۔۔۔ غزل ۔۔۔
شاعرہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ پروین شاکر
کریں ترکِ زمیں یا جائیں جاں سے
وُہی انداز اُن کے آسماں سے
اگر چاہیں تو وُہ دِیوار پڑھ لیں
ہمیں اب کُچھ نہیں کہنا زُباں سے
سِتارہ ہی نہیں جب ساتھ دیتا
تو کشتی کام لے کیا بادباں سے
ضروری ہو گئی اب دِل کی زینت
مکیں پہچانے جاتے ہیں مکاں سے
بساطِ زیست پر اکثر زمانہ
پلٹ لیتا ہے اپنے حق میں پانسے
وَگرنہ فصلِ گُل کی قدر کیا تھی
بڑی حکمت ہے وابستہ خِزاں سے
کِسی نے بات کی تھی ہنس کے شاید
زمانے بھر سے ہیں ہم خُوش گُماں سے
کبھی تنہائی کا ڈر روکتا تھا
اور اب مشکل ہجومِ ہمرہاں سے
الاؤ ہی جلانے کی شبیں ہیں
مگر ہٹ کر کِسی کے سائباں سے
سبھی سودے خسارے کے نہیں تھے
مگر ، فُرصت نہ تھی کارِ جہاں سے
مُحبّت اور وُہ بھی غیر مشروط
بہت مُشکل ہے ایسے مہرباں سے
نکالی بھی گئی تھیں سوئیاں کیا
کوئی تصدیق کرتا قصّہ خواں سے
مَیں اِک اِک تِیر پر خُود ڈھال بنتی
اگر ہوتا وُہ دُشمن کی کماں سے
جو سبزہ دیکھ کر خیمے لگائیں
اُنہیں تکلیف کیوں پہنچے خِزاں سے
جو اپنے پیڑ جلتے چھوڑ جائیں
اُنہیں کیا حق کہ رُوٹھیں باغباں سے
(خوشبوؤں کی شاعرہ)
پروین____شاکر ¹⁹⁹⁴-¹⁹⁵²
مجموعۂ کلام : (خود کلامی)