Daily Roshni News

علم ہی قوموں کی ترقی کا مخزن ہے۔۔۔تحریر۔۔۔حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب

علم ہی قوموں کی ترقی کا مخزن ہے۔

تحریر۔۔۔حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ  اگست 2019

انتخاب ۔۔۔۔محمد جاوید عظیمی نگران مراقبہ ہال ہالینڈ

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔صدائے جرس ۔۔۔تحریر۔۔۔حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب)یہ دور علم کا دور ہے۔ آنکھ کا اندھا بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا کہ موجودہ زمانے کی ساری ترقی، تحقیق اور ریسرچ کے اوپر قائم ہے۔ قوموں کے عروج و زوال کی تاریخ واضح طور پر انکشاف کرتی ہے کہ جن قوموں نے جدو جہد کر کے علمی خزانوں سے استفادہ کیا وہ ترقی کے مینار تعمیر کرتی رہیں اور جو قومیں علمی خزانوں

سے تہی دست ہو گئیں ذلت اور رسوائی ان کا مقدر بن گئی۔ چودہ سو سال پہلے زمین پر جہالت کی سیاہ چادر پھیلی ہوئی تھی۔ ہر طرف فساد برپا تھا۔ جہالت اور بربریت کی اس سے زیادہ بری مثال اور کیا ہو سکتی ہے کہ والدین اولاد کو قتل کر دیا کرتے تھے۔ بے حیائی اور فحاشی کوئی خلاف عقل بات نہ تھی۔ زمین جب فساد اور خون خرابے سے بھر گئی۔ اشرف المخلوقات نے انسانی حدود کو پھلانگ کر حیوانیت کو اپنا کر اللہ کے عطا کردہ انعام فی الارض خلیفہ “ کے منصب کو یکسر بھول گیا تو اللہ نے انسان کی  رہنمائی کے لیے اپنے محبوب بندے حضرت محمد صلی اہل علم کو مبعوث فرمایا۔

اللہ کے اس برگزیدہ مقدس اور مطہر بندے نے عجیب و غریب حیرت انگیز محدود لا محدود رنگ رنگ اللہ کی نشانیوں کو اس طرح کھول کھول کر بیان کیا کہ زمین و آسمان کی حقیقت عربوں پر عیاں ہو گئی۔ قرآن نے بتایا: ”بیشک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات اور دن کے بدل بدل کر آنے جانے میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ جو کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے ( ہر وں میں) خدا کو یاد کرتے اور آسمان اور زمین کی پیدائش میں غور کرتے (اور کہتے ہیں) اے پروردگار تو نے اس (مخلوق) کو بے فائدہ نہیں پیدا کیا۔ تو پاک ہے تو (قیامت کے دن) ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچائیو۔ [ آل عمران 190-191]

کیا انہوں نے اپنے اوپر آسمان کی طرف نگاہ نہیں کی کہ ہم نے اس کو کیو نکر بنایا اور کیونکر ) سجایا اور اس میں کہیں شگاف تک نہیں۔ اور زمین کو (دیکھو اسے) ہم نے پھیلایا اور اس میں پہاڑ رکھ دیئے اور اس میں ہر طرح کی خوشنما چیزیں اگائیں۔ تا کہ رجوع لانے والے بندے ہدایت اور نصیحت حاصل کریں۔“ [ سورة ق (50): آیت 86]

عربوں پر علم و دانش آشکار ہوگئی اور جب مسلمان علم کی تلاش میں صف بستہ ہو گئے تو علم کے متعدد شعبے ان کی تحقیقات سے نمایاں ہوئے۔ مسلمان سائنس دانوں کی، عالموں کی تحقیقات پوری امت مسلمہ کے لئے سبق آموز ہیں اور عبرت انگیز بھی۔ مغربی ممالک کی لائبریریاں آج بھی مسلمان اسلاف کی کتابوں سے بھری

قد كان الحرف

پڑی ہیں۔ یہ دانشور مسلمان ہیں جنہوں نے تحقیقات کر کے علوم کی شمعیں روشن کیں۔ مسلمانوں نے عالم میں اس وقت روشنی پھیلائی جب دنیا جہالت کی تاریکی میں ڈوبی ہوئی تھی۔ ان میں عبد المالک اصمعی، محمد بن موسیٰ الخوارزمی، علی ابن سہیل ربان الطبری، ابو القاسم عباس بن فرناس، ثابت ابن قرة، ابو بکر محمد بن زکریا الرازی، ابوالنصر الفارابی، ابوالحسن المسعودی، ابن سینا کے نام قابل ذکر ہیں جنہوں نے تحقیق و تلاش کے بعد سائنسی علوم کی بنیاد رکھی۔

