Daily Roshni News

بتاؤ میں کون ہوں؟۔۔۔قسط نمبر2

بتاؤ میں کون ہوں؟

قسط نمبر2

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔ بتاؤ میں کون ہوں؟ )خان بہادر نقی محمد خان 17 مئی 1880 کو بھارتی ریاست اتر پردیش کے ضلع بلند شہر کے ایک بڑے قصبے خورجہ میں پیدا ہوئے۔ نتھی محمد خان نے اپنا بچپن اور لڑکپن خورجہ میں گزارا، خوارجہ میں ہی ایک مکتب میں عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی اور پھر وکٹوریہ جو ہلی اسکول میں داخلہ لیا۔

1898ء میں وہ ملازمت کے سلسلہ میں علی گڑھ روانہ ہوئے اور وہاں پولیس میں ہیڈ کانسٹیبل کے طور پر شامل ہوئے۔ کچھ سال بعد انہیں الہ آباد منتقل کیا گیا، جہاں ان کی ملاقات اکبر الہ آبادی سے ہوئی۔ جلد ہی دونوں کے درمیان قریبی تعلقات قائم ہو گئے۔ نقی محمد نے تقریباً پانچ سال اکبر الہ آبادی کے ساتھ ان کے گھر عشرت منزل“ میں گزارے۔ نتقی محمد خان خور جوی نے پینتیس سال پولیس میں ملازمت کی اس دوران ان کے الہ آباد، بانسواڑہ، بھرت پور ، ریاست دیتیا ، بنارس اور کشمیر میں تبادلے بھی ہوئے۔ انہوں نے روایتی تہذیب کا دامن بھی نہ چھوڑا۔ پولیس کی نوکری کے دوران بھی ان کے کئی مضامین رسالوں میں چھپتے رہتے تھے۔ انہیں موسیقی سے بھی بہت دلچسپی تھی۔ انہوں کئی کتا بیں بھی لکھیں۔ جن میں ” حیات امیر خسر ومع ایجاد موسیقی اور ابجو بہ اسرار“ بہت اہم اور مشہور ہیں۔ انہوں نے طلسم ہستی، شیطان کی خالہ، زینت الحرم، بزم حسیناں، مذاق سلیم، بقول شخصے، انتخاب دلپسند، گل نور دسته، میلاد شریف، علاج بالغذا، سرمد شهید، قدیم خورجه ، تاریخ خاندان خلیل

اس کے نیچے ایک زبر دست سیاہ کو برا موجود تھا۔ کچھ ڈنڈا ، لکڑی اور پتھر اٹھانے کے واسطے دوڑے۔ وہ سانپ تیزی سے قنات کے نیچے سے باہر نکل گیا۔ اس گڑ بڑ کے دوران نامعلوم وہ صاحب بھی کس طرف چلے گئے۔

ان کے جانے کے بعد ہم لوگ بھی دیر تک اس پر گفتگو کرتے رہے کہ ہم نقشہ پر بیٹھ کر اور جسم کا بوجھ دے کر نقشہ کے مقامات کو عرصے سے دیکھ رہے تھے لیکن کوئی غیر معمولی چیز اس کے نیچے ہمیں معلوم نہ ہوئی ، جب نقشہ بچھایا گیا تھا اس وقت سانپ موجود نہ تھا۔ اس کے بعد جبکہ نقشہ کے ہر طرف ہم لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ بڑے سانپ کے نقشہ کے نیچے داخل ہونے کا کوئی امکان نہ تھانہ فرش میں سوراخ نہ فرش کے نیچے سوراخ پھر یہ سانپ کیونکر آگیا ان کو اس کا علم کیونکر ہو گیا۔ یہ معاملہ ایسا حیرت انگیز تھا کہ دیر تک یہی گفتگو ہوتی رہی اور حیرت کم نہ ہوئی۔

اس واقعہ کے بعد میں نے یہ طے کیا کہ آئندہ وہ صاحب اگر آئیں تو میرے آدمیوں میں سے کچھ لوگ مختلف مقامات پر چھپ جائیں اور پوشیدہ

