ثواب یا گناہ
فارسی ادب سے انتخاب
ترجمہ ۔۔۔ڈاکٹر غلام مصطفی بغلانی
(قسط نمبر1)
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ ثواب یا گناہ۔۔۔ ثواب یا گناہ)حبیبہ سلطان کئی سالوں سے ہمارے گھر میں کپڑے دھوتی تھی۔ اس کا ایک بیٹا انتہائی دلچسپ تھا۔ بہت شرارتی اور شوخ، سہراب نام تھا۔ عوری کے نام سے پکارتے تھے۔ سبھی اسے پسند کرتے تھے اور ہر جگہ اس سے دل لگی اور شوخی مذاق کرتے۔ موسم خزاں کے در میانی ایام میں ایک دن جبکہ اس کی ماں سورج کی طرف منہ کر کے صابن کی جھاگ سے بھرے ہوئے تھال کے ساتھ پنجوں کے بل بیٹھ کر پسینے میں شرابور کپڑے دھونے میں مصروف تھی، سوری بلی کے ایک مریل اور کمزور بچے کو کہیں سے پکڑ لایا تھا اور اپنی ماں سے ذرا سا ادھر دو تین گز کے فاصلے پر جیسا کہ بچوں کی عادت ہوتی ہے، کھیلنے میں مشغول تھا۔ وہ اس طرح مسکین جانور کو ستار ہا تھا کہ اس کی میاؤں میاؤں کی آواز بلند ہو گئی تھی۔
اس کی ماں نے گالیاں دینا اور لعن طعن کرنا شروع کر دیا۔ جب اس نے دیکھا کہ سوری کوئی توجہ نہیں کر رہا یہاں تک کہ اس کی باتوں کا جواب دینے میں بھی گستاخ ہے۔ وہ اپنی جگہ سے کو دی اور لڑکے کو بری طرح پیٹا۔ وہ اپنے گیلے ہاتھوں کے ساتھ اور صابن آلود چھڑی کے ساتھ بچے کے سر اور کھوپڑی پر اتنی بے دردی سے مار رہی تھی کہ اگر میں مداخلت کر کے بیچ بچاؤ نہ کر تا تو اس معصوم بچے کی کھوپڑی پھوڑ ڈالتی۔ سوری بے چارہ اڑے ہوئے رنگ، بھدی، ٹیڑھی وضع قطع کے ساتھ خون آلود آنسو ناک کی غلاظت کے ساتھ مل کر اس کے منہ کے گوشے سے بہہ کر زمین پر گرتے جاتے تھے۔ بے چاری حبیبہ سلطان خود بھی پریشان ہو گئی تھی، بکھرے ہوئے ہالوں اور پھٹے ہوئے دوپٹے کے ساتھ اپنے بیٹے کے پہلو میں بیٹھی ہوئی تھی۔ روتے روتے اس کی کھنگی بندھ گئی تھی۔ خدا اور اس کی مخلوق سے سوال کر رہی تھی کہ اس سے کیا غلطی سرزد ہوئی ہے….؟ کہ ایسے حالات میں مبتلا ہے جہاں نہ کسی کو خدا کا خوف ہے اور نہ ہی نقصان کا۔
میر ادل ان کی حالت دیکھ کر پہینچ گیا، میں نے کہا، حبیبہ سلطان اس بچے کو اسکول میں داخل کیوں نہیں کروادیتی، شاید یہ انسان بن جائے۔
اس نے کہا “میرے پاس تو روٹی تک نہیں کہ میں پیٹ پال سکوں، میں کہاں سے پیسے لاؤس کہ اس حرامی کو اسکول میں داخل کراؤں۔ آپ ہی بتائیے کہ کیا میں اس بڑھاپے میں اب چوری چکاری کروں۔“