عربوں سے پہلے یورپ، سائنس کا عمل دخل نہیں تھا۔ البتہ یونان میں کسی قدر علم موجود تھا۔ مسلمانوں میں علمی تحقیقات اور نئی نئی دریافتوں کی طرف رغبت پیغمبر اسلام صلی الی یم کی تعلیمات کا نتیجہ تھا۔ قرآن پاک نازل ہونے کے بعد سرزمین عرب جب علم کی روشنی سے منور ہوئی۔ اس وقت مغربی ممالک میں تہذیب و تمدن کا کوئی نشان نہ تھا۔ قرآن آیات کے انوار سے روشن دل مسلمانوں نے دنیا میں انقلاب برپا کر دیا اور دنیا کو ایک نئی تہذیب و تمدن سے آراستہ کر دیا۔ مسلم اسلاف کی لکھی ہوئی کتابوں کے تراجم ہوئے تو ان تحریروں کو یورپ میں بہت زیادہ پذیرائی ملی۔ مختلف علوم سائنس و فلکیات اور ریاضی پر لکھی ہوئی کتا ہیں چار سو سال تک وہاں کی یونیورسٹیوں کے نصاب میں داخل رہیں۔ یورپ کے مورخ اس بات پر متفق ہیں کہ عرب نہ ہوتے تو یورپ علم سے محروم جاتا۔

پانچویں اور چھٹی صدی ہجری کے بعد مسلمانوں کا علمی زوال شروع ہوا۔ امت مسلمہ قرآنی تحقیق و تنگر سے دور ہو گئی۔ اس کے نتیجہ میں مسلمان قرآن کے انوار و حکمت سے دور ہو گئے پھر یہ سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا۔ قرآنی علوم اور روحانی زندگی کی جو شمع روشن ہوئی تھی قوم نے اس کی طرف سے آنکھیں بند کر لیں۔ تسخیر کائنات جو قرآن کا عطا کردہ علم ہے اس کی طرف سے توجہ ہٹ گئی اور عالم اسلام اس شعور سے محروم ہو گیا جو چودہ سو سال پہلے قرآن نے عطا کیا تھا۔ جب کوئی قوم تفکر، تحقیق و تلاش، بصیرت و حکمت اور نور علی نور فہم و فراست سے محروم ہو جاتی ہے تو گرو ہوں اور فرقوں میں تقسیم ہو جاتی ہے اور اس کی اجتماعیت ختم ہو جاتی ہے۔ اور کہیے کہ اے خدا (اے) بادشاہی کے مالک تو جس کو چاہے بادشاہی بخش دے اور جس سے چاہے بادشاہی چھین لے اور جس کو چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلیل کرے ہر طرح کی بھلائی تیرے ہی ہاتھ ہے (اور) بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔ تو وہی رات کو دن میں داخل کرتا اور تو ہی دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور تو ہی بے جان سے

جاندار پیدا کرتا ہے اور تو ہی جاندار سے بے جان پیدا کرتا ہے۔ [ آل عمران (3): آیت 26-27] جس طرح رات اور دن طلوع اور غروب ہوتے رہتے ہیں اسی طرح اقتدار بھی اقوام عالم میں رد و بدل ہوتا رہتا ہے۔ بابل اور مصر کی تہذیبیں اپنی پوری آن بان اور شان و شوکت کے باوجود زمیں روز ہو گئیں۔ تہذیب کا آفتاب کبھی مشرق پر چھکتا تھا، پھر یونان علم و آگہی کا مرکز بن گیا۔ پھر یو نان چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم ہو کر ختم ہو گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے سلطنت روم وجود میں آگئی۔ آفتاب تہذیب پھر پوری طرح مغرب پر چپکنے لگا کچھ عرصے بعد ایران نے زندگی کی ایک نئی انگڑائی لی۔ یہاں تک کہ ریگستان عرب سے علم و عرفان کے بادل اٹھے

