Daily Roshni News

اولاد نامہ

                          اولاد نامہ

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )ھم اکثر جن مظالم کا شکار بچپن میں ھوتے ھیں ، اور دل میں ان پہ کُڑھتے ھیں ،، ٹھیک 100٪ وھی مظالم بڑے ھو کر اپنی اولاد کے ساتھ کرتے ھیں ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،

ایک وجہ یہ کہ ھم اپنے ساتھ روا مظالم کو اب بطور دلیل پیش کرتے ھیں کہ ” والدین ایسا کیا ھی کرتے ھیں ” اور اس کا ثبوت یہ ھے کہ یہ ھمارے ساتھ ھوا ھے ،اور فلاں فلاں کے سامنے ھوا ھے ،،

مگر حضور ذرا یہ بھی تو بتایئے کہ اس وقت آپ کے خیالات و جذبات اپنے والدین کے بارے میں کیا تھے ؟ آج وھی خیالات و جذبات اولاد کے بھی ھیں آپ کے بارے میں ،، پہلے دن سے بیری کے ساتھ بیر اور انگور کے ساتھ انگور ھی لگتے آ رھے ھیں تو پھر آپ کے رویئے کا پھل بھی وھی اور ویسا ھی ھے جو آپ کے ابا جی کے زمانے میں ھوا کرتا تھا ،، پھر جو کل آپ کے لئے جائز تھا اولاد کے لئے بد تمیزی و گستاخی کیوں ھو گیا ؟ آپ کا اپنے عمل کو مقدس نام دینے سے اس کا نتیجہ تبدیل نہیں ھو چاتا ، زھر ماں جیسی مقدس ھستی بھی دے تو بچے مر جاتے ھیں ،، کچھ قبر میں چلے جاتے ھیں اور کچھ چلتی پھرتی قبر بن جاتے ھیں جس میں ایک زندہ لاش دفن کی گئ ھوتی ھے ،،،،،،،،،،،،

دوسری وجہ یہ ھے کہ والدین مرنے کے بعد مقدس ھو جاتے ھیں اور ان کی غلطیاں بھی مقدس ھو جاتی ھیں ،،لہذا ھم سمجھتے ھیں کہ بچے بھی اس وقت انہیں کیفیات سے گزر رھے ھیں جن سے ھم گزر رھے ھیں ،،، ناں ناں ،، وہ ان کیفیات سے آپ کے مرنے کے بعد گزریں گے ،فی الحال تو وہ آپ کے مرنے کی دعا کر رھے ھیں کیونکہ جان چھوٹنے کی اور کوئی سبیل نظر نہیں آتی ،،،

ھم اپنے زمانے کے استادوں کے مارنے کے واقعات یوں خوشی خوشی بیان کرتے ھیں گویا کہ مارنا جائز ھو گیا ھے ،، یہ نہیں سوچتے کہ جب ڈنڈے ھمارے ھاتھ پر یا جوتے ھماری پیٹھ پر برس رھے ھوتے تھے ،تو اس وقت ھمارے خیالات اپنے استاد کے بارے میں کیا تھے ،، ؟ ھم آج کے تأثرات کو دلیل بناتے ھیں ،اور بچہ اس وقت کی اذیت میں مبتلا ھوتا ھے ،، یوں تو اے سی میں بیٹھ کر ھمیں بھی پاکستان میں بسوں اور ویگنوں میں لٹکے بندے بڑے اچھے اور Feel At Home لگتے ھیں ،مگر خود لٹکنا پڑے تو مزہ تب آتا ھے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

یہ ھماری اولاد ھے ، ھم اس کو اپنے خون پسینے کی کمائی کھلاتے ھیں ، ھم ان کے خیر خواہ ھیں ، ھم سے بڑھ کر ان کی فکر کرنے والا اس دنیا میں اور کوئی نہیں ھے اور ان کے درد کو محسوس کرنے والا بھی ھم سے بڑھ کر کوئی نہیں ھے ، اس لئے کہ یہ ھمارے ھی بدن کا حصہ اور اس کی ایکسٹینشن ھیں ،، اور ھم ان کے ساتھ جو کچھ بھی کرتے ھیں ان کے بھلے کے لئے ھی کرتے ھیں ،، گالی گلوچ اور مار پیٹ تک ان کی بہتری کے لئے ڈیپریشن میں مبتلا ھو کر کرتے ھیں ،، مگر ھم یہ سب کچھ بغیر ٹینشن بنائے بھی کر سکتے ھیں ، گالی گلوچ اور مارپیٹ کے بغیر بھی کر سکتے ھیں ،، آپ ان کو اپنے فیصلوں میں شامل کریں ،کمال کی بات نہیں کہ آپ سو روپے کا شیئر خرید کر اس اربوں کھربوں کے ادارے میں ووٹ کا حق حاصل کر لیتے ھیں وہ آپ سے ھر معاملے میں لیٹر لکھ کر آپ کا مشورہ طلب کرتے ھیں ،، مگر جو ھمارے بدن کا حصہ ھے ،جو ھمارا مستقبل ھے ھماری نسلوں کی بنیاد ھے اس کو ھم سو روپے کے شیئر جتنی اھمیت بھی نہیں دیتے ،کیا یہی ویلیو ھے ان تمام رشتوں کی جن کو میں نے اوپر گنوایا ھے ؟

ھم نے اگر کوئی کام کرنا ھے یا اولاد سے کرانا ھے ، تو اس کو ھم اس طرح بھی کہہ سکتے ھیں ،کہ یہ کام کرو ، یہ کام تم نے کرنا ھے ، یہ کام تم کو کرنا پڑے گا ، اور تیرا باپ بھی کرے گا ،ورنہ میں تیری ٹانگیں توڑ دونگا کتے دیا پُترا ،، نئیں کرنا تے نکل جا میرے گھر سے تم سے یہ کتا اچھا ھے جو میرا وفادار تو ھے ،،، تمہیں کھلانے سے تو بہتر ھے کُتے کو ڈال دیا جائے کوئی ثواب تو ھو،،

اور اس کو ھم یوں بھی کہہ سکتے ھیں کہ ” کیوں جوان تیرا کیا خیال ھے ، ایسے نہ کر لیں ؟ یار تم سے ایک مشورہ کرنا تھا کہ فلاں کام کر لیں ،تیرا کیا خیال ھے کب کرنا چاھئے ؟ بیٹا تو پھولے نہیں سماتا کہ اس سے کسی کام کے کرنے نہ کرنے کے بارے میں پوچھا جا رھا ھے ، وہ کہے گا ابو جی ضرور کریں ،، یا اس کو یوں کر لیں ،اولاد سے فیصلے کرانے کی ریہرسل گھر میں شروع کرائیں تا کہ ان کو بڑے بڑے فیصلے کرنے کا تجربہ ھو، اور بڑے فیصلے کرنے کا جذبہ پیدا ھو ،، اس کو نفسیاتی طور پر دولے شاہ کا چوھا بنا کر بیوی کے حوالے کر دیتے ھو ، پھر اس کی دم پہ چک مارتے ھو کہ مرد بن ، مرد کا بچہ بن ،،، اس کو مرد کسی نے سمجھا کب تھا ؟

بشکریہ محمد حنیف ڈار صاحب

Loading