سیز فائر
تحریر۔۔۔حمیراعلیم
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔ سیز فائر۔۔۔ تحریر۔۔۔حمیراعلیم)کبھی گولہ باری، کبھی لائن آف کنٹرول پر بلااشتعال فائرنگ، اور اب ڈرونز کی بےجا پروازیں۔ بھارت کی طرف سے سیزفائر معاہدے کی خلاف ورزیاں ختم ہونے کا نام نہیں لے رہیں۔ حالیہ دنوں میں بھارتی ڈرونز کی پاکستانی حدود میں غیرقانونی داخلے نے نہ صرف ہماری فضائی خودمختاری کو چیلنج کیا بلکہ یہ واضح پیغام دیا کہ بھارت امن کا خواہاں نہیں، بلکہ بداعتمادی، دھوکہ اور چالاکی کی راہوں پر گامزن ہے۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ کہا گیا کہ ڈرونز کو واپس نہیں بلایا جا سکتا، کیونکہ ان کی بیٹری ابھی ڈی فیوز نہیں ہوئی۔
یہ وضاحت نہ صرف ناقابلِ فہم ہے بلکہ دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش ہے۔
یہ اسرائیلی ڈرونز ہیں۔
ڈرون یا میزائل اگر ایک بار لانچ کر دیے جائیں تو انہیں واپس منگوانا (recall کرنا) عام طور پر ممکن نہیں ہوتا، خاص طور پر اگر وہ ہتھیار کے طور پر استعمال کیے گئے ہوں۔
کچھ جدید ڈرون، خاص طور پر نگرانی (surveillance) یا غیر مسلح (unarmed) ڈرون، واپس بلوائے جا سکتے ہیں، کیونکہ وہ خودکار یا ریموٹ کنٹرول سسٹمز کے تحت کام کرتے ہیں۔ اگر کوئی ہدف نہ ملے یا مشن منسوخ ہو جائے تو انہیں واپس لایا جا سکتا ہے۔
میزائل ایک بار لانچ ہو جائے تو اسے واپس منگوانا ممکن نہیں ہوتا، کیونکہ وہ خودکش ہتھیار ہوتے ہیں، جنہیں خود کو ہدف پر گرا دینا ہوتا ہے۔ کچھ جدید “cruise missiles” میں ہدف کو بدلنے یا خود کو ناکارہ کرنے کی صلاحیت ہو سکتی ہے، مگر واپس آنا ممکن نہیں ہوتا۔
ڈرونز میں بیٹری یا فیول پاور ہوتی ہے، اور اگر ان کی بیٹری ختم ہو جائے تو وہ یا تو خودکار لینڈنگ کریں گے یا کریش ہو جائیں گے۔
“ڈی فیوز ہونا” کا مطلب یہ لیا جا سکتا ہے کہ ڈرون کے اندر جو بھی پاور یا ممکنہ طور پر اسلحہ نصب ہے، وہ غیر فعال ہو جائے، تاکہ وہ کسی کو نقصان نہ پہنچا سکیں۔
بھارت کیا سمجھتا ہے؟ کیا ہم اس بات پر یقین کر لیں کہ اربوں روپے کی ٹیکنالوجی رکھنے والا ملک ایسے ڈرون بھیجتا ہے جنہیں کنٹرول کرنا ممکن نہیں؟ کیا وہ یہ کہنے کی کوشش کر رہا ہے کہ ڈرونز خود سرحد پار نکل گئے، اور اب ہم ان کے بیٹری ختم ہونے کا انتظار کریں؟
یہ صرف ایک بہانہ ہے اصل مقصد پاکستان کی حساس سرحدی پٹی میں مداخلت کرنا، معلومات اکٹھی کرنا، اور ردعمل کی شدت کو پرکھنا۔
