Daily Roshni News

دکن کے جن۔۔۔۔ قسط نمبر2

دکن کے جن

قسط نمبر2

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ دکن کے جن۔۔۔۔ قسط نمبر2)عمل الٹے ان کے گلے پڑ گیا۔ آخر وہ سمجھ گئے کہ یہ نوجوان جن زبردست ہے۔ آپ نے فرمایا کہ مجھے ایک چلہ کی اجازت دے۔ اس نے جواب دیا کہ ایک چلہ کم ہے میں تین چلوں کی اجازت دیتا ہوں۔ مہلت ختم ہونے پر انہوں نے محسوس کیا کہ ان کا اس نوجوان جن پر بس نہیں چلے گا۔ آپ وہاں سے نکل کر برہان پور (مدھیہ پردیش، بھارت) کے قریب ایک بستی میں پہنچے ، وہاں ایک گمنام فقیر درویش کسمپرسی کی حالت میں جنگل میں نظر آیا۔ حضرت صاحب نے محسوس کیا کہ نوجوان جن بس دم بھر میں آیا ہی چاہتا ہے اور مجھے اپنے عمل سے مار ڈالے گا، چلو اس درویش سے ہی مددلوں۔ شاید انتفات نظر سے کچھ مل جائے۔

آپ نے سلام کیا، نام بتایا اور دوزانو بیٹھ گئے۔ جواب ملا ہاں میں تجھے جانتا ہوں، یہاں کیوں مارا ماراپھر رہا ہے ؟

اگر تو اپنی حرکتوں سے باز آنے کا وعدہ کرے تو اللہ مالک ہے “۔ یہ کہہ کر درویش نے ہاتھ کا اشارہ کیا تو نو جوان جن کی ماں سامنے کھڑی تھی۔

در ویش بولا “اے بی بی تیری بات پوری ہو گئی اب اپنے بیٹے کو روک دے ، وہ اس کو نہ مارے “۔ جنی نے بیٹے کو بلالیا اور حکم دیا کہ دشمنی ختم کر دے۔ حضرت صاحب خوش خوش حیدرآباد آگئے، اس کے بعد انہوں نے تمام موکل جن آزاد کر دیئے اور یاد اللہ میں مصروف ہو گئے۔

ایک مرتبہ سعید الدین سے ملاقات ہوئی تو باتوں باتوں میں پھر حیدر آباد دکن کا ذکر نکل آیا۔ چار مینار حیدرآباد کی نادر الوجود عمارتوں سے ایک ہے۔ سعید الدین صاحب گویا ہوئے

ان کے اندر کے راز میں آپ کو بتاتا ہوں۔ پہلی منزل پر مدرسہ تعلیم القرآن اور طلبہ کا دار الاقامہ ہے، دوسری منزل پر مسجد ہے۔ میں دو چھوٹے چھوٹے کمرے محمد حیات گھڑی ساز کی تحویل میں تھے۔ ایک

مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد بر صغیر میں مسلمانوں کی جو خود مختار ریاستیں قائم ہوئیں، ان میں سب سے طاقت ور ریاست حیدر آباد دکن تھی، جس کی بنیاد مملکت آصفیہ نے رکھی، 1591ء میں سلطان محمد قلی قطب شاہ نے حیدر آباد شہر کی تعمیر کر کے اپنے پایہ تخت کو گولکنڈہ سے یہاں منتقل کیا۔ انہوں نے اصفہان شہر سے متاثر ہو کر حیدر آباد کی تعمیر کے لیے فارس سے معمار منگوائے اور سلطان قطب کے نگراں تعمیرات ملک الماس نے شہر کے درمیان چار مینار ، کئی قلعے اور مساجد تعمیر کروائیں۔ چار مینار تاریخی اور عالمی سطح پر حیدر آباد دکن کی علامت کے طور پر جانا جاتا ہے۔ چار مینار موسی ندی کے مشرقی کنارے پر واقع ہے۔ یہ ڈھانچہ چہار جانب سے چار مینار پر کھڑا کیا گیا ہے، اسی لیے اسے چار مینار کا نام دیا گیا تھا، جہاں سے پورے شہر کی نگرانی کی جاسکتی تھی۔ چار مینار ایک کلاک ٹاور ہے ، اس کے چاروں جانب 3 گھڑی نصب ہے اور کسی دور میں اس کے ارد گرد گھڑی سازوں کے دکانیں تھیں ، جو نت نئی ٹیکنالوجی کی آمد کے بعد رفتہ رفتہ کم ہو گئیں، اب یہ علاقہ حیدر آباد میں اکثر سیاحوں کی توجہ کا مرکز بن ہے ، اس کے مغرب میں لاڈ بازار (چوڑی بازار ) ہے اور جنوب مغرب میں گرینائٹ سے بنی مکہ مسجد اور چو محلہ محل واقع ہے۔

