ایک ہوٹل والا قصہ سنا رہا تھا:
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )یہ خزاں کی راتیں تھیں، ہم ریسٹورنٹ میں رات کے کھانے کی تیاری کر رہے تھے۔ کھانے کی تیاری کے بعد اچانک زور دار بارش شروع ہوئی، آسمان سیاہ ہو گیا، بجلی چلی گئی، اور بازار کے لوگ سب جلدی جلدی بازار سے نکل گئے۔
اسی دوران جب میں ہوٹل کے کارکنوں سے بات کر رہا تھا، میں نے کچھ ایسا دیکھا جو ریسٹورنٹ کے سامنے لالٹین کی روشنی میں حرکت کر رہا تھا۔
میں نے ایک ہاتھ میں ٹارچ اور دوسرے ہاتھ میں ایک لکڑی لی، میں نے سوچا کہ کوئی چور ہے جو شاید کسی دکان کو توڑ کر چوری کرنا چاہتا ہو۔
جب میں قریب گیا اور لالٹین کی روشنی میں دیکھا تو ایک عورت نظر آئی جس کے ساتھ دو بچے تھے، وہ بہت کمزور اور تھکی ہوئی لگ رہی تھی۔
میں نے اس سے پوچھا: کیا تمہیں کسی چیز کی ضرورت ہے؟
اس نے جواب دیا: “میں اپنے اور اپنے بچوں کے لیے کھانا چاہتی ہوں، ہم بھوکے ہیں…”
میں نے اسے اپنے ہوٹل سے تیار شدہ بہترین کھانا اور کچھ پیسے دیے۔
وہ عورت زار و قطار رونے لگی۔
میں نے پوچھا: تم کیوں رو رہی ہو؟
اس نے کہا: “میرے شوہر کا انتقال ہو گیا ہے اور میں بیوہ ہوں۔ آج تیسرا دن ہے کہ میں اپنے بچوں کی بھوک مٹانے کے لیے کچھ نہیں ڈھونڈ سکی۔”
میں نے اس کی آہ و زاری سنی، اس نے کھانا اور پیسے لیے، اور یہ دعا کی:
“میرا رب تمہیں اس رات کا اجر دے، جس طرح تم نے میرے بچوں کے لیے کھانے کا انتظام کیا۔”
میں نے کہا: آمین… اور دل میں کہا: چلو، یہ رات تو ویسے بھی ضائع گئی، نقصان ہوا، مگر سب کچھ اللہ کے لیے ہے، اور میں اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہوں۔
بارش اب بھی جاری تھی، ہوا بھی چل رہی تھی، اور میں ریسٹورنٹ بند کرنے واپس آیا تاکہ پکے ہوئے کھانے کے نقصان کا حساب کروں۔
اچانک ایک بس کے ہارن کی آواز آئی جو ریسٹورنٹ کے سامنے آ کر رکی، یہ ایک مسافر بس تھی۔
بس کا ڈرائیور نیچے اترا اور پوچھا: کیا آپ کے پاس کھانا ہے؟
میں نے کہا: جی ہاں…
تو فوراً چالیس سے زائد مسافر بس سے اترے اور انہوں نے ہمارا سارا کھانا خرید لیا، بلکہ ہم نے مزید کھانا بھی تیار کیا۔
کچھ مسافروں کو تو کھانا بھی نہ ملا، انہوں نے صرف خشک روٹی کھائی۔
جب وہ چلے گئے، تو میں اپنے ہوٹل کے ملازمین کے ساتھ بیٹھا اور حساب لگایا — اس اچانک تبدیلی اور غیر متوقع منافع نے ہمیں حیران کر دیا 🤔
ایک کارکن بولا: آج آپ نے کوئی نیکی کی تھی نا؟!
مجھے اس عورت کی آواز یاد آئی جو جاتے ہوئے کہہ رہی تھی:
“اے میرے رب! آج کی رات کا اجر دے، جیسے اس نے مجھے اور میرے بچوں کو کھانا دیا۔”
میں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہوا، چاہا کہ میں اس عورت کا پیچھا کروں اور دوبارہ اس سے ملوں — مگر وہ جا چکی تھی…
رسول اللہ ﷺ کی یہ حدیث یاد آئی:
“مال صدقہ دینے سے کم نہیں ہوتا” (ما نقص مالٌ من صدقة)
اللہ تعالیٰ نے بارانی رات کو ایک عورت اور اس کے بچوں کے لیے ذریعہ بنایا،
اور ہوٹل والے کے لیے وہی رات اللہ نے خیر اور برکت کا سبب بنا دی،
جس نے عورت کی دعا کو سنا اور اس کے بدلے اسے وہ عطا کیا جو وہ سوچ بھی نہ سکتا تھا