Daily Roshni News

معاشرتی المیہ یا خودغرضی۔۔۔ تحریر۔۔۔۔حمیراعلیم

معاشرتی المیہ یا خودغرضی

تحریر۔۔۔۔حمیراعلیم

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔۔ معاشرتی المیہ یا خودغرضی۔۔۔ تحریر۔۔۔۔حمیراعلیم )دنیا کی نظر میں پاکستان اسلامی مملکت ہے۔جب کہ ہمارے معاشرے میں کچھ بھی ایسا نہیں جو اسلام کے قریب تر بھی ہو۔ایک عجیب تضاد ہے کہ مرد اگر 70 سال کا نانا دادا آدھ درجن شادی شدہ بچوں کا باپ بھی ہو تو بھی اسے دوسری، تیسری، چوتھی شادی کے لیے 30-35 سالہ کنواری لڑکی چاہیے ہوتی ہے۔اور اگر وہ ان پر احسان کرتے ہوئے مطلقہ بیوہ قبول کر بھی لے تو واضح بتا دیتا ہے کہ بچے نہ ہوں۔اگر کسی کے سدرال، سابقہ شوہر، میکے میں سے کوئی بھی بچے رکھنے کو تیار نہ ہو اور خاتون کسی بھی وجہ سے کفالت کے قابل نہ ہو اور صرف اس وجہ سے دوسری شادی کرنے ہر آمادہ ہو جائے کہ اسے اور بچوں کو ایک کفیل اور گھر مل جائے تو کیا مرد کی اس شرط اور حالات کی وجہ سے بچے مار دے یا یتیم خانے میں چھوڑ آئے؟ موت تو کسی کو بھی کسی بھی وقت آ سکتی ہے مگر جب بندہ 60 کا ہندسہ پار کرتا ہے تو سوچتا ہے کہ بس اب اگلی منزل کا بلاوا کسی بھی وقت آ سکتا ہے۔

فرض کیجئے آپ نے 30 سالہ کنواری سے شادی کی بچے پیدا ہوئے اور آپ کا انتقال ہو گیا اب کون اس بیوہ کے بچے پالے گا؟ کیونکہ اکثر سسرال یا شوہر کے بچے دوسری بیوی کو جائیداد میں حصہ نہیں دیتےاور گھر سے بھی بے دخل کر دیتے ہیں۔اکثر مرد بیوہ یا مطلقہ عورت سے اس لیے نکاح نہیں کرتے کہ اُنہیں اس کے بچوں کی پرورش کا بوجھ قبول نہیں۔ وہ بچوں کو بوجھ، رکاوٹ، اور غیر ضروری خرچ سمجھتے ہیں۔بیوہ مطلقہ کو کمتر سمجھا جاتا ہےاور خیال کیا جاتا ہے کہ وہ حالات اور

سہارا نہ ہونے کے باعث تنہائی، معاشی مسائل اور ذہنی دباؤ کا شکار ہو جاتی ہیں ان سے نکاح کی صورت میں خاندان اور معاشرہ اسے لعن طعن کرتے ہیں

اس سائیکی کی وجہ جاننے کے لیے میں نے سروے کیا تو مندرجہ ذیل وجوہات سامنے آئیں۔جوان بیوی مرد کو اپنی جوانی کی یاد تازہ کرنے مردانگی کی علامت دکھتی ہے۔معاشرہ اسے برا نہیں سمجھتا بلکہ مرد کو طاقتور سمجھتا ہے۔جوان لڑکی اس کا بہتر خیال رکھ سکتی ہے۔بعض اوقات اسے اولاد چاہیے ہوتی ہے جو کہ جوان لڑکی ہی پیدا کر سکتی ہے۔ وہ اپنی خواہش کی تکمیل کے لیے شادی کرتا ہے اس لیے بیوی کے بچوں  کی پرورش کی ذمہ داری اسے اضافی بوجھ لگتی ہے۔اس میں دوسرے کے بچے پالنے کا ظرف نہیں ہوتا۔کچھ لوگ افورڈ نہیں کر سکتے۔ان کے نزدیک یہ ان کا فرض نہیں۔ذاتی مفاد کو ترجیح دینا۔وہ چاہتے ہیں کہ ان کی بیوی ان کے بچوں کی ماں بنے، لیکن وہ کسی اور کے بچے کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ یہ دوہرا معیار ہے۔کچھ مرد صرف ظاہری کشش کو ترجیح دیتے ہیں۔ اور سمجھتے ہیں کہ چھوٹی عمر کی عورت زیادہ خوبصورت یا پرکشش ہوگی جبکہ بچوں والی عورت کو وہ “ختم شدہ” یا “پرانا” تصور کرتے ہیں۔