غنچہ ادب اور روح ادب اور دیگر کتب تحریر کیں۔

ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد وہ دہرہ دون کی ایک کو ٹھی میں مقیم ہوگئے۔ تقسیم ہند کے وقت پاکستان جانے کے لیے دہرادون کی کو بھی فروخت ہونے کی امید میں خورجہ گئے، اس ہنگامہ خیزی میں جب کوئی خریدار نہ مل سکا تو اپنی کو بھی خور جہ اسلامیہ مدرسہ کے نام کر دی۔

تقی محمد خان خور جوی نے 1952 میں پاکستان ہجرت کی اور کراچی آگئے۔

لاہور سے شائع ہونے والے مشہور ادبی رسالہ ”ساقی کے مدیر اور مشہور ادیب شاہد احمد دہلوی کی ترغیب پر نقی محمد خان خورجومی نے اپنی آپ بیتی لکھی۔ اس وقت خور جوی صاحب 78 برس کے ہو چکے تھے۔ عمر رفتہ “ کے عنوان سے یہ خود نوشت اپریل 1958 میں ساقی کے سالنامہ خاص شمارے میں شائع ہوئی۔ بعد میں یہ خود نوشت داستان مختلف ادبی رسالوں اور اخبارات میں قسط وار چھپتی رہی، بعد میں اسے ترمیم و اضافہ کے ساتھ کتابی صورت میں کراچی سے شایع کیا گیا۔

عمر رفتہ ” خان بہادر تقی محمد خان خور جوی کی آپ بیتی ہے۔ اردو زبان کی سب سے زیادہ دلچسپ اور معلومات افزا آپ بیتی کہا جا سکتا ہے۔ کتاب میں ایک صدی کی یادیں، ثقافت، تہذیب، روز مرہ گفتگو کے آداب اور گزشتہ لکھنو کی یادیں انتہائی دلچسپ انداز میں تازہ کی گئی ہیں۔ اس دور کی شخصیات کو بھی مصنف نے اپنے انداز بیان سے زندہ جاوید بنادیا۔ نقی محمد خان کی زبان، اسلوب اور واقعات اتنے دلچسپ ہیں کہ قاری کے لیے کتاب کو چھوڑ نا مشکل ہو جاتا ہے۔

خان بہادر نقی محمد خان خور جوی تقریباً نوے سال کی بھر پور زندگی گزارنے کے بعد 23 نومبر 1969ء میں جہانِ فانی سے عالم جاودانی کو رخصت ہوئے۔

طور پر تعاقب کر کے یہ معلوم کریں کہ وہ کہاں جاتے ہیں۔

کچھ دن گزر جانے کے بعد تیسری مرتبہ پھر وہ صاحب اچانک آگئے اسی دن وقت بجائے شام کے نو بجے دن تھا۔ اس وقت میں اپنے ڈیرے کے باہر دھوپ میں جسم پر تیل کی مالش کروارہا تھا انہیں دیکھ کر میں نے چادر اوڑھ لی۔ وہ آئے اور قریب کرسی پر بیٹھ گئے۔ ان کے لباس سے اندازہ ہوتا تھا کہ شاید وہ روزانہ کپڑے تبدیل کیا کرتے ہیں۔ نہ شکن نہ میں نہ داغ دھبہ ۔

اس مرتبہ وہ تقریباً ایک گھنٹہ بیٹے۔ مختلف موضوع پر میں نے گفتگو شروع کی۔ پولیٹکس سے پر انہیں کوئی دلچسپی نہ تھی۔ تصوف کے بارے میں انہوں نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ

باتوں کی چیز نہیں عمل کی ضرورت ہے۔“ علمی اور ادبی ذوق کافی اچھا تھا۔ اشعار اچھے یاد تھے۔ پڑھنے کا انداز بھی خوب تھا۔ میں نے بھی اردو فارسی کے سنائے۔ ایک شعر انہیں بہت پسند آیا وہ شعر انہوں نے خود بھی بار بار پڑھا اور تعریف کی استخواں ہونے ،انہیں غم یار کا کھایا کیا اور ہما حسرت سے کیا کیا سر یہ منڈلا یا کیا الغرض یہ صحبت دلچسپ تھی، چلتے وقت مجھے کہا کہ میری نگرانی نہ کرائی جائے۔ وہ دو چار ہی قدم چلے تھے کہ میرا ایک کلرک آگیا۔ اس کو دیکھ کر نے اور کہا عجیب آدمی ہو تمہارے بکس میں مچھلیوں نے انڈے دیئے ہیں اور تمہیں اس کا علم نہیں۔ وہ اس بات کو مذاق سمجھا اور جنس کر چپ ہو گیا۔ اس مرتبہ وہ اس راستہ سے نہ گئے تھے۔ اس کے خلاف سمت گئے جہاں میرے آدمیوں سے کوئی نہ تھا۔ نہ معلوم پانی کا نالہ انہوں نے کیسے عبور کیا ہو گا تھوڑی دور جانے کے بعد انکا پتہ نہ چلا۔کلرک نے جب اپنا کپڑوں کا بکس کھول کر دیکھا تو مٹر سے کافی چھوٹے کسی چیز کے انڈے بکثرت اس میں موجود تھے۔ اس نے مجھے بھی دکھا یا اور پھر انہیں چشمہ کے پانی میں ڈال دیا۔ اس واقعہ کے بعد ان سے ہماری ملاقات نہیں ہوئی۔ ڈھائی ماہ بعد جب ہم وہاں اپنا کام ختم کر کے واپس جارہے تھے تو اسی لباس اور وضع میں میرے ایک سپاہی کو ملے تھے اور اس سے پوچھا تھا کہ تم نے کچھ پتہ چلایا کہ میں کون ہوں ؟“۔܀܀܀خان بہادر نقی محمد خان خلیل خور جوی نے کتاب ”ا عجوبہ اسرار “ بیان کیا ہے۔میرے گھر لڑکی پیدا ہوئی میری بیوی مرضدق میں مبتلا ہو گئیں۔ مقدور بھر علاج کرایا، لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔

میں فروری 1910ء جمعرات کی رات میں اپنے پلنگ پر لیٹ گیا۔ کچھ ہی دیر گزری تھی کہ ایک دوسرے ہی عالم میں پہنچ گیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک قدسی صفت بزرگ خوش الحانی سے ایک شعر حالت وجد میں پڑھتے ہوئے سنگ مرمر کی خوبصورت چھوٹی سی مسجد سے برآمد ہوئے۔ اس شعر نے جو بیدار ہونے کے بعد یاد نہیں رہا، مجھے پر مجیب کیفیت طاری کر دی۔ وہ بزرگ میرے قریب آئے اور فرمایا کہ اگرمَن عَرَفَ نَفْسَه فَقَد عَرَفَ رَبِّهِ کے معافی اور مطالب پر غور کیا کرو تو فکر دین اور دنیا سے بے نیاز ہو جاؤ گے۔ ان کے ارشاد کے بعد میں کچھ کہنا چاہتا تھا کہ آنکھ کھل گئی۔ اس خواب نے مجھے ہمیشہ کے واسطے بیدار کر دیا۔ میں اکثر اپنے نفس کو پہچاننے میں غلطاں و پیچاں رہا کرتا۔ سرکاری کام کے سلسلے میں اکثر دیگر اضلاع اور صوبہ جات میں جانا ہوتا تھا۔ میں علماء صوفی و مشائخ کا متلاشی رہتا، اور معلومات حاصل کیا کرتا۔ جب ہر لحاظ سے مطمئن ہو گیا تو کتاب کا مسودہ تیار کیا۔ اس نام عجوبہ اسرار“ رکھا گیا۔ سو دوسو صفحات کی کتاب تیار ہو گئی۔ روح بلندی کی طرف اپنے پر کھولتی ہے جبکہ جسم نے زمین میں پنجے گاڑ رکھتے ہیں۔ روح تو بلندی رکھتی تھی، جب کہ جسم پستی کی طرف مائل تھا۔ ہوا یہ کہ پست خاک اور روح پاک ایک جگہ جمع ہو گئیں۔ جب پست و بلند ایک دوسرے کے دوست بن گئے تو آدمی ایک انوکھی چیز بن گیا۔ یہی کتاب کی جان اور اس کا ہے۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ فروری 2025

Loading