Daily Roshni News

(جونؔ ایلیا کی قادر الکلامی اور اُن کی ایک شہکار غزل از یاور عظیم)

(جونؔ ایلیا کی قادر الکلامی اور اُن کی ایک شہکار غزل از یاور عظیم)

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )جون ایلیا کی شاعری پہ بہت سی تعریفی اور تنقیدی باتیں کی گئی ہیں اور کی جاتی رہیں گی، میرے نزدیک ان کی جادو آفریں اور ڈرامائی شخصیت، اُن کی شاعری کے موضوعات، اصناف اور لب و لہجے سے بہت پہلے جو چیز اہمیت رکھتی ہے وہ بطور سخن ساز ان کی زبان آوری اور قادر الکلامی ہے_ ظاہر ہے کہ زبان کے بغیر شاعر ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا_ دورانِ شعر گوئی “کیا کہنا ہے” یہ ہر شاعر کا اپنا فیصلہ ہے اور اُس کے اپنے مزاج پہ منحصر ہے، عین ممکن ہے کسی شاعر نے کچھ کہا ہو اور وہ بات آپ کو پسند نہ آئے یا آپ کے مطلب کی نہ ہو، لیکن “کیسے کہا ہے” اس پہ کوئی سخن شناس خاموش نہیں رہ سکتا_ یہی طرزِ ادا کی دل کشی اور دل رُبائی ہر بڑے اور اچھے شاعر کی طرح جون ایلیا کا اختصاص تھی_ وہ لفظوں کے بہت عمدہ چناؤ اور ان کے در و بست میں مہارت رکھتے تھے_ کلاسیکی زبان خاص کر میرؔ و غالبؔ کی زبان یوں لگتا تھا انھوں نے گھول کے پی رکھی ہے_ اپنی غیر معمولی استعداد کے سبب گوناگوں زمینوں میں تخلیقِ شعر ان کے لیے بائیں ہاتھ کا کرتب معلوم ہوتی تھی_ کسی نے پوچھا کہ جون قادر الکلام تھے تو کیسے تھے اس کی کوئی مثال؟ میں نے عرض کی یوں تو ان کے کلام کا بیش از بیش حصہ ان کی قدرتِ کلام پہ دلالت کرتا ہے، ان کی چھوٹی بحروں میں کہی ہوئی غزلیں تو اکثر لوگوں نے مشاعروں وغیرہ میں سُن رکھی ہیں، لیکن نمونے کے طور پہ آپ ان کی وہ غزل پڑھ لیجیے جس کی ردیف ہے “تم کہاں جاؤ گے، ہم کہاں جائیں گے؟” اب ایسی طویل اور استفہامیہ ردیف کو جس عمدگی سے جون صاحب نے نبھایا ہے اور جن قافیوں کے استعمال کے ساتھ ایسے خوبصورت اور پُر معنی شعر کہے ہیں وہ جون ایلیا کی قادر الکلامی اور معیاری شاعری کی بیّن دلیل ہے_ یہی وجہ ہے کہ میں جون ایلیا کا اندھا عقیدت مند نہ سہی لیکن جون ایلیا کا مدّاح اور پرستار ضرور ہوں_ خیر جونؔ کی محوّلہ بالا غزل ملاحظہ ہو:

ہے بکھرنے کو یہ محفلِ رنگ و بو، تم کہاں جاؤ گے، ہم کہاں جائیں گے؟

ہر طرف ہو رہی ہے یہی گفتگو، تم کہاں جاؤ گے، ہم کہاں جائیں گے؟

ہر متاعِ نَفَس نذرِ آہنگ کی، ہم کو یاراں ہوس تھی بہت رنگ کی

گل زمیں سے اُبلنے کو ہے اب لہو، تم کہاں جاؤ گے، ہم کہاں جائیں گے؟

اولِ شب کا مہتاب بھی جا چکا، صحنِ مے خانہ سے اب اُفُق میں کہیں

آخرِ شب ہے خالی ہیں جام و سبو، تم کہاں جاؤ گے، ہم کہاں جائیں گے؟

کوئی حاصل نہ تھا آرزو کا مگر سانحہ یہ ہے اب آرزو بھی نہیں

وقت کی اس مسافت میں بے آرزو تم کہاں جاؤ گے، ہم کہاں جائیں گے؟

کس قدر دُور سے لوٹ کر آئے ہیں، یوں کہو عمر برباد کر آئے ہیں

تھا سراب اپنا سرمایۂ جستجو، تم کہاں جاؤ گے، ہم کہاں جائیں گے؟

اک جنوں تھا کہ آباد ہو شہرِ جاں اور آباد جب شہرِ جاں ہو گیا

ہیں یہ سرگوشیاں در بہ در کو بہ کو، تم کہاں جاؤ گے، ہم کہاں جائیں گے؟

دشت میں رقصِ شوقِ بہار اب کہاں، باد پیمائی دیوانہ وار اب کہاں؟

بس گزرنے کو ہے موسمِ ہاؤ ہو، تم کہاں جاؤ گے، ہم کہاں جائیں گے؟

ہم ہیں رسوا کُنِ دلّی و لکھنؤ، اپنی کیا زندگی، اپنی کیا آبرو؟

میرؔ دلّی سے نکلے گئے لکھنؤ، تم کہاں جاؤ گے، ہم کہاں جائیں گے؟

Loading