یہ تمام وجوہات ایک مخصوص طبقے کی سوچ کی عکاسی کرتی ہیں اور ہر مرد پر لاگو نہیں ہوتیں۔ مگر عمومی مشاہدے کی بنیاد پر یہ باتیں سامنے آتی ہیں۔انسان، بالخصوص مرد، جب زندگی کی ایک طویل مسافت طے کر لیتا ہے تو وہ اپنے اندر ایک “نئی زندگی” کی خواہش پاتا ہے۔ یہ خواہش کسی حد تک فطری ہے مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ وہ نئی زندگی صرف تب خوبصورت محسوس ہوتی ہے جب اسے کم عمر، بے اولاد اور مکمل طور پر نئے رشتے سے منسلک عورت کے ساتھ جوڑا جائے۔اکثر مرد چاہتے ہیں کہ نئی شادی ایک ہموار اور آسان زندگی کی ضامن ہو۔ جس میں پچھلے رشتوں، بچوں یا جذباتی پیچیدگیوں کی کوئی جھلک نہ ہو۔ گویا نئی بیوی صرف خوشی بانٹنے کے لیے ہو۔ نہ کہ بوجھ اُٹھانے یا شریکِ حیات کے دکھوں میں شریک ہونے کے لیے۔

بیوہ یا مطلقہ عورت کے بچے کئی مردوں کو اس عورت کی سابقہ زندگی کی علامت لگتے ہیں۔ وہ لاشعوری طور پر یہ محسوس کرتے ہیں کہ ان بچوں کا ہونا ان کے مکمل اختیار یا تعلق کو متاثر کرے گا۔اکثر مرد سوچتے ہیں کہ اگر عورت کے پہلے شوہر کے بچے ساتھ ہوں تو نہ صرف ان کی توجہ تقسیم ہوگی بلکہ خاندان یا جائیداد کے معاملات بھی الجھ سکتے ہیں۔ وہ یہ پیچیدگیاں شادی سے پہلے ہی خارج کر دینا چاہتے ہیں۔مردوں کو معاشرتی طور پر جذباتی تربیت کم ملی ہوتی ہے۔ وہ یہ سیکھنے سے قاصر رہتے ہیں کہ کسی عورت کے دکھ، اس کے گزرے ہوئے کل اور بچوں کو اپنانا بھی محبت اور انسانیت کی علامت ہے۔ اس تربیت کے فقدان کی وجہ سے وہ ہمدردی یا قربانی سے عاری فیصلے کرتے ہیں۔

اگر ہم اس عمل کو صرف مرد کی خود پسندی سے تعبیر کریں گے تو بات ادھوری رہے گی۔ یہ رویہ دراصل ہمارے اجتماعی شعور، تربیت، اور جذباتی پختگی کی کمی کو ظاہر کرتا ہے۔نکاح کے عمل میں عمر، حالات، اور جذبات سب کا احترام ضروری ہے۔ اگر ایک مرد اپنی زندگی کے آخری حصے میں نئی شروعات کا خواہشمند ہے تو اس کا حق ہے، مگر اس شروعات کی شرائط ایسی نہ ہوں جو صرف عورت سے قربانی مانگیں۔

محبت، اعتماد اور احترام وہاں مکمل ہوتا ہے جہاں ماضی کے سائے قبول کیے جائیں نہ کہ صرف اپنی آسانی کے لیے نئے رشتے چُنے جائیں۔اگرچہ اسلام میں شوہر پر بیوی کے بچے پالنے فرض نہیں ہے لیکن قرآن میں ربائب کا ذکر آتا ہے۔یعنی بیوی کی سابقہ شوہر سے بیٹیاں جو دوسرے شوہر کے گھر میں رہتی ہیں ان سے بھی نکاح جائز نہیں۔اگر شوہر کو بیوی کے بچے پالنے کا حکم نہ ہوتا تو ربائب کو اس کا محرم نہ قرار دیا جاتا۔بن باپ کے بچے، یتیم ہوں یا جن کے باپ ان کو اون نہ کریں ان کے ساتھ حسن سلوک پر مرد کو اجر نہ ملتا۔یتیم بچوں کی کفالت کے بارے میں آیات و احادیث نہ ہوتیں۔

