ملکہ ترنم نورجہاں قصور کے ایک عام سے خاندان میں پیدا ہوئی ۔
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )ملکہ ترنم نورجہاں( اللہ وسائی) قصور کے ایک عام سے خاندان میں پیدا ہوئی پھر خداد صلاحیت اور لگن سے اپنا نام اور مقام پیدا کیا چھ سال کی عمر میں سٹیج پر گایا اور نو سال کی عمر میں پہلا فلمی گانا گایا چودہ سال کی عمر میں سپر ہٹ ہیروئن اور برصغیر کی سب سے مہنگی نامور مغنیہ اور اداکارہ بن گئی۔
۔
آفاقی کے مطابق نور جہاں اپنے بنیادوں اپنی اصلیت کو کبھی نہیں بھولی شوکت رضوی سے جب محبت ہوئی تو اپنے خاندان والوں کی مرضی کے برعکس اس سے شادی کی بعد میں جب شوکت صاحب اس کے خاندان سے فاصلہ رکھنے کے حق میں تھے تو نور جہاں کے شوہر صاحب سے اختلاف کا نقطئہ آغاز شوکت صاحب کی یہی خواہش تھی
۔
نور جہاں کے مزاج بارے قطعیت سے کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ کس طرح غضبناک ہوں اور کس پر مہربان۔ جو دل میں ٹھان لیتیں کر گزرتیں
۔
شوکت رضوی جب ہیروئن نگہت سلطانہ پر کچھ ” مہربان ” ہوئے اور یار لوگوں نے میڈم کو یہ خبر پہنچا دی تو فلم ” چن وے” کے سیٹ پر ملکہ ترنم نے ہنگامہ کھڑا کردیا مار پیٹ تک کی اور نگہت سلطانہ کو فلم سے بھی نکال دیا
۔
آفاقی کے مطابق ملکہ ترنم نے اگر سچ مچ کسی سے محبت کی تو نامور فلمسٹار اعجاز درانی تھے جس کے لئے نور جہاں نے اپنے کئی اصول تک توڑے۔ جب نور جہاں کو پتہ چلا کہ اعجاز ، فردوس پر مہربان ہیں تو نور جہاں نے اعلان کیا کہ وہ کسی ایسی فلم کے لئے نہیں گائیں گی جس میں فردوس ہیروئن ہو
۔
ہیر رانجھا میں اعجاز کی ہیروئن فردوس ہی تھی نور جہاں نے گانے سے انکار کیا اعجاز نے مالا کو قائل کیا کہ آپ اس فلم کے لئے گاؤ گی
۔
آفاقی کے مطابق مالا کی حالت غیر ہوگئی کہ اپنے اندر کیسے حوصلہ پیدا کرے کہ ملکہ ترنم کی غضبناکی کا سامنا کرے۔ بالآخر مالا چل کر میڈم کے پاس آئیں اور اجازت مانگی اس کے بعد سٹوڈیو چلی گئی ۔ یاد رہے ہیر رانجھا کے موسیقار خواجہ خورشید انور تھے
۔
جس دن ایورنیو سٹوڈیو میں پہلے گانے کی صدا بندی تھی سازندے موسیقار اور مالا سب تیار تھی کہ ملکہ کی گاڑی سٹوڈیو کے باہر رکی۔ سب دم سادھ کر بیٹھ گئے کہ اب کیا ہوگا
۔
نور جہاں اندر آئی مالا کو جانے کا اشارہ کیا آفاقی کے مطابق مالا کی جان میں جان آئی نور جہاں ہنستی ہوئی ریکارڈنگ روم میں داخل ہوئی اور خواجہ خورشید انور کو مخاطب کرکے کہنے لگی
۔
” خواجہ صاحب ہیر رانجھا کے گانے میں گارہی ہوں۔ علی سفیان آفاقی اس کو نور جہاں کی عظیم ترین شکست لکھتے ہیں جو اس نے اعجاز کی محبت میں تسلیم کی
۔
علی سفیان آفاقی کے مطابق شوکت صاحب سے علیحدگی پر نور جہاں نے اسے ترکی بہ ترکی جواب دئیے لیکن اعجاز کے معاملے میں جب ان کی علیحدگی ہوئی تو ایسا کچھ نہیں ہوا
۔
علی سفیان آفاقی کے مطابق نور جہاں جو بات دل میں رکھتی تھی وہی زبان پر لے آتی تھی
۔
فیض صاحب کی کافی عرصے بعد وطن واپسی ہوئی تو ان کے نام۔پر ایک تقریب رکھی گی جس میں ملکہ ترنم میں بھی شریک تھیں۔ کسی نے فیض صاحب سے مجھ سے پہلی سی محبت مرے محبوب نہ مانگ سننے کی فرمائش کی تو فیض صاحب نے اپنے مخصوص دھیمے لہجے میں مسکرا کر کہا ” بھئی وہ نظم تو نور جہاں کی ہوگئی ہے”
۔
اس تقریب میں ملکہ پکھراج بھی شریک تھی اس نے فیض صاحب کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ انہیں ایک عظیم شاعر اور بھائی سمجھ کر عزیز رکھتی ہیں
۔
جب ملکہ ترنم نور جہاں کی باری آئی تو اپنے مخصوص انداز میں اپنی قیمتی ساڑھی سنبھالتی ہوئی سٹیج پر آئیں فیض صاحب کو خراج تحسین پیش کرنے کے بعد کہہ دیا کہ وہ فیض صاحب کو اپنا بھائی نہیں محبوب سمجھتی ہیں
۔
پروفیسر کامریڈ Bu Ali Munawar کے قلم سے بکھرے گوہر.