بوڑھا مرد
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )میں ایک پینسٹھ سالہ پوتوں نواسوں والا مرد ہوں میں خود کو بوڑھا نہیں سمجھتا جبکہ میری آل اولاد مجھے بوڑھے کے سانچے میں مکمل فٹ کرنے کی تگ و دو میں لگی رہتی ہے۔ بڑی بہو ہر وقت مجھے پرہیزی کھانوں کی افادیت بتاتی رہتی ہے کہ” اس عمر” میں زیادہ میٹھا,نمکین,چٹپٹا کھانے کا مطلب قبر کے سرھانے کھڑے ہونے کا ہے۔ بیٹے کا جب بھی کہیں باہر جانا ہوتا ہے تو میرے لۓ رنگ برنگی قیمتی نمازی ٹوپیاں، عطر, قیمتی تسبیح یا مسواک لانا نہیں بھولتا مجھے یاد ہے آج سے چند برس پہلے اس نے میرے گھٹنوں پہ ہاتھ رکھتے ہوۓ کہا تھا “ابا جی آپ نے جتنی محنت مشقت کرنی تھی کر لی اب ہمیں اپنی خدمت کا موقع دیں آپ آرام کریں اور اللہ اللہ کریں۔ میری بیٹی جب بچوں سمیت میکے آتی ہے تو بچوں کو کہتی ہے نانا کے پاس بیٹھا کرو، بزرگوں کے ساتھ بیٹھنے سے انسان بہت کچھ سیکھتا ہے اور میں مسکرا دیتا ہوں۔ میرے بچے اچھے ہیں میرا خیال رکھتے ہیں لیکن مجھے میرے مطابق جینے نہیں دیتے یہ بات انہیں نہیں پتہ کہ انکا ایسا خیال رکھنا میرے اندر عجیب سی مزاحمت پیدا کر رہا ہوتا ہے۔ میں نے اپنی پوری جوانی انتہاٸی شرافت سے گزاری ہے (بدمعاشی تو اب بھی نہیں چاہتا)۔ ساری زندگی اپنی بیوی زہرہ اور اپنے بچوں کے ساتھ وفاداری سے گزاری انکے آرام اور سکھ چین کے لئے جوانی وقف کر دی اور آخر کار اپنے بیوی بچوں کو ایک اچھا لاٸف اسٹاٸل دینے میں کامیاب ہوا۔ اب اللہ کا دیا سب کچھ ہے۔ لیکن میرے دل کے حالات میری عمر کے ساتھ میل نہیں کھاتے میرا دل چاہتا ہے میں اپنی زہرہ کا ہاتھ پکڑے ساحل سمندر پہ کوٸی رومینٹک گیت گاٶں، رنگ برنگی شرٹس پہنوں، ساحل کی ریت پہ اپنی زہرہ کے ساتھ فٹبال کھیلوں، وہ ہر کک پہ خوشی سے تالیاں بجاۓ، اسکی کلاٸیوں میں پڑی سرخ و سبز چوڑیوں کی کھنک ساحل سے ٹکراتی لہروں کی آواز سے ہم آہنگ ہوں، تو کتنا خوبصورت منظر ہو۔ لیکن وہ تو پھیکے رنگوں والی چوڑیاں پہنتی ہے۔ میں نے رنگین چوڑیاں پہننے کے لۓ کہا تو ناک سے مکھی ہٹانے والے انداز میں ہاتھ لہرایا اور جھینپ کے منہ پہ رکھ لیا کہنے لگی” اقبال ساب بڈے وارے آپکی یہ شوخیاں نری چولیں ہی لگتی ہیں” میری جوان امنگوں پے بوڑھا پوچا پھیرتے ہوۓ وہ دل ہی دل میں خود پہ فخر کر رہی ہوگی کہ اس عمر میں بھی اسکا بڈھا شوہر اسکے واری صدقے ہوا جاتا ہے۔ یہ بیویاں ہوتی ہی ایسی ہیں۔ اوپری اوپری بے نیاز اور اندر سے شکر گزار لیکن جو کام کرنے والا ہوتا ہے وہ نہیں کرتیں۔ خاوند کی باتوں کو مذاق ہی سمجھتی ہیں۔ ایک بار چاند رات پے بازار میں رنگ برنگی چوڑیاں دیکھ کے دل للچایا تو اپنی زہرہ کے لئے لے لیں گھر آیا تو سب لاٶنج میں ہی بیٹھے ملے میں نے چوڑیاں زہرہ کو دیتے ہوۓ کہا اس عید پہ یہ والی چوڑیاں پہننا وہ اس “حملے” کے لئے تیار نہ تھی بوکھلاتے ہوئے ادھر ادھر دیکھنے لگی، میری نظر بہوٶں پہ پڑی جو ایک دوسرے کو تمسخرانہ ہنسی کے ساتھ آنکھوں آنکھوں میں معنی خیز نظروں سے دیکھ رہی تھیں۔ بیٹے الگ نظریں چرا رہے تھے یعنی اب میں اپنی بیوی کو پسند کا کوٸی تحفہ بھی نہیں دے سکتا کہ میرے بچوں کو برا لگتا ہے۔ کیوں برا لگتا ہے کیا انکی ماں میری بیوی نہیں؟
یہی بات میں نے روبی سے کہی تو ہنس کے کہنے لگی اقبال صاحب ہم تو ہمیشہ سے ایسے تحفے کے منتظر ہی رہے اگلی بار دل چاہے تو چوڑیاں ہمیں بھجوادیجئے گا واللہ انکار نہ کریں گے”۔ وہ ایسی ہی ہے منٹوں میں بات کو ادھر ادھر کر کے من ہلکا کر دیتی۔ روبی میری فیسبک فرینڈ ہے۔ اسی نے دوستی کرنے میں پہل کی وہ پینتیس سالہ بینک آفیسر ہے۔ بہت پہلے والد کا انتقال ہو چکا ہے۔ اپنے چھوٹے بہن بھاٸیوں کو پڑھایا لکھایا، انکی شادیاں کیں۔ سب اپنے گھروں میں خوش آباد ہیں جبکہ وہ بوڑھی ماں کے ساتھ رہتی ہے۔ اسکی شادی کا خیال اب پرانا ہوچکا اس لئے کسی نے نہ سوچا یا شاید سوچنا نہیں چاہتے۔ ابھی ایک بیمار بوڑھی ماں کی تیمارداری کا آخری فرض اسی نے تو پورا کرنا ہے۔ کبھی کبھی فون کال پہ بھی ہماری بات ہو جاتی ہے۔ زہرہ سے بھی بات کرتی ہے وہ اسے بیٹی کہتی ہے، لیکن روبی ہمیشہ “زہرہ جی” کہہ کے پکارتی ہے۔ وہ آنٹی انکل یا اماں جی بابا جی جیسے ٹانکے نہیں لگاتی۔ یا تو خود کو” بڑی” سمجھتی ہے، یا پھر ہمیں بڈھے نہیں مانتی۔ میں اسے جب بھی شادی کر لینے کا مشورہ دیتا ہوں تو جھٹ سے کہتی ہے “آپ سا کوٸی ہو تو سوچنے میں ایک منٹ نہ لگاٶں۔ قسم سے”۔ اسکی باتوں سے اسکی پسندیدگی چھلکتی ہے لیکن میں اپنی زہرہ سے بے وفاٸی نہیں کر سکتا۔ یہ بات وہ بھی اچھے سے جانتی ہے۔
فیسبک کی دنیا ہم جیسے ویلوں کے لئے بہترین ہے۔ نماز و اذکار کے بعد کی فراغت کا بہترین حل ہے۔ ایک بار رات مجھے نیند نہیں آرھی تھی تو میں نے فیسبک کھول لی اور مصروف ہوگیا۔ میرے بیٹے نے اتفاقا دیکھ لیا کہنے لگا ابا جی یہ سب فضول کی چیزیں ہیں، رات اگر آنکھ کھل جائے تو تہجد پڑھ لیا کریں۔
لئو دسو!
منقول