سیزفائر معاہدے صرف کاغذی دعوے بن کر رہ جاتے ہیں اگر ان کی بار بار پامالی ہوتی رہے۔ اور جب دنیا خاموش تماشائی بنی رہے تو جارح ملک کے حوصلے مزید بلند ہو جاتے ہیں۔
پاکستان نے ہمیشہ امن چاہا ہے۔مگر ہاتھ تھامنے کے بجائے ہمیں بارود تھمایا جاتا ہے۔ ہمارے امن کو کمزوری نہ سمجھا جائے۔ پاکستانی افواج، ایئر ڈیفنس، اور عوام سب جاگ رہے ہیں اور وہ ہر اس پرندے کو نشانہ بنانا جانتے ہیں جو ہماری فضاؤں کو ناپاک کرے۔
ہماری حکومت کو چاہیے کہ وہ نہ صرف عالمی فورمز پر بھارت کے اس ڈرون ڈرامے کو بے نقاب کرے بلکہ اقوامِ متحدہ اور دیگر عالمی اداروں میں ثبوتوں کے ساتھ آواز بلند کرے۔
یہ وقت خاموشی کا نہیں یہ وقت حقیقت کو بے نقاب کرنے کا ہے۔بھارتی میڈیا عادی مجرم ہے اور ہر معمولی بات کا الزام پاکستان پر بڑھا چڑھا کر لگانا ان کا معمول ہے۔
اسرائیل جب فلسطین کے ہاسپٹلز، رفیوجی کیمپس، اسکولز پر حملے کرتا ہے تو فورا کہہ دیتا ہے پہل حماس نے کی تھی۔یا غلطی سےحملہ ہو گیا۔اب انڈیا بھی ویسے ہی بیانات دے رہا ہے۔کیونکہ انڈیا اسرائیل کی ڈگڈگی پر ناچنے والا بندر ہے۔
شکر الحمدللہ کہ ہماری فوج نہ صرف چاک و چوبند ہے حالات کو سنبھال رہی ہے۔بلکہ دشمن کے ڈرونز ہی نہیں اس کے خواب بھی چکنا چور کر رہی ہے۔اللہ تعالٰی ہر فوجی اور ہر شہری کی حفاظت فرمائے۔ہر فوجی کی ماں کی آنکھیں ٹھنڈی رکھے انہیں غازیوں کی مائیں بنائے۔
عوام پرسکون رہے۔جو رات قبر میں لکھی ہے وہ حالت جنگ ہو یا امن ٹالی نہیں جا سکتی۔بحیثیت مسلمان ہمارا ایمان ہے کہ کسی بھی حادثے میں مرنے والا شہید ہے اور ایک مسلمان کے لئے شہادت کی موت سے بہتر کوئی موت نہیں۔یہ میرا اپنا تجربہ بھی ہے۔کیونکہ پچھلے سولہ سال سے میں کوئٹہ میں ایک ایسے مقام پر رہ رہی ہوں جہاں خودکش، یا بم دھماکے فائرنگ اور کبھی کبھار میزائل چلنا معمول کی بات ہے۔ لوگ پھر بھی یہاں رہتے ہیں اور روزمرہ کے سارے کام کرتے ہیں۔ کوئی موت کے ڈر سے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر گھر نہیں بیٹھ جاتا۔
جیسے ہمارے فوجی مشن پر جانے سے پہلے وصیت ناموں پر دستخط کرتے ہیں۔ویسے ہی آپ بھی کر لیجئے۔کیونکہ نہ جنگ کا وقت مقرر ہے نہ ہی موت کا۔
’’اَللّٰهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِيْ نُحُوْرِهِمْ وَ نَعُوْذُ بِكَ مِنْ شُرُوْرِهِمْ‘‘.
’’اَللّٰهُمَّ اكْفِنِيْهِمْ بِمَا شِئْتَ
یہ وقت ہے کہ ہم بھارت کو بتا دیں:
اگر وہ پاکستان کی سالمیت سے کھیلنے کی کوشش کریں گےبیٹری ڈی فیوز ہو یا نیت، دونوں کا انجام خاک ہونا لکھا جا چکا ہے۔