اور ان ان علم و عرفان کے بادلوں سے مشرق و مغرب دونوں ہی سیراب ہو گئے۔ جب مسلم قوم نے اپنا تشخص کھو دیا، اصل کردار فراموش کر دیا تو علم و آگہی ک کا سورج مغرب کی طرف لوٹ گیا۔ قوم کے افلاس کا یہ عالم ہے کہ علم و ہنر میں ہی نہیں، اپنی معاش میں بھی خود کفیل نہیں ہے۔ وہ قوم جو قرآن کو نافذ کرتی تھی معاشی اعتبار سے اتنی مفلوک الحال ہے کہ اس کی سوچ اور فکر پر بھی پردے پڑگئے ہیں۔ ہائے افسوس! مسلمان کے اندر سے غور و فکر کا پیٹرن (Pattern) نکل گیا ہے۔ مسلمان کو ذہنی، شعوری فکری طور پر ایسی راہ پر چلنے پر مجبور کر دیا گیا ہے جہاں فکر و تدبیر کا دم گھٹ جاتا ہے۔ ایک مخصوص طبقہ نے نا ہموار، نا کام اور نامر اور راستے پر مسلمان کو اس لئے ڈال دیا ہے کہ اس طبقہ کی اجارہ داری قائم رہے۔ صحیفہ آسمانی ہمیں زمین کے اندر بھرے ہوئے خزانوں اور سمندر کے اندر موجود دولت سے فائدہ اٹھانے کی ترغیب دیتا ہے، پہاڑوں کے جگر چاک کر کے ان کے ذخائر سے فائدہ اٹھانے کا درس دیتا ہے۔ مگر ہم نے خود اپنے دلوں کو زنگ آلود کر لیا ہے ، کان بند کرلیتے ہیں اور آنکھوں پر دبیز پردے ڈال لئے ہیں اور اس طرح وہ قوم جو تسخیر کائنات کے فارمولوں کی امین بنی تھی، تہی دست اور مفلوک الحال بن گئی ہے۔

دوسری اقوام نے جب اس صحیفہ کے اندر بیان کردہ اصولوں، قاعدوں مقداروں اور فارمولوں پر غور کیا تو وہ عزت دار بن گئے ، علم و ہنر کے میدان میں ممتاز مقام حاصل کر لیا۔ آج وہ ہواؤں میں محو پرواز ہیں، ان کے جہاز اور ان کی کشتیوں نے سمندر کے سینے کو چھلنی کر دیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہواؤں پر ان کی حکمرانی ہے، دریا اور سمندر ان کے زیر اثر ہیں، زمین کے اندر خزانے ان کے تابع ہیں، ہزاروں میل دور بسنے والوں کی آواز آن واحد

میں سننا اب روز مرہ کا معمول بن چکا ہے۔ یہ سب اس لئے ہے کہ غیر مسلم اقوام نے صحیفہ کائنات پر غور کرنا اور کائنات میں موجود ہر شے کی تخلیق کا راز جانا اپنے اوپر لازم کر لیا ہے۔ کیوں کہ وہ تخلیقی علم سے بے گانہ نہیں ہیں، اس لئے ترقی ان کی باندی بن کر رہ گئی ہے۔

آج ہر ترقی کا مخزن غیر مسلم ہیں اور محکومی اور مرعوبیت مسلمان کا امتیازی نشان بنادی گئی ہے۔ کیوں ؟ اس لئے کہ اسلام کے نام لیواؤں اور مسلم قوم کے دانشوروں نے شعور و آگہی اور فکر پر اپنی مصلحتوں کے پہرے بٹھا دیئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ ظلم سے فرماتا ہے: کہہ دو کہ ملک میں چلو پھرو اور دیکھو کہ اس نے کس طرح خلقت کو پہلی دفعہ پیدا کیا پھر خدا ہی پچھلی پیدائش کرے گا بیشک خدا ہر چیز پر قادر ہے۔ “ [ سورۂ عنکبوت (29): آیت 20] میا یہ لوگ اونٹوں کی طرف نہیں دیکھتے کہ کیسے (عجب) پیدا کئے گئے ہیں۔ اور آسمان کی طرف کیسے بلند کیا گیا ہے۔ اور پہاڑوں کی طرف کہ کس طرح کھڑے کئے گئے ہیں۔ اور زمین کی طرف کہ کس طرح بچھائی گئی ۔ تو تم نصحیت کرتے رہو کہ تم نصحیت کرنے والے ہی ہو ۔ “ [ سورہ غاشیہ (88): آیت 17-21]

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ  اگست 2019

Loading