ایسا نظامِ تعلیم تشکیل دیا جائے جو اس تفریق کو ختم کر کے دونوں طبقوں کو ملا سکے۔
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیو زانٹرنیشنل )برصغیر میں”دینی تعلیم” (مدارس) اور “دنیاوی علوم” (طب، ریاضی، فلکیات، فلسفہ وغیرہ) دونوں کو جداگانہ اور متضاد نہیں سمجھا جاتا تھا، بلکہ دونوں ایک ہی تعلیمی نظام (مدرسہ نظام) کے تحت چلتے تھے۔ ایک ہی مدرسے سے پڑھ کر کوئی مفتی بن کر نکلتا تو کوئی ریاضی کا ماہر بن کر۔ کوئی شیخ الحدیث بن جاتا تو کوئی ڈاکٹر۔ کوئی قرآنی علوم کا ماہر بن کر اور کوئی انجنئیر بن کر معاشرے کی تشکیل و تعمیر میں اپنا کردار ادا کرتا۔
لارڈ میکالے نے برصغیر میں 1835ء میں Divide and rule کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے اپنی مشہور “Minutes on Indian Education” کے ذریعے مغربی طرزِ تعلیم کو فروغ دیا اور روایتی دینی تعلیم (جیسے مدارس کی تعلیم) کو کمزور کرنے کی بنیاد رکھی اور یو ملا اور مسٹر کی صورت میں نفرت کے بیج بو دیے۔ میکالے نے انگریزی زبان کو تعلیم کا ذریعہ بنانے اور یورپی سائنس، فلسفہ، ادب کو فروغ دینے کی سفارش کی۔ اس نے کہا کہ ہندوستانیوں کو ایسا طبقہ پیدا کیا جائے جو “رنگ و نسل سے تو ہندوستانی ہو، مگر taste، opinions، morals، intellect کے لحاظ سے انگریز ہو۔
میکالے کے نظام نے دینی اداروں کو الگ کر دیا اور انہیں “غیر رسمی” یا “قدیم” تصور دیا، جب کہ دنیاوی تعلیم کو “جدید” اور “ترقی یافتہ” کا درجہ ملا۔ یہی وہ وقت تھا جب تعلیم میں عملی طور پر یہ تقسیم واضح اور پختہ ہوئی اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس تقسیم میں شدت پیدا ہوتی رہی ہے۔ جدید علوم حاصل کرنے والے دین سے دور ہو رہے ہیں اور مدرسوں میں پڑھنے والوں کو غیر ترقی پسند سمجھتے ہیں۔ جب کہ دوسری طرف مذہبی اداروں میں علوم حاصل کرنے والے ملکی نظم و نسق میں کوئی نمایاں کردار ادا کرنے کے قابل نہیں ہوتے اور کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے والے طالب علموں کو مذہب بیزار سمجھتے ہیں۔
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک ایسا نظامِ تعلیم تشکیل دیا جائے جو اس تفریق کو ختم کر کے دونوں طبقوں کو ملا کر دینِ اسلام اور مملکت پاکستان کی ترقی میں نمایاں کردار ادا کریں۔