ایران پر اسرائیلی حملہ
تحریر۔۔۔حمیراعلیم
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ ایران پر اسرائیلی حملہ۔۔۔تحریر۔۔۔ حمیراعلیم )مشرقِ وسطیٰ ایک بار پھر شدید کشیدگی کا شکار ہے۔ ایران اور اسرائیل کے درمیان حالیہ تناؤ نے نہ صرف علاقائی بلکہ عالمی سطح پر خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ ماہرین کے مطابق اسرائیل کی جانب سے ایران پر ممکنہ حملہ محض دفاعی قدم نہیں بلکہ ایک “چال” بھی ہو سکتا ہے، بالکل ویسے ہی جیسے ماضی میں امریکہ نے مختلف مسلم ممالک میں “دہشتگردی” یا “اسامہ بن لادن” کی موجودگی کا شوشا چھوڑ کر جنگیں مسلط کیں۔ عراق میں کیمیاوی ہتھیاروں کا جھوٹا دعویٰ ہو یا افغانستان میں القاعدہ کی پناہ گاہوں کا بہانہ یہ سب دراصل ایک بڑی حکمتِ عملی کا حصہ تھے جن کے پیچھے مسلم دنیا کو عدم استحکام کا شکار بنانا مقصود تھا۔ یہی ماڈل اب اسرائیل کے ہاتھوں ایران، شام، لبنان اور فلسطین پر لاگو ہوتا نظر آ رہا ہے۔
9/11 کے بعد امریکہ نے دنیا بھر میں دہشتگردی کے خلاف جنگ کا بیانیہ بنایا۔ سب سے پہلے افغانستان کو نشانہ بنایا گیا، جس کے بعد عراق، لیبیا، شام اور یمن اس کی لپیٹ میں آئے۔ ان حملوں کے جواز کے طور پر یا تو اسامہ بن لادن کی موجودگی کا دعویٰ کیا گیا یا پھر کیمیاوی ہتھیاروں کی افواہ پھیلائی گئی۔ نتائج نہایت بھیانک نکلے — لاکھوں جانیں ضائع ہوئیں، معیشتیں تباہ ہوئیں، اور مسلم دنیا سیاسی و سماجی لحاظ سے تقسیم ہو گئی۔ امریکہ کی اس مہم جوئی کا سب سے بڑا فائدہ امریکی اسلحہ ساز کمپنیوں اور تیل کے بڑے اداروں نے اٹھایا۔ یہی طرزِ عمل اب اسرائیل اپنا رہا ہے، جس کا ہدف ایران جیسے طاقتور اسلامی ممالک ہیں۔
حالیہ برسوں میں اسرائیل نے حماس کی مزاحمت کو جواز بنا کر فلسطین کے علاقے غزہ پر بدترین حملے کیے۔ 2023 میں حماس کے ایک بڑے حملے کے بعد اسرائیل نے غزہ پر شدید بمباری کی، جس میں اقوام متحدہ کے مطابق 35 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوئے، جن میں 60 فیصد خواتین اور بچے شامل تھے۔ اسرائیل نے ان حملوں کو “دہشتگردوں کے ٹھکانوں” پر حملہ قرار دیا، مگر نشانہ عام شہری، ہسپتال، اسکول، اقوام متحدہ کے کیمپ اور مساجد بنیں۔ اسی طرح اسرائیل نے وقتاً فوقتاً لبنان اور شام پر بھی فضائی حملے کیے، جن کا مقصد حزب اللہ اور ایرانی ملیشیاؤں کو نشانہ بنانا بتایا گیا۔ 2006 میں اسرائیل نے لبنان پر جنگ مسلط کی جس میں 1,200 لبنانی مارے گئے، اور شام میں 2011 کے بعد سے اسرائیل 200 سے زائد بار فضائی کارروائیاں کر چکا ہے۔
ایران کی حیثیت خطے میں نہایت اہم ہے — یہ نہ صرف ایک فوجی طاقت ہے بلکہ فلسطین، حزب اللہ، شامی حکومت اور دیگر مزاحمتی گروہوں کا سب سے بڑا حامی بھی ہے۔ یہی بات اسرائیل اور اس کے مغربی اتحادیوں کے لیے باعث تشویش ہے۔ ایران کے پاس مشرقِ وسطیٰ کی سب سے بڑی میزائل فورس ہے اور اس کی القدس فورس براہ راست خطے کی جغرافیائی سیاست پر اثرانداز ہوتی ہے۔ 2025 کے آغاز میں ایران نے دمشق میں اسرائیلی حملے کا بدلہ لینے کی کوشش کی، جس کے بعد اسرائیل نے ایران کے ایٹمی اثاثوں کو نشانہ بنانے کی دھمکی دی۔ اس کشیدگی نے جنگ کے خطرے کو مزید بڑھا دیا ہے۔
