ایک دیوانہ ، یہ کہتے ہُوئے ہنستا جاتا
کاش منزل سے بھی آگے کوئی رستا جاتا
اے میرے ابرِ گریزاں مری آنکھوں کی طرح
گر برسنا ہی تُجھے تھا ، تو برستا جاتا
آج تک یاد ہے اظہارِ مُحبت کا وہ پل
کہ مری بات کی لُکنت پہ وہ ہنستا جاتا
چلو پتھر نہ اُٹھاتے تیرے دیوانے پہ لوگ
سرِ راہے کوئی آوازہ ہی کستا جاتا
اتنے محدود کرم سے تو تغافل بہتر
گر ترسنا ہی مجھے تھا تو ترستا جاتا…!
احمد فرازؔ