میں نے کہا میں کوشش کروں گا کہ اسے مفت داخلہ مل جائے اور تجھ پر اخراجات کا بوجھ نہ ہو۔“ جو نہی سوری مدرسہ میں داخلہ ہوا۔ اس کی حالت ہی یکسر بدل گئی، گویا اس نے آفت سے نجات پائی ہے۔ سبق پڑھنے میں مستعد، وقت کا پابند، ہوشمند اور با ادب، کبھی کبھار وہ اپنی ماں کے ساتھ ہمارے گھر آتا تھا اور اپنے اسکول کے نمبر مجھے دکھاتا تھا۔ میری بھی خواہش تھی کہ اس کی وضع قطع آبرومندانہ ہو میں نے سب کو یہ کہہ رکھا تھا کہ جب کبھی اس کی ماں کپڑے دھونے کے لیے ہمارے گھر آئے تو اسے اجرت کے علاوہ دو تین تومان اس کے بیٹے کی تعلیمی اخراجات کے الاؤنس کے طور پر دیے جائیں۔
اب سہراب اکیس سالہ نوجوان تھا، اس نے میٹرک تک تعلیم مکمل کرلی تھی اور دارالخلافہ کے دوسرے کئی نوجوانوں کی طرح سرکاری محکموں میں سے ایک میں کام کرنے لگا، تھوڑی سی تنخواہ جو کہ اس کی ضروریات کے کچھ حصے کو پورا کرتی ہر مہینہ کے شروع میں وصول کرتا۔ اس کی ماں بیمار ہے اس کے لیے جینا دو بھر ہے۔ وہ تو کپڑے دھونے کے قابل بھی نہیں رہی۔ اب اس کا واسطہ زیادہ تر ڈاکٹر، دواخانہ اور علاج سے رہتا ہے۔ سہراب کی تنخواہ کسی طرح سے بھی اس قسم کے اخراجات کو پورا نہیں کر سکتی تھی۔
سہراب کی خواہش ہمیشہ یہی رہی کہ جیسے بھی بن پڑے وہ میڈیکل کالج میں داخل ہو، لیکن جہاں بھی وہ کوشش کرتا اسے ناکامی کا سامنا کرنا ہوتا، میری کوششیں اور چارہ سازیاں بھی بے نتیجہ رہیں اور یہ خواہش اس لڑکے کے دل میں ہی رہی۔ وہ انتہائی حسرت سے آہیں بھرتا اس کی آنکھیں ڈبڈبا آئیں وہ ہفتے میں ایک دومرتبہ اس کالج کے سامنے پہنچ جاتا اور ان طالب علموں کو دیکھتا جو کہ ضحیم کتابوں کو بغل میں دہائے کالج سے باہر نکلتے تھے۔
کافی عرصہ گزر گیا۔ مجھے اس کے اور اس کی ماں کے بارے میں کوئی اطلاع نہ ملی تھی کہ اچانک یہ خبر پہنچی کہ سہراب نے ایک آدمی کو مار ڈالا ہے اور اب وہ جیل میں ہے۔ میں بہت زیادہ حیران ہوا۔ میں اس تحقیق میں لگ گیا کہ دیکھوں اصل معاملہ کیا ہے۔ میں سیدھا ان کے گھر گیا۔ گھر کا دروازہ کھلا ہوا تھا اور اس کی ماں نیم وا آنکھوں کے ساتھ جوڑ اور پیوند لگے بوسیدہ بستر پر پڑی تھی۔ جب اس کی نظر مجھ پر پڑی اس نے چنیں مار ناشروع کیں اور بلند آواز سے رونے لگی۔ معلوم ہوا کہ اسے بھی صحیح خبر معلوم نہیں تھی، اس نے اس پڑوس سے سنا کہ اس کا بیٹا رات کے وقت حاجی فتح اللہ جو کہ ان کے پڑوس میں مقیم تھا اور شہر کے نامور امیروں میں ایک تھا اس کے گھر میں کود پڑا۔ حاجی فتح اللہ کو چھری سے قتل کر دیا اور بھاگتے وقت پکڑا گیا، اب وہ قید خانہ میں پڑا ہے۔
میں نے سوچا کہ اس معاملہ کی پوری چھان بین کی جائے اور دیکھا جائے کہ یہ معاملہ شروع کہاں سے ہوتا ہے؟