ادیب ، مورخ، سفرنامہ اور آپ بیتی نگار

ڈاکٹر سید زاہد علی واسطی

ڈاکٹر زاہد علی واسطی ہندوستان کے ایک رئیس اور ادبی ذوق رکھنے والے گھرانے میں پیدا ہوئے۔ تقسیم ہند کے بعد آپ پاکستان آگئے۔

زاہد علی واسطی نے ڈاکٹری کا پیشہ اپنایا اور بہاول پور، ساہیوال، لاڑکانہ، ملتان کے مختلف ہسپتال، ڈسپنسریز اور میڈیکل اداروں میں خدمات انجام دیں۔

آپ نے کئی ممالک ایران، عراق، شام، ترکی اور مراکش کی سیاحت بھی کی۔ زاہد علی واسطی نے مختلف موضوعات پر قلم اٹھایا، ان کی تصانیف میں روشنی کا سفر ، سید المرسلین، اعزازت رسول، قرآنی دعائیں، اسوۂ حسین، تنبیہ الزوجین، سیدھے رستے کی تلاش،

طب نبوی، امہات المومنین، میں نے خدا کو کیسے دیکھا، نوائے سروش، انسان کے ذہنی میں بادین و جسمانی مصائب، دنیا ومافیہا، زندگی تابندگی، سو بڑے مسلمان، بہاول پور کی سرزمین، تاریخ سرزمین ملتان، صبح استنبول، شام دمشق، دیکھ لیاملتان، جا تیرا امریکا دیکھ لیا، خیابان مشہود اور آپ بیتی کا مجموعہ ” بیتی یادیں“ شامل ہیں۔

ڈاکٹر زاہد علی واسطی نے بیتی یادیں“ میں اپنی زندگی کی کہانی کو بہت عمدگی سے پیش کیا ہے ان واقعات کو بیان کرنے کا ان کا انداز قاری کو اپنے سحر میں جکڑ لیتا ہے۔ کتاب بیتی یادیں میں ہمیں بعض ماورائے عقل واقعات، نا قابل فہم اور حیرت انگیز قصائص کبھی پڑھنے کو ملتے ہیں۔

میں اس کی رہائش تھی دوسرے میں ملازم رہتا تھا، محمد حیات ظاہرا گھٹڑیال کی نگہداشت کرتا اور مرمت و غیر دو پر مامور تھا۔

یہ بات مشہور تھی کہ چار مینار والے محمد حیات کے تابع جنات ہیں۔ اس کے سب کام وہی جنات کرتے ہیں، حتی کہ ان کی ڈیوٹی میں گھڑیالوں کی صفائی ستھرائی، وقت کے مطابق مشینوں کو چالو رکھنا۔ مزید بر آن ان کے کمرے کی صفائی کے علاوہ کھانا پینا سب کچھ انہی کے سپرد تھا۔ رات کے اوقات میں روزانہ تلاوت قرآن کی آواز میں دونوں حجروں سے سالہا سال سے آتی ہیں“۔

سعید الدین صاحب نے بتایا کہ ایک مرتبہ وہ اپنے والد صاحب کے ساتھ پہلی مرتبہ محمد حیات کے پاس گئے۔ والد صاحب نے جب محمد حیات کو اپنے مسائل بتائے تو انہوں نے آنکھیں بند کیے رکھیں اور صرف ہو نہ کہا پھر بولے کہ انہیں سب معلوم ہو گیا

ہے۔ پھر کسی کا نام لیا کہ یہ آدمی ہے جس کی وجہ سے آپ پریشان ہیں۔ مطمئن رہیں دودن بعد یہ آدمی یہاں سے چلا جائے گا۔ اس دوران ایک پستہ قد ملازم ایک پلیٹ میں انگور لے کر آ گیا اور رکھ کر چلا گیا۔