تاریخی طور پر اسرائیل ہمیشہ کسی نہ کسی “پری ٹیکسٹ” (pretext) کو استعمال کر کے بڑے پیمانے پر حملے کرتا رہا ہے۔ 1982 میں لبنان پر حملے کا جواز ایک فلسطینی حملہ آور کا واقعہ تھا، 2008 اور 2014 میں غزہ پر حملے کے لیے حماس کی کارروائی کو بنیاد بنایا گیا، اور 2023 میں بھی یہی بیانیہ دہرایا گیا۔ ان تمام حملوں کا نتیجہ ہزاروں عام شہریوں کی ہلاکت اور بنیادی ڈھانچے کی تباہی کی صورت میں نکلا۔ اب اسی حکمتِ عملی کے تحت اسرائیل ایران کے ایٹمی پروگرام کو بہانہ بنا رہا ہے، حالانکہ اقوامِ متحدہ کی جوہری ایجنسی (IAEA) نے اپنی متعدد رپورٹوں میں تسلیم کیا ہے کہ ایران کا ایٹمی پروگرام فوجی مقاصد کے لیے ثابت نہیں ہو سکا۔
مسلم ممالک کی اکثریت اسرائیلی اقدامات پر محض مذمتی بیانات تک محدود ہے۔ ترکی اور سعودی عرب جیسے اہم ممالک سخت زبان ضرور استعمال کرتے ہیں، مگر عملی اقدامات سے گریز کرتے ہیں۔ عرب لیگ کی کارکردگی بھی محض کاغذی بیانات تک محدود رہی ہے۔ اسرائیل اس خاموشی کا فائدہ اٹھا کر ایک ایک کر کے تمام اہم مسلم ممالک کو نشانہ بنا رہا ہے۔ اس کا مقصد نہ صرف ایران کی عسکری طاقت کو کمزور کرنا ہے بلکہ خطے میں امریکی اور اسرائیلی مفادات کو تحفظ دینا، چین اور روس کے بڑھتے ہوئے اثرات کو روکنا، اور مشرق وسطیٰ پر اپنی اجارہ داری قائم کرنا ہے۔
اگر اسرائیل ایران پر کھلی جنگ کا آغاز کرتا ہے، تو اس کے اثرات پورے خطے پر مرتب ہوں گے۔ ایران کے اتحادیوں میں حزب اللہ، حشد الشعبی اور انصار اللہ شامل ہیں، جو اسرائیل تک میزائل داغنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ جنگ کی صورت میں تیل کی قیمتیں آسمان کو چھوئیں گی، یورپ کو توانائی بحران کا سامنا ہو گا، اور عالمی معیشت دباؤ میں آ جائے گی۔ اسرائیل کی یہ حکمت عملی صرف ایران کے خلاف نہیں بلکہ ایک بڑے مسلم بلاک کو عدم استحکام کی طرف لے جانے کی کوشش ہے۔
اس تمام منظرنامے کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسرائیل کا ایران پر ممکنہ حملہ محض دفاع کا قدم نہیں بلکہ ایک طویل المدتی منصوبہ ہے جس کا مقصد خطے کی طاقتور مسلم ریاستوں کو ایک ایک کر کے تباہ کرنا ہے۔ امریکہ نے جس طرح افغانستان، عراق اور لیبیا کو غیر مستحکم کیا، اسرائیل بھی اب اسی ماڈل پر عمل کر رہا ہے۔ اگر مسلم دنیا نے اب بھی اتحاد اور عمل کا مظاہرہ نہ کیا تو آنے والے برسوں میں ہر اہم مسلم ملک اسی سازش کا شکار ہو سکتا ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ محض بیانات کے بجائے عملی اقدامات کیے جائیں تاکہ اس “چاپ” کو بے نقاب کیا جا سکے اور مسلم دنیا کو مزید تباہی سے بچایا جا سکے۔