Daily Roshni News

بڑے بیٹے کا المیہ:

بڑے بیٹے کا المیہ:

 اے ٹی ایم مشین، کولہو کا بیل اور جرمِ وفا! –

 بلال شوکت آزاد

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )وہ جو سب سے پہلے پیدا ہوتا ہے، جس کی پیدائش پر باپ کے چہرے پر مردانگی کی خوشی، ماں کے چہرے پر غرورِ تخلیق، اور پورے خاندان کے ہاں شکرانے کی دعا ہوتی ہے… وہی بچہ وقت کے ساتھ ساتھ صرف ایک عدد “بڑا بیٹا” بن کر رہ جاتا ہے۔ اور “بڑا بیٹا” ہونا ہمارے معاشرے میں کوئی رتبہ یا مقام نہیں، بلکہ ایک خاموش سزائے عمر قید ہے. بغیر کسی جرم کے، بغیر کسی فیصلے کے، بغیر کسی اپیل کے۔

یہ “بڑا بیٹا” کولہو کا وہ بیل ہے جس کی آنکھوں پر پٹیاں باندھ دی جاتی ہیں، نہ اس سے پوچھا جاتا ہے کہ وہ تھک گیا ہے، نہ اسے بتایا جاتا ہے کہ وہ جا کہاں رہا ہے۔ وہ بس گھومتا ہے، دن رات کی تمیز کے بغیر، اپنی جوانی کو  خاندان کا بوجھ ڈھونے کی نذر کر دیتا ہے اور پھر بھی اس کا شکریہ نہیں، صرف مطالبے، فقط طعنے اور بد دعائیں!

بڑا بیٹا وہ خزانچی ہے جس کی تنخواہ خاندان کی ملکیت ہوتی ہے، وہ ادھار جسے واپس لوٹانے کا کوئی رواج نہیں۔ شادی سے پہلے اس کی جیب خالی، اور شادی کے بعد اس کا دل اور جھولی۔ دونوں صورتوں میں وہ خالی ہاتھ ہی رہتا ہے۔ کیونکہ گھر والوں کی محبت، بہن بھائیوں کی چاہت، ماں باپ کی شفقت، سب مشروط ہوتی ہے, اس کی آمدنی اور سر جھکانے سے۔ جب تک اس کی جیب بھری ہو تو سب سلام کرتے ہیں، جونہی اس کے حالات بدلیں تو وہی لوگ اجنبی بن جاتے ہیں، بلکہ دشمن۔

اور پھر ایک وقت آتا ہے جب وہ بڑا بیٹا اپنے حق میں فیصلہ کرتا ہے۔ شادی کرتا ہے، خود کا سوچتا ہے، زندگی کی اونچی نیچی راہوں پر قدم رکھتا ہے۔ تو یہی خاندان، یہی رشتہ دار، یہی بہن بھائی، اسی پر انگلیاں اٹھاتے ہیں۔ اسے بے وفا، خود غرض، مطلبی، اور نافرمان کہا جاتا ہے۔ حالانکہ وہ صرف خود کو تھامنے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے۔ کیونکہ اتنا سب اٹھا لینے کے بعد وہ اگر ٹوٹ گیا تو صرف خود نہیں ٹوٹے گا، اس کی بیوی، اس کے بچے، اس کا مستقبل، سب بکھر جائیں گے۔

ہمارے معاشرے میں چھوٹے بھائی بہنوں کو لاڈ پیار اور وراثت کی پناہ ملتی ہے۔ ان کے نخرے، ان کی آزادی، ان کی مرضی، ان کا حق۔ لیکن بڑے بیٹے کو صرف ایک مقام ملتا ہے, ذمہ داری۔ وہ یہ ذمہ داری نبھائے یا نہ نبھائے، اس کا حق نہیں کہ وہ تھکے، اس کا اختیار نہیں کہ وہ انکار کرے، اس کی اجازت نہیں کہ وہ جیے۔

اور ستم ظریفی دیکھیے کہ اسے بڑے بھائی کے طور پر مانا ضرور جاتا ہے، لیکن اس کی بات، اس کی مرضی، اس کی رائے… سب کو روند دیا جاتا ہے۔ فیصلے پہلے ہو چکے ہوتے ہیں، بس اسے اطلاع دی جاتی ہے۔ اگر وہ اختلاف کرے تو کہا جاتا ہے، “نہیں پسند تو گھر چھوڑ دو”۔ گویا اس کا وجود صرف اس وقت تک معتبر ہے جب تک وہ جھکتا رہے، دیتا رہے، سہتا رہے۔

جب بہنوں کی شادیاں ہوتی ہیں تو رخصت ہو کر بھی ان کا “اثر و رسوخ” گھر سے نہیں جاتا۔ وہ سسرال سے بیٹھ کر بھی گھر کے فیصلوں میں دخل دیتی ہیں۔ اور اگر کبھی بڑا بھائی اس پر سوال کرے، تو اس پر فتویٰ لگایا جاتا ہے کہ وہ بہنوں کا دشمن ہے۔ اس کی حساس طبیعت اس کی کمزوری سمجھی جاتی ہے۔ وہ اگر عدل کی بات کرے، تو منافقت اور نافرمانی کے طعنے سننے پڑتے ہیں۔ وہ اگر انکار کرے تو ناشکری کا تمغہ اس کی پیشانی پر ٹانک دیا جاتا ہے۔

