خوشیاں تقسیم کرنے کی کوشش کریں
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )مجھے یاد نہیں پڑتا کہ ہمارے بچپن میں ہماری اماں نے نانی کے گھر جانے یا کسی بھی قریبی عزیز کے گھر جانے سے صرف اس لئے گریز کیا ہو کہ بھئی وہ نہیں آتے تو ہمیں بھی کیا ضرورت ہے یا یہ کہ ہم جائیں گے تو وہ بھی آئیں گے۔۔۔یا ان کی پرائیویسی متاثر ہوگی۔۔۔اس پرائیویسی کے نام پر ہم اپنے قریبی رشتوں سے اپنوں سے بہت دور ہوگئے ہیں۔۔
ہماری ممانی،پھوپھو، خالہ، چچی نے کبھی ہمارے جانے پر منہ بنایا ہو یا خاطر داری میں کوئی کسر چھوڑی ہو۔۔۔
سادہ سا مینو بھی اتنا مزے کا ہوتا تھا کہ ہم بھوک سے بھی زیادہ کھا لیتے تھے۔۔پتہ ہے کیوں؟؟؟
کیونکہ سب اکٹھے ہوتے تھے۔۔ایک دوسرے کے بچوں کو کھلاتے پیار سے۔۔دسترخوان پر رونق ہی رونق۔۔اور ہنسی مذاق میں بھوک بھی زیادہ محسوس ہوتی تھی۔۔۔امیاں کہیں بھی جا کر مہمان نہیں بن جاتی تھیں کہ میزبان تھکاوٹ کا شکار ہو ۔۔۔۔سب ہی کچن میں گھس کر تھوڑے وقت میں کھانا تیار کر لیتی تھیں۔۔اور مہمانوں کی خاطر داری کے لئے کوئی 5 سٹار ہوٹل کا مینو یا طرح طرح کی ڈشیں بنا کر اپنی دھاک بٹھانے کی ضرورت کبھی کسی نے محسوس نہیں کی تھی۔۔
جو بنا ہوتا تھا سب ہی کھا لیتے تھے۔۔۔مٹر والے چاول۔۔مرغی کا شوربہ۔۔دودھ والی سویاں۔۔گڑ والے چاول۔۔۔گڑ والا دلیہ۔۔میوے والا گڑ۔۔۔کھوئے والا گجریلا۔۔ساگ۔۔۔چاول کے آٹےکی روٹی۔۔دال والی روٹی کے ساتھ اچار۔۔ناشتے میں آلو یا مولی کے پراٹھے اور چائے جو پیالوں میں پیش کی جاتی تھی۔۔۔اس کا مزہ آج تک زبان کو یاد ہے۔۔۔۔
جو پارٹی کھانے میں مدد نہیں کرا سکتی تھی یعنی ہم کزنز۔۔ان کی ڈیوٹی بعد میں دسترخوان سمیٹنا اور برتن دھونا ہوتی تھی۔۔۔لڑکے صحن میں پانی کا چھڑکاؤ کر کے ترتیب سے چارپائیوں پر بستر کرتے جاتے اور سونے کا انتظام ہو جاتا۔۔
امی خالائیں ممانی اور نانی جنہیں ہم بی بی جان کہتے تھے مل کر باتیں کرتیں اور سبزیاں بناتی جاتیں اور یہی ترتیب ہر گھر میں ہر چھٹیوں میں بدلتی جاتی۔۔۔۔عید تہواروں پر سب سے زیادہ خوشی نانی کے گھر ماموں کے گھر جانے کی ہوتی۔۔۔
کپڑے سب کے ایک ڈیزائن کے ہوتے وہ جن کی زیادہ کی توفیق ہوتی ان کے بھی اور جن کی کم ہوتی ان کے بھی۔۔۔کوئی مقابلے بازی تھوڑی تھی کہ اپنوں میں برابری ہوتی ہے ۔۔مقابلہ بازی نہیں۔۔۔۔
عزت کا معیار صرف عمر تھی یعنی کہ جو بھی بڑا ہے اس کی عزت اور اس کی بات ماننا ہر چھوٹے پر فرض تھی اور غلطی پر ڈانٹنا ہر بڑے کا فرض۔۔۔
سادہ لوگ تھے۔۔سادہ کلیہ تھا ۔۔کوئی دکھاوا نہیں۔۔کوئی شو شاہ نہیں۔۔۔۔
یہ جو آج کل رشتوں کے نام پر مزاح اور طنزیہ انداز میں جملے لکھے جاتے ہیں مجھے بہت دکھ دیتے ہیں۔۔ہم میں سے ہر کوئی زندگی کے کسی نہ کسی مرحلے پر پھوپھو۔ چاچی۔ ممانی۔ساس۔۔بہو بنتا ہے رشتہ برا نہیں ہوتا اس میں موجود انسان اس کو خراب بناتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خدارا ایک دوسرے کے گھروں میں آتے جاتے رہیں۔۔ملتے جلتے رہیں ایسانہ ہوکہ آپکے یا انکے جانے کا وقت آ جائے۔۔۔اور یہ بھی کتنے دکھ کی بات ہوتی ہے کہ انسان زندگی میں مل نہ سکے اور فوتگی کے وقت چہرہ دیکھنے کے لئے بھاگا جائے۔۔۔زندہ رشتوں کی قدر کریں۔۔اپنے پیاروں کی قدر کریں۔۔۔
اپنی ضد اور انا میں ہم۔نے اپنے بچوں کو ان کے رشتوں سے دور کر دیا ہے۔۔ان کو تو اپنے ہم عمر کزنز سے ملنے کی بڑی آرزو ہوتی ہے نا۔۔۔۔۔
ہم بڑوں نے خود ہی ایسا ماحول بنادیا ہے کہ ہم رشتے بھول گئے ہیں۔۔۔۔۔۔
چیزوں کے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں حالانکہ چیزیں ساتھ نہیں دیتیں۔ ہم جانتے ہیں کہ رشتے طاقتور ہوتے ہیں اور ہم رشتوں کے حوالے سے ہی پہچانے جاتے ہیں۔
پوری کوشش کریں کہ رشتوں کو جوڑے رکھیں ایسی دوریاں نہ آنے دیں کہ ملاقاتیں صرف کسی کے فوت ہوجانے پر ہی ممکن ہو کیا ہم اس بات کا انتظار کرینگے کہ کوئی مرے پھر ہم بحالت مجبوری وہاں جائیں۔
جب ہم کہیں جائیں تو یہ خوشی دل میں ہو کہ میں اپنے پیاروں سے ملنے جارہا ہوں مجھے اس سے کوئی دنیاوی فائدہ نہیں ہے۔ ان کے پاس اس لیے جارہا ہوں کہ وہ مجھے بہت پیارے ہیں ۔ چاہے ہم اس کام کے لیئے کم وقت دیں لیکن دیں ضرور۔۔
جو چلا جاتا ہے وہ کبھی واپس نہیں آتا۔۔۔چاہے جتنا مرضی رو لیں۔۔۔
خوشیاں تقسیم کرنے کی کوشش کریں ۔