ہم سب کا گزرنا وقت کا حصہ ہے
تحریر ۔۔۔عبداللہ مروت
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ ہم سب کا گزرنا وقت کا حصہ ہے ۔۔۔ تحریر ۔۔۔عبداللہ مروت)ہم سب کا گزرنا وقت کا حصہ ہے، اور ہم ہر دن، ہر لمحے، وقت کے دھارے میں بہتے چلے جاتے ہیں۔ لیکن ہم نے کبھی یہ سوچا ہے کہ وقت واقعی حقیقت ہے؟ یا یہ صرف ایک وہم ہے، جو ہمارے دماغ نے اپنے آفاقی سسٹم میں گھڑ لیا ہے؟
وقت کی حقیقت پر غور کرتے ہوئے ایک سوال ذہن میں آتا ہے: ہم وقت کو جیتے ہیں یا وقت ہمیں جیتا ہے؟ اگر ہم ماضی کو دیکھیں تو وہ پل، وہ لمحے، جو ایک دن ہمارے لیے حقیقت تھے، آج محض یادیں بن کر رہ گئے ہیں۔ مستقبل کا خیال بھی ہمارے دماغ میں بس ایک گزرے ہوئے لمحے کی طرح ہے، جسے ہم اپنے تخیل میں جیتے ہیں۔ پھر کیا ہے جو ہمیں موجودہ لمحے میں پھنسا کر رکھتا ہے؟
سائنس کہتی ہے کہ وقت ایک مسلسل دھارا ہے، ایک لکیری سلسلہ جو ہمیشہ آگے بڑھتا ہے۔ لیکن ہم کبھی اس بات پر سوچتے ہیں کہ یہ لکیری سلسلہ واقعی سچ ہے؟ یہ صرف ایک وہم ہے جسے ہم وقت کے طور پر تسلیم کرتے ہیں؟ یا پھر ہماری حقیقت میں وقت کا گزرنا صرف ایک خواب ہے، جسے ہم ہر دن اپنی زندگی کے حساب سے تعبیر کرتے ہیں؟
اگر ہم فزکس کی بات کریں، تو نظریات جیسے سپیشل اور جنرل ریلٹیوٹی ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ وقت جگہ اور رفتار کے مطابق مختلف ہو سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وقت ایک لکیری حقیقت نہیں ہے، بلکہ یہ ایک پیچیدہ اور عارضی شے ہو سکتی ہے جو ہمارے شعور سے جڑی ہوتی ہے۔
اگر وقت محض ایک وہم ہے، تو ہم اسے کیسے سمجھ سکتے ہیں؟ شاید ہمارے دماغ نے ہمیں وقت کی یہ فریب دیتی حقیقت سکھائی ہے تاکہ ہم اپنی زندگیوں کو کسی خاص ترتیب میں گزار سکیں۔ اور پھر، جب ہم اپنے خوابوں میں ہوتے ہیں، یا اس لمحے سے باہر نکل کر، وقت کا احساس بھی بدل جاتا ہے۔
ہو سکتا ہے، وقت کی یہ حقیقت ایک بے اختیار فریب ہو، اور شاید ہم نے اس کا ایک حصہ صرف اس لیے بنا لیا ہے کہ ہم اپنے وجود اور دنیا کو سمجھ سکیں۔ وقت صرف ایک مخصوص فریم ورک ہو، جس کے اندر ہم اپنی زندگی کی حقیقتوں کو ترتیب دیتے ہیں۔
آخرکار، اگر وقت صرف ایک وہم ہے، تو ہم کب تک اس کا پیچھا کرتے رہیں گے؟ اور اگر یہ حقیقت ہے، تو ہم اس کی مکمل نوعیت کو سمجھنے کے قابل ہیں؟ شاید یہی وہ سوالات ہیں جو ہمیشہ ہمیں سچائی کے قریب لے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔
تحریر : عبداللہ مروت