ: ” جب جب وہ اس کے کسی عذاب سے نکلنے کی کوشش کریں گے اسی میں دھکیل دیئے جائیں گے کہ چکھو اب جلنے کا عذاب (عَذَابَ الْحَرِيقِ ) ۔ “ [سورہ حج (22): آیت 19 تا22] ترجمہ : ” بے شک جن لوگوں نے مومن مردوں اور عورتوں پر ظلم کیا، پھر اس سے تائب نہ ہوئے، ان کے لیے جہنم کا عذاب اور جلنے کا عذاب (عَذَابَ الْحَرِيقِ ) ہے۔ [سورہ نساء (4): آیت 46] ترجمہ: اور اگر تم دیکھ پاتے جب فرشتے ان کفر کرنے والوں کی رو میں قبض کرتے ہیں، مارتے ہوئے ان کے چہروں اور پیٹھوں پر اور (یہ کہتے ہوئے کہ) اب چکھو مز اجلنے کے عذاب (عَذَابَ الْحَرِيقِ) کا ۔ “ [سورۃ انفال(8): آیت 49 تا50]
قرآن مجید میں یہ لفظ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قصہ میں بھی آیا ہے۔ ترجمہ : جب ابراہیم نے ) کہا کہ کیا خدا کے ماسوا تم ایسی چیزوں کی پرستش کرتے ہو، جو تم کو نہ تو کوئی نفع پہنچا سکیں نہ کوئی نہر ر۔ تف ہے تم پر بھی اور ان چیزوں پر بھی ، جن کو اللہ کے سوا تم پوجتے ہو! کیا تم لوگ سمجھتے نہیں ؟ ۔ ان لوگوں نے کہا کہ اس کو آگ میں جلادو (حَرِّقُوه) اور اپنے معبودوں کی حمایت میں اٹھو ، اگر کچھ کرنے کا ارادہ ہے !۔ ہم نے حکم دیا، اے آگ ! تو
ابراہیم کے لیے ٹھنڈک اور سلامتی بن جا۔ “ (سورۃ انبیاء (21): آیت 66تا69] ترجمہ : اور ان ( ابراہیم) کی قوم کا جواب اس کے سوا اور کوئی نہیں تھا کہ انہیں قتل کر دو یا آگ میں جلا دو ( حَزِقُوهُ ) تو اللہ نے انہیں آگ سے بچا لیا ۔ “ (سورۂ عنکبوت (29): آیت 24]
قرآن مجید میں یہ لفظ حضرت موسی اور سامری جادو گر کے قصے میں بھی آیا ہے۔ (موسیٰ نے فرمایا کہ پس تو جا، تیرے لیے اس (دنیوی) زندگی میں یہ (سزا) ہے کہ تو کہتا رہے کہ مجھے ہاتھ نہ لگاؤ بلا شبہ تیرے لیے عذاب کا ایک اور وعدہ (بھی) ہے جو تجھ سے ملنے والا نہیں، اور تو اپنے اس معبود کی طرف دیکھ جس (کی پوجا) پر تو جما بیٹھا تھا، اس کو ہم ضرور جلادیں گے لنُحَرِقُنَّهُ) پھر اس ( کی راکھ) کو بکھیر کر دریا میں بہادیں گے۔ “ [سورۃ طہ (20): آیت 97] ترجمہ : کیا تم میں سے کوئی بھی یہ پسند کرے گا کہ اس کے پاس کھجوروں اور انگوروں کا ایک باغ ہو ، نیچے اس کے نہر میں بہہ رہی ہوں، اس میں اس کے واسطے ہر قسم کے پھل ہوں، وہ بوڑھا ہو جائے اور اس کے بچے ابھی کم زور ( نا تواں) ہوں اور باغ پر آگ کا بگولا پھر جائے اور وہ جل کر خاک (فَاحْتَرَقَتْ) ہو جائے ؟“ [سوره بقره (2): آیت 266]
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ جنوری 2025