سورہ البقرہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ سورہ البقرہ۔۔۔ ترجمہ اور تفسیر ۔۔۔ حمیرا علیم )اِنَّ اللّـٰهَ لَا يَسْتَحْيِىٓ اَنْ يَّضْرِبَ مَثَلًا مَّا بَعُوْضَةً فَمَا فَوْقَهَا ۚ فَاَمَّا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا فَيَعْلَمُوْنَ اَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّهِـمْ ۖ وَاَمَّا الَّـذِيْنَ كَفَرُوْا فَيَقُوْلُوْنَ مَاذَا اَرَادَ اللّـٰهُ بِـهٰذَا مَثَلًا ۘ يُضِلُّ بِهٖ كَثِيْـرًا وَّيَـهْدِىْ بِهٖ كَثِيْـرًا ۚ وَمَا يُضِلُّ بِهٖ اِلَّا الْفَاسِقِيْنَ (26) ↖
بے شک اللہ نہیں شرماتا اس بات سے کہ کوئی مثال بیان کرے مچھر کی یا اس چیز کی جو اس سے بڑھ کر ہے، سو جو لوگ مومن ہیں وہ اسے اپنے رب کی طرف سے صحیح جانتے ہیں اور جو کافر ہیں سو کہتے ہیں اللہ کا اس مثال سے کیا مطلب ہے، اللہ اس مثال سے بہتوں کو گمراہ کرتا ہے اور بہتوں کو اس سے ہدایت کرتا ہے، اوراس سے گمراہ تو بدکاروں ہی کو کیا کرتا ہے۔
اَلَّـذِيْنَ يَنْقُضُوْنَ عَهْدَ اللّـٰهِ مِنْ بَعْدِ مِيْثَاقِهٖ وَيَقْطَعُوْنَ مَآ اَمَرَ اللّـٰهُ بِهٓ ٖ اَنْ يُّوْصَلَ وَيُفْسِدُوْنَ فِى الْاَرْضِ ۚ اُولٰٓئِكَ هُـمُ الْخَاسِرُوْنَ (27) ↖
جو اللہ کے عہد کو پختہ کرنے کے بعد توڑتے ہیں اور جس کے جوڑنے کا اللہ نے حکم دیا ہے اسے توڑتے ہیں اور ملک میں فساد کرتے ہیں، وہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں۔
كَيْفَ تَكْفُرُوْنَ بِاللّـٰهِ وَكُنْتُـمْ اَمْوَاتًا فَاَحْيَاكُمْ ۖ ثُـمَّ يُمِيْتُكُمْ ثُـمَّ يُحْيِيْكُمْ ثُـمَّ اِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ (28) ↖
تم اللہ کا کیونکر انکار کرسکتے ہو حالانکہ تم بے جان تھے پھر بھی تمہیں زندہ کیا پھر تمہیں مارے گا پھر تمہیں زندہ کرے گا پھر تم اسی کے پاس لوٹ کر جاؤ گے۔
هُوَ الَّـذِىْ خَلَقَ لَكُمْ مَّا فِى الْاَرْضِ جَـمِيْعًا ثُـمَّ اسْتَوٰٓى اِلَى السَّمَآءِ فَسَوَّاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ ۚ وَهُوَ بِكُلِّ شَىْءٍ عَلِيْـمٌ (29) ↖
اللہ وہ ہے جس نے جو کچھ زمین میں ہے سب تمہارے لیے پیدا کیا ہے، پھر آسمان کی طرف متوجہ ہوا تو انہیں سات آسمان بنایا، اور وہ ہر چیز جانتا ہے۔
وَاِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَآئِكَـةِ اِنِّىْ جَاعِلٌ فِى الْاَرْضِ خَلِيْفَةً ۖ قَالُوْا اَتَجْعَلُ فِيْـهَا مَنْ يُّفْسِدُ فِيْـهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَآءَ ۚ وَنَحْنُ نُسَبِّـحُ بِحَـمْدِكَ وَنُـقَدِّسُ لَكَ ۖ قَالَ اِنِّىْ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ (30) ↖
اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا میں زمین میں ایک نائب بنانے والا ہوں، فرشتوں نے کہا کیا تو زمین میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو فساد پھیلائے اور خون بہائے حالانکہ ہم تیری حمد کے ساتھ تسبیح بیان کرتے اور تیری پاکی بیان کرتے ہیں، فرمایا میں جو کچھ جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔
تفسیر
1: جب انسان کسی چیز کو سچ جان کر بھی ماننا نہیں چاہتا تو اس کی مذمت کرنے لگتا ہے۔جب ایک آیت میں اللہ تعالی نے مچھر کی مثال دی تو ک ف ا ر مکہ نے اعتراض کیا کہ اللہ چھوٹی مثالیں دیتا ہے، یہ آیت منسوخ ہو گئی اس لیے آج قرآن میں نہیں ملتی۔اس پر اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ وہ چاہے تو مچھر پر موجود جوں کی مثال بھی دے سکتا ہے۔آج سائنس مچھر پر موجود پیراسائٹ کے بارے میں بتاتی ہے۔مثال سمجھانے کے لیے دی جاتی ہے ایمان لانے والے سبق حاصل کرتے ہیں جب کہ منکرین اعتراض۔ ک ا ف ر کی مثال پتھر کی طرح ہے جس میں پانی جذب نہیں ہوتا بہہ جاتا ہے۔صلاحیتیں سب کو ایک جیسی ملتی ہیں جو انہیں اچھی طرح استعمال کرےوہ ہدایت یافتہ اور غلط استعمال کر کے لوگ فاسق بن جاتے ہیں۔
