ہنی مون یا گو ٹو مون
حمیراعلیم
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ ہنی مون یا گو ٹو مون۔۔۔تحریر۔۔۔ حمیراعلیم )دنیا ترقی سائنس کی منازل طے کرتے ہوئے اخلاقی و ذہنی پستی کا شکار ہوتی جا رہی ہے۔انٹرنیٹ اور شوبز کے خمیازے بھگتتے ہوئے ہم روز بروز قتل، اغواء، ریپ، ڈکیتی جیسے جرائم کی بڑھتی تعداد دیکھ رہے ہیں۔اب تو یہ حال ہو گیا ہے کہ لوگ ڈراموں میں دس فیصد ایلیٹ کی زندگی دیکھ کر تصوراتی دنیا میں رہنے لگے ہیں اور حقائق بھلا کر اسی کے حصول کے لیے اندھا دھند دوڑ رہے ہیں۔اس زندگی پانے میں خواہ ان کا ایمان جائے، حرام طریقے اپنانے پڑیں یا جان گنوانی پڑے کچھ پرواہ نہیں کرتے۔کل فیصل آباد میں ایک فیکٹری کے دیہاڑی دار مزدور نے اپنی دو ماہ ہی بیاہتا بیوی سمیت ٹرین کے نیچے آ کر خودکشی کر لی۔وجہ کیا تھی ؟ صرف اتنی سی کہ وہ ہنی مون پر جانا چاہتے تھے مگر پیسے نہ تھے چنانچہ اس نے بھائی سے ادھار مانگا۔قرین قیاس ہے وہ بے چارہ بھی مزدور ہی ہو گا۔لہذا وہ اس ‘ اہم فریضے’ کے لیے فنڈز مہیا نہ کر پایا۔نتیجتا دو لو برڈز نے خودکشی کر کے اس سے انتقام لے لیا۔
1400 سال پہلےبحیثیت مسلم امہ اللہ نے ہماری گردنوں سے رسوم و رواج کے طوق اتار کر ہمیں آزاد کروایا تھا۔زندگی آسان بنائی تھی مگر ہم نے غیر مسلم اقوام کی تقلید میں خود کو پھر سے ان کا غلام بنا لیا ہے۔اگر ہم اپنی خوشی غمی کی رسوم و رواج کی تاریخ پڑھیں تو جان جائیں گے کہ سب غیر شرعی ہیں ان کے کرنے سے کوئی اجر فائدہ نہیں اور نہ کرنے سے گناہ یا نقصان نہیں۔لیکن خواہشات ہمیں اللہ کی نافرمانی پر اور شیطان کی فرمانبرداری پر آمادہ کر لیتی ہیں اور سارے حرام کام بڑے ہی ناگزیر اورخوبصورت دکھائی دیتے ہیں۔نتیجہ یہ ہوا کہ دکھاوا، غیر حقیقی توقعات اور جذباتی ناپختگی نے زندگیاں نگلنا شروع کر دی ہیں۔
شادی صرف گھومنے پھرنے،ہنی مون، رومینس، نئے کپڑے، جیولری، جوتے ، فوٹو شوٹ ، مہندی، شیندی، مایوں، برات وغیرہ کا نام نہیں۔ بلکہ دو افراد کی زندگی کے ایک نئے فیز کی شروعات کا نام ہے۔اصل ہنی مون وہ ہم آہنگی، وہ محبت اور وہ باہمی احترام ہے جو ایک جوڑا اپنی نئی زندگی کے آغاز میں ایک دوسرے کو دیتا ہے۔ قرض لے کر خود کو معاشی دباؤ میں ڈال کر یا دوسروں کی دیکھا دیکھی مہنگے ہنی مون پلان بنانا، ڈیسٹینیشن ویڈنگ ، جہیز ، ایونٹس، ڈیز منانا نہ صرف بے وقوفی ہے بلکہ معاشی بدانتظامی کی بدترین مثال ہے۔ خاص طور پر جب شدید محنت کے باوجودگھر کا کرایہ، بلز،خوراک اور دیگر بنیادی ضروریات پوری نہ ہو رہی ہوں۔ ایسے میں ہنی مون پر اصرار کرنا محض خود فریبی ہے۔
یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہم ایک جذباتی طور پر ناپختہ معاشرے میں رہ رہے ہیں ۔جہاں نوجوان جوڑے یہ نہیں جانتے کہ زندگی کی اصل آزمائشیں ہنی مون کے بعد شروع ہوتی ہیں۔ اُنہیں رشتوں کی نزاکت، مالی ذمہ داریوں، اور زندگی کے اصل مسائل کا سامنا کرنے کی تربیت نہیں دی جاتی۔ تعلیم میں نہ تو جذباتی تربیت شامل ہے نہ مالی فہم۔