سیڑھیوں سے اترتے ہوئے ہم نے دریافت کیا کہ ابا جی سردیوں میں انگور ہم نے پہلے بھی نہیں کھائے یہ ملازم کہاں سے لایا…؟ اس کے بعد انہوں نے ایک اور واقعہ سنایا جو انکے والد کے ساتھ پیش آیا تھا۔ایک شخص اندر کوٹ کے محلے میں رہتا تھا۔ ایک دن وہ ان کے والد کے پاس آگیا اور کوئی بات کرنے کے بعد بہت دیر تک روتا رہا۔ والد صاحب اس شخص کو محمد حیات کے پاس لے گئے۔شام کو جب والد صاحب گھر واپس آئے تو والدہ کے ساتھ میں بھی بیٹھا ہوا تھا۔ انہوں نے والدہ مرحومہ کو تفصیل سناتے ہوئے بتایا کہپڑوسی نے سال سوا سال پہلے یہ مکان کرائے پر لیا تھا۔ یہ مکان مدتوں سے خالی پڑا ہوا تھا۔ مالک مکان نے کرایہ دار کو پہلے ہی بتادیا تھا کہ مکان میں جن رہتے ہیں مگر مکان کا بہت معمولی کرایہ تھا اور خود جسمانی طور پر صحت مند ہونے کی وجہ سے وہ مکان اس شخصنے لے لیا۔دونوں میاں بیوی اس مکان میں رہنے لگے۔ یہ شخص کسی بنے کی دکان پر ملازم تھا جہاں سے وہ راتکو کافی دیر سے فارغ ہوتا اور گھر لو نا تھا۔پہلی رات سوتے وقت انہیں محسوس ہوا کہ مکان کے صحن میں چہل پہل ہو رہی ہے۔ سخت سردی کا موسم تھا، صحن میں کسی کے موجود ہونے کی توقع نہ تھی پھر انہوں نے کو ٹھری کا دروازہ کھول کر باہر دیکھا تو صحن سے بچوں کے شور مچانے کی آوازیں آرہی ہیں۔ مگر انہیں دکھائی کچھ نہیں دیا۔اس وقت تو وہ دونوں دروازہ بند کر کے سو گئے۔ صبح اٹھتے ہی انہوں نے مالک کو سب بیان کر دیا۔ اسنے کوئی حوصلہ افنر ا جواب نہ دیا۔ایک دن اس شخص کی بیوی نے بتایا کہ تمہارے چلے جانے کے بعد کمروں اور غسل خانے کے دروازے خود بخود کھلنے اور بند ہونے لگے اور دھڑادھڑ کی آوازیں آنے لگیں، جیسے شدید آندھی چل رہی ہو۔ اس کے بعد اس قسم کے واقعات روز ہی ہونے لگے۔ کبھی ڈلیا میں سے روٹیاں غائب ہو جاتیں، کبھیہانڈی کے اندر سے بوٹیاں۔ایک دن وہ صحن میں جھاڑو دے رہی تھی تو اسے ایسا لگا کہ جیسے کوئی باورچی خانے کے بر تن پھینک رہا ہو۔ جب وہ ڈرتے ڈرتے باورچی خانے میں گئی تو سب بر تن زمین پر گرے پڑے تھے۔ وہ ڈر کے مارے اندر کو ٹھری میں جا چھپی۔یکا یک اس کائین کا صندوق زمین پر سے خود بخود اٹھا اور چھت سے جالگا۔ کوئی نادیدہ قوت اسے اوپر اٹھا رہی تھی پھر وہ صندوق فرش پر گر پڑا اور اس میں سے سب کپڑے نکل کر ادھر ادھر بکھر گئے۔ یہ منظر دیکھ کر وہ بے ہوش ہو گئی۔ جب اسے ہوش آیا تو شام ہو رہی تھی۔ ڈر اور خوف کی وجہ سے وہ اس قابل نہ تھی کہ روٹی ہانڈی کر سکتی۔اس پڑوسی کو والد صاحب محمد حیات کے پاس لے گئے تھے تا کہ اس کا یہ مسئلہ حل ہو سکے۔ اس نے محمد حیات کو سب واقعات سنائے۔ انہوں نے تسلی دی اور اس شخص کے ساتھ اپنا ملازم بھیجا کے جا کر دیکھے کہ دراصل کیا معاملہ ہے…؟محمد حیات کا ملازم اس پڑوسی کے گھر آیا اور کو ٹھری میں جا کر دو چھٹی پر چڑھ کر بیٹھ گیا۔ اسے آہستہ آہستہ باتیں کرنے کی آوازیں دیر تک سنائی دیتی رہیں۔ گھنٹہ بھر کے بعد ملازم خاموشی سے اتر کر گھر سے چلا گیا۔ اس کے بعد انہیں کبھی کوئی شکایت نہ ملی نہ کسی قسم کا نقصان ہوا۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ جنوری 2025

Loading