خوشبودار غزل
شاعرہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پروین شاکر
آنکھیں کھلیں تو سامنے ایک اور خواب تھا
رکھا ہوا سرہانے یہ تازہ گلاب تھا
ایسے سما گیا کوئی آغوش خا ک میں
جیسے کہ قبر جام تھی اور وہ شراب تھا
ملاح کیسے بولتا دریا کے سامنے
اسوار مال آب تھا اور پیش ِ آب تھا
ہر چشمۂ سفر نے مسافر سے یہ کہا
اب تک کا دیکھنا تو محض اک سراب تھا
بچھڑا ہے آج کوئی تو یہ بھی کھلا کہ کیوں
کچھ دن سے شہر جاں میں بہت اضطراب تھا
#پروین شاکر
واہ… پروین شاکر نے ایک بار پھر میرے دل کو گرفت میں لے لیا۔
یہ غزل نہیں، ایک خاموش سفر ہے —
خواب، جدائی، اور بےقراری کے عکس میں لپٹا ہوا۔آنکھیں کھلیں تو سامنے ایک اور خواب تھا
رکھا ہوا سرہانے یہ تازہ گلاب تھا
ایسے سما گیا کوئی آغوش خا ک میں
جیسے کہ قبر جام تھی اور وہ شراب تھا
ملاح کیسے بولتا دریا کے سامنے
اسوار مال آب تھا اور پیش ِ آب تھا
ہر چشمۂ سفر نے مسافر سے یہ کہا
اب تک کا دیکھنا تو محض اک سراب تھا
بچھڑا ہے آج کوئی تو یہ بھی کھلا کہ کیوں
کچھ دن سے شہر جاں میں بہت اضطراب تھا
#پروین شاکر
واہ… پروین شاکر نے ایک بار پھر میرے دل کو گرفت میں لے لیا۔
یہ غزل نہیں، ایک خاموش سفر ہے —
خواب، جدائی، اور بےقراری کے عکس میں لپٹا ہوا۔آنکھیں کھلیں تو سامنے ایک اور خواب تھا
رکھا ہوا سرہانے یہ تازہ گلاب تھا
ایسے سما گیا کوئی آغوش خا ک میں
جیسے کہ قبر جام تھی اور وہ شراب تھا
ملاح کیسے بولتا دریا کے سامنے
اسوار مال آب تھا اور پیش ِ آب تھا
ہر چشمۂ سفر نے مسافر سے یہ کہا
اب تک کا دیکھنا تو محض اک سراب تھا
بچھڑا ہے آج کوئی تو یہ بھی کھلا کہ کیوں
کچھ دن سے شہر جاں میں بہت اضطراب تھا
#پروین شاکر
واہ… پروین شاکر نے ایک بار پھر میرے دل کو گرفت میں لے لیا۔
یہ غزل نہیں، ایک خاموش سفر ہے —
خواب، جدائی، اور بےقراری کے عکس میں لپٹا ہوا۔