2: فاسقین کی خصوصیات بیان کی گئی ہیں۔عہد توڑتے ہیں۔جب ارواح پیدا کی گئیں تو اللہ تعالٰی نے شرک نہ کرنے کا عہد لیا جسے عہد الست کہتے ہیں۔انبیاء کے ذریعے اس کی تجدید کی جاتی رہی۔لیکن انسان اس سے منحرف ہو جاتے ہیں۔حدیث میں فاسق کی چھ خصلتیں بیان کی گئی ہیں۔جھوٹا، خائن، فسادی، وعدہ توڑنے والا، قطع رحمی یعنی رشتے توڑنے والا، اللہ کے احکام نہ ماننے والا۔
جب کہ متعدد احادیث میں رشتے داروں سے احسن سلوک پر عمر اور رزق میں برکت کی بشارت دی گئی ہے۔
3:ایک بار پھر انسان کی پیدائش یاد دلا کر اس کے انکار سے منع فرما جا رہا ہے۔کہ جس رب نے ہمیں ایک بوند پانی سے خوبصورت، صحت مند انسان بنایا، پھر موت دے گا پھر زندہ کرے گا اور قیامت کے دن فیصلہ کرے گا اس کے احکام سے روگردانی کیسے کی جا سکتی ہے۔
4: اپنی خوبیاں بیان فرمائیں کہ اللہ نے سات دن میں کائنات بنائی۔زمین اور سات آسمان بنائے اس کے لیے عدم سے وجود میں لانا پھر مارنا اور پھر زندہ کرنا کیا مشکل ہے۔اللہ تعالٰی ہر چیزکو جانتا ہے۔
5: قصہ آدم علیہ السلام کے ذریعے انسان کی تخلیق اور اس کا مقصد بتایا جا رہا ہے۔اس قصے سے یہ ثابت ہوتا ہے زمین کی تخلیق اس میں انسانوں کا بسنا اللہ تعالٰی کا پلان تھا زمین نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے وجود میں نہیں آئی۔اس لیے انہیں وجہ وجود کائنات کہنا درست نہیں۔ اللہ تعالٰی نے فرشتوں کو خبر دی کہ وہ زمین پر اپنا خلیفہ بنانے والا ہے تو انہوں نے کہا کہ ہم آپ کی تسبیح و حمد کرتے ہیں تو اس کی کیا ضرورت ہے۔انسان سے 2000 سال پہلے زمین پر جن بستے تھے جو ہر وقت فساد برپا کیے رکھتے تھے تو فرشتوں نے کہا کہ انسان بھی ایسا ہی کرے گا۔اللہ تعالٰی نے فرمایا جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے یعنی انسانوں میں انبیاء، شہدا، صدیقین، صالحین، علماء و زاہد بھی ہوں گے۔
فرشتوں کو بتا کر انہیں ذہنی طور پر تیار کیا گیا۔اور ہمیں سکھایا کہ جب بھی کوئی کام کرنا ہو تو اردگرد کے لوگوں سے مشورہ کریں خصوصا جو اس کام سے متعلقہ لوگ ہوں۔فرشتے نافرمانی نہیں کرتے لیکن انہیں رائے کے اظہار کا حق دیا گیا تو انہوں نے اپنی رائے دے دی کہ اگر صرف عبادت ے لیے نئی مخلوق پیدا کی جا رہی ہے تو ہم ہیں نا۔اللہ تعالٰی نے جن و انس کو بھی عبادت کے لیے ہی پیدا کیا ہے مگر زمین کی آبادکاری بھی مقصود تھا۔اسی لیے انسان کو علم دیا گیا ہے۔
حدیث میں ہے کہ فجر کے وقت فرشتےآتے ہیں اور عصر کو جا کر دنیا کی رپورٹ اللہ تعالٰی کو دیتے ہیں کہ کون کون عبادت میں مشغول تھا۔یہی مصلحت تھی جسے دیکھنے کے لیے فرشتے بھیجے جاتے ہیں۔
عمل: فاسق کی خصلتیں اپنے اندر سے نکالنی ہیں۔صلہ رحمی یعنی رشتے داروں کے حقوق ادا کرنے کے ساتھ ساتھان پر احسان بھی کرنا ہے۔جن رشتے داروں سے ناراضگی ہے انہیں فون کریں گھر پر مدعو کریں یا ان کے گھر جا کر انہیں منانا ہے۔یہ صرف محرم اور خون کے رشتے داروں کے متعلق ہے۔عہد الست پر عمل کرنا ہے۔موت کو یاد رکھنا ہے۔اور اپنی تخلیق کاقصد پورا کرنا ہے عبادت کرنی ہے۔اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کسی بھی طریقے سے دوسروں کو بھی بتانا ہے۔
جزاکم اللہ خیرا