پولیس میں میرے بہت سے دوست اور شناسا
ایرانی ادیب، افسانہ نگار، مزاح نگار اور مترجم
سید محمد علی جمال زاده 1892ء-19977ء
سید محمد علی جمالزاده اصفهانی ، 11 جنوری 1892ء کو اصفہان پیدا ہوئے۔ پھر آپ کا گھرانہ تہران منتقل ہو گیا۔ آپ نے تہران اور بیروت میں تعلیم حاصل کرنے کا کے بعد پھر فرانس میں قانون کی ڈگری بھی حاصل کی۔ جمالزادہ کے مقالات فارسی اور جرمنی زبان میں بے شمار ہیں۔ آپ روز نامہ”کادہ” کے مدیر بھی رہے۔ بعد میں برلن کے ایرانی سفارتخانے میں ملازم ہو گئے۔ پھر سوئٹزر لینڈ چلے گئے اور انجمن بین المللی کے دفتر میں جو جینیوا ہے اس میں تقریباً 27 سال کام کیا۔ ان کی شہرت کا آغاز اس زمانہ میں ہوا جب 1921ء میں انہوں نے اپنے افسانوں کا پہلا مجموعہ ” یکے بود و یکے نبود” شائع کیا۔ جو چھ افسانوں پر مشتمل تھا، اس کے بعد آپ کے مزید افسانوی مجموعے شائع ہوئے۔ آپ نے تاریخ و ادب اور سیاسی اور سماجی کتب بھی تحریر کیں۔ سید محمد علی جمال زادہ فارسی افسانہ نویسی میں ایک ممتاز مقام کے مالک ہیں۔
انہوں نے ہی سب سے پہلے فن افسانہ نویسی کو ایران میں شروع کیا۔ محمد علی جمال زاده ) کهنه و نو نے افسانوں میں قصوں اور لوک کہانیوں کے انداز کو چھوڑ کر حقیقت نگاری کا نیا انداز اختیار کیا ہے۔ فارسی زبان پر انہیں پوری دسترس حاصل تھی۔ اپنے افسانوں میں انہوں نے نہ صرف عام اور روز مرہ کی زبان اور محاورے استعمال کیے گئے بلکہ سیاسی اور سماجی موضوعات کے ساتھ طنزیہ پیرا یہ بھی استعمال کیا گیا۔ جمال زادہ کی کہانیوں میں پلاٹ کو مرکزیت حاصل رہتی ہے اور وہ اپنی کہانیوں کا انتقام موپاساں اور او ہینری کی طرح ڈرامائی اور چونکانے والے انداز میں کرتے ہیں۔ لیکن انھوں نے زبان کا جواند از اختیار کیا اس نے فارسی میں افسانے کے لیے جس زبان کی بنیاد رکھی وہ اب تک بر قرار ہے۔ محمد علی جمال زاده 8 نومبر 1997ء کو جینیوا سوئزرلینڈ میں انتقال کر گئے۔ زیر نظر کہانی سید محمد علی جمال زادہ کی 1959ء کے افسانوی مجموئے مہنہ و نو“ (یعنی پرانی اور نئی) میں شامل آٹھ افسانوں میں سے ایک افسانے ” ثواب یا گناہ” کا ترجمہ ہے۔
تھے۔ میں نے سہراب سے ملاقات کرنے کی اجازت حاصل کر لی۔ مجھے دیکھ کر وہ بہت خوش ہوا لیکن میرے سامنے وہ شرم کے مارے آنکھیں جھکائے کھڑا تھا۔ اس
کے ہونٹ پر کپکپی طاری تھی ایسا معلوم ہو تا تھا کہ وہ میرے سوالات کا منتظر ہے۔میں نے کہا “سہراب! میں کیا کچھ سن رہا ہوں۔۔۔جاری ہے۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ مئی 2015