شوبز اور مغرب کی تقلید میں “ہنی مون” کو ایک لازمی اور خوابناک رسم بنا دیا گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی تصاویر، وی لاگز، اور ہنی مون کے لیے مقامات کی فہرستیں اس قدر لازمی جزو زندگی بنا دی گئی ہیں کہ ایک عام انسان کے لیے یہ سب کچھ فریب سے زیادہ حقیقت بن چکا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہنی مون نہ منانا کوئی گناہ نہیں اور منانا کامیاب ازدواجی زندگی اور خوشیوں کی ضمانت نہیں ۔ لیکن اسے زندگی کی سب سے بڑی ناکامی سمجھنا ذہنی بیماری کی علامت ہے۔ ایسے لوگ جو ہنی مون پر نہ جا سکنے جیسے معمولی معاملے پر اپنی جان لینے کا فیصلہ کریں ان کو سب سے پہلے نفسیاتی علاج کی ضرورت ہے، نہ کہ ترس یا سوشل میڈیا پر شہرت کی۔
ہمارے معاشرے کو ایک نئے فریم ورک کی ضرورت ہے۔ ایک ایسا فریم ورک جو لوگوں کو یہ سکھائے کہ دکھاوا اور جھوٹی شان و شوکت کے پیچھے زندگی برباد نہیں کی جاتی۔ والدین، اساتذہ، علما، اور میڈیا کو اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ وہ کس قسم کی توقعات نوجوان نسل میں پیدا کر رہے ہیں۔ محبت، عزت، اور ذہنی ہم آہنگی کو شادی کی بنیاد بنانا ہو گا۔ نہ کہ ہنی مون کے مقامات، سونے کے سیٹ، ڈیسٹینیشن ویڈنگ اور مہنگے تحائف کو۔
مہنگائی اور مالی وسائل کی کمی کے باعث ذہنی مسائل میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔اس لیےہمیں ذہنی صحت کو بھی اتنی ہی اہمیت دینی ہو گی جتنی جسمانی صحت کو دی جاتی ہے۔ ایسے افراد جو معمولی پریشانیوں میں انتہائی اقدامات کی طرف مائل ہو جاتے ہیں ان کے لیے ایسا نظام موجود ہونا چاہیے جہاں وہ بروقت امداد حاصل کر کے انتہائی قدم اٹھانے سے گریز کریں۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں ذہنی بیماریوں کے علاج کو باعث بدنامی سمجھا جاتا ہے۔ وہاں یہ ضروری ہو گیا ہے کہ ہر شخص اپنی ذہنی حالت پر توجہ دے اور اگر ضروری ہو تو ماہر نفسیات سے رابطہ کرے۔
ہر جان قیمتی ہے اور زندگی صرف ایک ہنی مون پر منحصر نہیں۔ یہ محض ایک آغاز ہے نہ کہ انجام۔ ہمیں اپنے نوجوانوں کو یہ سکھانے کی ضرورت ہے کہ کامیاب شادی وہ ہوتی ہے جو صبر، برداشت، اور سمجھوتے سے چلتی ہے۔ نہ کہ قرض پر لیے گئے عارضی لمحاتِ عیش سے۔جن کو چند گزارنے کے بعد ان کے لیے لیا جانے والا قرض اتارنے کے لیے انہیں سالوں اپنی چھوٹی چھوٹی ضروریات کا گلہ گھونٹنا پڑتا ہے۔
زندگی کو نعمت خداوندی سمجھیں اُس کی قدر کریں۔اور اس فانی دنیا کی دکھاوے کی چیزوں کو اپنی زندگی اور موت کی وجہ نہ بنائیں۔ دکھ یہ ہے کہ ہم نے ایسے حالات پیدا کیے جن میں ایک جوڑا ہنی مون نہ جا سکنے پر خودکشی کو بہتر راستہ سمجھتا ہے۔ وقت ہے کہ ہم جاگ جائیں ورنہ کل کوئی اور جوڑا، کسی اور شہر میں، کسی اور بے وقوفی کی بنیاد پر، ایک اور ناقابلِ تلافی قدم اٹھا چکا ہو گا۔
اگر کسی کو بھی کسی بھی وجہ سے ڈپریشن ہو یا خودکشی کی سوچ آئے توپلیز بجائے حرام موت مرنے کے ان نمبرز پر مفت کونسلنگ سیشن لے لیجئے۔
مائنڈ آرگنائزیشن: 35761999 042
امنگ: 4288665 0317
ٹاک ٹومی ڈاٹ پی کے: 4065139 0333
بات کرو: 5743344 0335
تسکین: 5267936 0332
روح: 3337664 0333
روزن: 22444 0800
اوپن کونسلنگ 357619 042