یوروپا – جیوپیٹر کا پراسرار چاند
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )یوروپا (Europa) نظام شمسی کے سب سے بڑے سیارے جیوپیٹر (Jupiter) کا ایک قدرتی چاند ہے، جو سائنسی حلقوں میں کئی دہائیوں سے خاص دلچسپی کا مرکز رہا ہے۔ اس کی خاص بات یہ ہے کہ اس کی سطح برف سے ڈھکی ہوئی ہے اور اس کے نیچے ایک ممکنہ مائع پانی کا سمندر موجود ہو سکتا ہے، جو زندگی کی موجودگی کے امکانات کو بڑھاتا ہے۔
یوروپا کو 1610ء میں گیلیلیو گیلیلی نے دریافت کیا۔ یہ جیوپیٹر کے چار بڑے چاندوں میں سے ایک ہے جنہیں “گیلیلیائی چاند” کہا جاتا ہے (بقیہ تین: آئیو، گینی میڈ، اور کالسٹو)۔
یوروپا کا قطر تقریباً 3,100 کلومیٹر (زمین کے چاند سے تھوڑا چھوٹا) ہے۔
سطح مکمل طور پر برف سے ڈھکی ہوئی
کشش ثقل زمین کے چاند سے کم
درجہ حرارت: بہت سرد، اوسطاً -160 ڈگری سیلسیس
یوروپا کی سطح پر بڑے پیمانے پر دراڑیں (fractures) اور لکیریں (lines) دیکھی گئی ہیں، جو برف کی تہہ میں ہونے والی حرکت اور نیچے موجود مائع پانی کی موجودگی کا پتہ دیتی ہیں۔ اس کی سطح پر بہت کم گڑھے (craters) ہیں، جو ظاہر کرتا ہے کہ یہ چاند ارضیاتی طور پر فعال ہے اور اس کی سطح مسلسل تبدیل ہو رہی ہے۔
سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ یوروپا کی برفانی سطح کے نیچے مائع پانی کا ایک سمندر موجود ہے، جو ممکنہ طور پر زمین کے تمام سمندروں سے زیادہ پانی رکھتا ہے۔
یہ سمندر چاند کی اندرونی حرارت (جیو تھرمل انرجی) کی وجہ سے مائع حالت میں ہو سکتا ہے، جو جیوپیٹر کی کشش کی وجہ سے یوروپا کے اندرونی حصے میں پیدا ہوتی ہے۔
اگر واقعی ایسا سمندر موجود ہے تو وہاں زندگی کے لیے حالات سازگار ہو سکتے ہیں، خاص طور پر خوردبینی سطح پر، جیسا کہ زمین پر سمندری وینٹس (hydrothermal vents) کے قریب پائی جانے والی مخلوقات۔
ناسا اور یورپی خلائی ایجنسیاں یوروپا پر تحقیق کے لیے مشنز بھیجنے کی منصوبہ بندی کر چکی ہیں:
Galileo مشن (1995–2003): جیوپیٹر کے گرد گردش کرتے ہوئے اس نے یوروپا کے بارے میں ابتدائی معلومات فراہم کیں۔
Europa Clipper (مقررہ لانچ: 2024–2025): ناسا کا ایک مشن جو یوروپا کا بار بار قریبی مشاہدہ کرے گا تاکہ وہاں موجود پانی، کیمیائی مادوں، اور ممکنہ زندگی کے امکانات کا مطالعہ کیا جا سکے۔
یوروپا ایک ایسا چاند ہے جو سائنسی تجسس، ممکنہ زندگی، اور آئندہ تحقیقاتی مشنز کا محور بن چکا ہے۔ اگر اس کی سطح کے نیچے واقعی مائع پانی موجود ہے تو یہ انسانیت کے لیے ایک انقلابی دریافت ہو سکتی ہے، جو ہمارے کائناتی تناظر کو بدل کر رکھ دے گی۔