یہ وہی بڑا بیٹا ہے جس نے بچپن میں کھلونے نہیں خریدے تاکہ چھوٹے بہن بھائیوں کے چپس اور بسکٹ آ جائیں۔ جس نے جوانی میں اپنی پڑھائی بیچ کر گھر کی ضروریات پوری کیں۔ جس نے نوکری ملنے پر سب سے پہلے ماں باپ کی دعائیں سمیٹیں، اور تنخواہ ملنے پر سب سے پہلے بہنوں کی فرمائشیں پوری کیں۔ لیکن جب اسے کچھ چاہیے ہوتا ہے تو کہا جاتا ہے:

“تم بڑے ہو، تمہیں برداشت کرنا ہوگا۔”

یہ وہی بڑا بیٹا ہے جس نے بہنوں کے جہیز کے لئے قرضے لیے، بھائی کی فیسیں ادا کیں، اور اپنے بچوں کے لئے جیب میں کچھ نہ بچایا۔ اور جب تھک ہار کر وہ الگ ہونے کا فیصلہ کرتا ہے تو کہا جاتا ہے:

“دیکھو، کیسا خود غرض نکل آیا!”

“بیوی کے پیچھے چل پڑا!”

لیکن کوئی یہ نہیں دیکھتا کہ یہ وہ خود غرض ہے جس نے بچپن سے قربانی دی، جوانی میں قربانی دی، اور شاید بڑھاپے میں بھی قربانی ہی دے گا۔ اس کے دل میں جو زخم ہیں وہ تب تک دکھتے رہیں گے جب تک وہ زندہ ہے، اور شاید اس کے جانے کے بعد بھی اس کے بچوں کو اس کے بڑے ہونے اور ذمہ دار ہونے کی سزا ملتی رہے گی۔

مگر وہ جو بڑا بیٹا ہے… وہ ایک دن ہمت کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے، “بس! اب نہیں!” وہ علیحدگی اختیار کرتا ہے۔ وہ اپنی دنیا بسانا چاہتا ہے۔ وہ اپنے بچوں کے لیے وہ سب کچھ دینا چاہتا ہے جو اسے نہیں ملا۔ لیکن یہ علیحدگی بھی آسان نہیں ہوتی۔ اسے بددعائیں، طعنے، الزامات اور دشمنی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسے احساس جرم کا شکار کیا جاتا ہے۔ حالانکہ وہ صرف وہی کر رہا ہوتا ہے جو ہر ذی شعور شخص کو کرنا چاہیے — اپنے لیے جینا۔

اور اگر اس کی فطرت میں عدل ہو، تو وہ ان طعنوں سے مرعوب نہیں ہوتا۔ وہ جانتا ہے کہ رشتہ داریاں اگر انصاف سے محروم ہوں تو صرف خونی رشتے رہ جاتی ہیں، روحانی رشتہ نہیں بنتے۔ وہ جانتا ہے کہ ہر انسان کا یہ حق ہے کہ وہ اپنی زندگی اپنی مرضی سے گزارے، بغیر اس بوجھ کے جسے مقدر کہہ کر اس پر لاد دیا جائے۔

ایسے معاشرے میں بڑا بیٹا ہونا واقعی ایک زہر ہے۔ ایک بوجھ۔ ایک خاموش اذیت۔ اور اگر آپ کی فطرت میں حساسیت ہے تو سمجھ لیجیے، آپ کو جینے کا کوئی حق نہیں۔ آپ کے ہر جذبے کو کمزوری سمجھا جائے گا، آپ کے ہر انکار کو گستاخی، آپ کے ہر سوال کو بغاوت۔

مگر وقت بدل رہا ہے۔ اب بڑے بیٹے بھی بول رہے ہیں۔ اب وہ صرف اے ٹی ایم مشین یا کولہو کے بیل نہیں بنیں گے۔ اب وہ اپنے جذبات، اپنی زندگی، اپنے خوابوں کا حق مانگیں گے, اور اگر نہیں ملا، تو چھین لیں گے۔ کیونکہ زندگی کسی کی خوشنودی کے لیے قربان کرنے کا نام نہیں، بلکہ خود کو پہچاننے اور اپنی شناخت کے ساتھ جینے کا نام ہے۔

اور اگر اس معاشرے کو کچھ سیکھنا ہے تو بس ایک سبق یاد رکھے: بڑے بیٹے بھی انسان ہوتے ہیں, ان کا دل بھی ہوتا ہے۔ ان کے جذبات بھی ہوتے ہیں۔ اور ان کی زندگیاں بھی صرف دوسروں کے لیے وقف کرنے کے لیے نہیں ہوتیں۔

یہ تحریر ہر اس شخص کے لیے ہے جو بڑا بیٹا ہے، تھا یا بننے والا ہے…

Loading