“دنیا اور آخرت کے بارے میں، اور یتیموں کے متعلق آپ سے پوچھتے ہیں، کہہ دو ان کی اصلاح کرنا بہتر ہے، اور اگر تم انہیں ملا لو تو وہ تمہارے بھائی ہیں، اور اللہ بگاڑنے والے کو اصلاح کرنے والے سے (الگ) جانتا ہے، اور اگر اللہ چاہتا تو تمہیں تکلیف میں ڈالتا، بے شک اللہ غالب حکمت والا ہے۔”البقرہ 220

نبیﷺ نے فرمایا:” میں اور یتیم کی  ” میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں یوں ہو گے۔آپ نے دو انگلیوں کو ملا کر اشارہ کیا۔”بخاری6005

نبیﷺ اور صحابہ کرام اپنی بیگمات کے بچے نہ پالتے۔خدیجہ رضی اللہ عنہا کے دو بیٹے نبیﷺکے زیر کفالت تھے۔اگر ہمارے معاشرے میں مطلقہ کے بچوں کی نہ باپ کفالت کرتا ہے نہ ہی ددھیال یا ننھیال اور ماں بھی اس قابل نہیں تو اللہ تعالٰی نے محلے داروں،  دیگر رشتے داروں، صاحب استطاعت مردوں  اور کسی بھی ایسے شخص کے نہ ہونے کی صورت میں حکمرانوں پر ایسے بچوں کی کفالت کا فرض عائد کیا ہے۔ایسی صورت میں ماں کا دوسرا شوہر اگر ان کی کفالت کرتا ہے تو اجر عظیم پاتا ہے۔اگر وہ بیوی کو قبول کرتا ہے تو اس کی خوشی کے لیے اس کے بچوں کو بھی پال سکتا ہے۔اگر وہ انہیں اپنے گھر میں جگہ دیتا ہے توانہیں عزت بھی دے اور تعلیم و تربیت، جذباتی جسمانی تحفظ بھی دے اور حقوق کا بھی خیال رکھے۔کیونکہ جیسے اسے اپنے بچے عزیز ہیں ویسے ہی عورت کو بھی ہوتے ہیں۔اگر عورت اس کے بچوں کی ماں بن سکتی ہے تو اسے بھی بیوی کے بچوں کا باپ کی طرح خیال رکھنا چاہیے۔

اگرچہ کم عمر، کنواری اور من پسند لڑکی سے شادی کرنے میں شرعا کوئی حرج نہیں لیکن قرآن میں یتیم، بیوہ، مطلقہ کی کفالت کے لیے شادی کا حکم بھی یاد رکھا جائے اور یتیم، طلاق کی صورت میں بچوں کے حقوق بھی جان کر ادا کیے جائیں بچوں کو لاوارث نہ چھوڑا جائےاللہ نے تو طلاق کی صورت میں بچوں کے دودھ پلانے پر بھی ماں کو الگ سے نان نفقہ ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔بچوں کا خرچ والد اور ورثاء کے ذمے لگایا ہے۔مگر ہمارے ہاں ماں کو اذیت دینے کے لیے اسے  بچوں کا خرچ نہیں دیا جاتا یا دوسری انتہا یہ ہوتی ہے کہ بچے اس سے چھین لیے جاتے ہیں۔

نبیﷺکی  چار شادیوں کی سنت فالو کریں تو یتیم اور بن باپ کے بچوں کی کفالت کی سنت بھی ہوری کی جائے۔اسلام پر عمل کرنا ہے تو پورا کیجئے۔بیوی کے حقوق اور اپنے فرائض بھی ادا کیجئے۔صرف اپنی خوشی اور ضرورت کو ہی ترجیح نہ دیں۔تبھی معاشرے اور گھر میں سکون اور امن قائم ہو سکتا ہے۔

Loading