حقیقی تصوف
قسط نمبر1
تحریر ۔۔۔عامر خاکوانی
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ حقیقی تصوف۔۔۔ تحریر ۔۔۔عامر خاکوانی) تصوف کو سمجھنا قطعی طور پر مشکل کام نہیں ۔زمانہ قدیم میں بعض صوفیا نے دانستہ مشکل، اداق اور مبہم سلوب اختیار کیا، زمانے کے جبر یا معاصر علما کے حسد اور تنقید سے بچنے کے لئے شاید ایسا کیا گیا۔آج ایسا نہیں ہے، تصوف کو سمجھنا بہت آسان ہے۔
ہمارے ہاں جن چند چیزوں کے بارے میں بدترین قسم کے مغالطے پائے جاتے ہیں، ان میں سے ایک تصوف بھی ہے۔ مغالطے بھی اس قدر شدید کہ پاکستان سے باہر مقیم ایک معروف مجدد عالم دین نے تصوف کو متوازی دین قرار دے ڈالا۔ بظاہر یہ ایک بے ضرر سا جملہ ہے کہ تصوف دین (یعنی اسلام) کے متوازی سکول آف تھاٹ ہے۔ اس کا مطلب مگر یہ ہے کہ اہل تصوف کا اسلام سے کوئی تعلق نہیںاور وہ عملاً اسلام کے مقابلے میںکھڑے ہیں۔ یہ ایک ایسی خوفناک تکفیر ہے جس کی مثال ملنی مشکل ہے۔ بیک جنبش زبان اتنے بڑے سکول آف تھاٹ کو دین سے نکال باہر کرنے کی جسارت، جس سے لاکھوں کروڑوں لوگ وابستہ ہیں اور ماضی میں امت کے بہترین دماغ اور غیر معمولی تقوے اورکردار والی شخصیات جس کے ساتھ جڑے رہے۔ مزے کی بات ہے کہ یہ سب کچھ انتہائی معصومیت اور سادگی سے کیا جاتا ہے۔ تصوف کو متوازی دین کہنے والے بھی ایک لحاظ سے تکفیری ہی ہیں، مگر اپنے جدید علم کلام، معتدل وضع قطع اور بظاہر سادہ بے ضرر جملوںکی ڈھال بنائے وہ شدت پسندی کے الزام سے بچ نکلتے ہیں۔
تصوف کو سمجھنا قطعی طور پر مشکل کام نہیں۔ زمانہ قدیم میںبعض صوفیا نے دانستہ مشکل، ادق اور مبہم اسلوب اختیار کیا، زمانے کے جبر یا معاصر علما کے حسد اور تنقید سے بچنے کے لئے شاید ایسا کیا گیا۔ آج ایسا نہیں ہے، تصوف کو سمجھنا بہت آسان ہے۔ عہد جدیدکے صوفیا کرام نے بات الجھانے کے بجائے نسبتاً کھول کر بیان کی۔
ڈکشن جدید استعمال کی اور پڑھے لکھے ذہنوںکو بات سلیقے سے سمجھائی۔ واصف علی واصف سے پروفیسر احمد رفیق اختر تک اور پھر لا ہور کے صوفی بزرگ سید سرفراز اے شاہ صاحب نے تو کمال کر دیا۔ سرفراز شاہ صاحب کی تصوف پر پچھلے چند برسوں میں پانچ کتابیں شائع ہوئی ہیں (کہے فقیر، فقر رنگ، فقیر نگری، لوح فقیر اور ارژنگ فقیر۔) اس اخبارنویس کی طالب علمانہ رائے کے مطابق تصوف کی جدید تاریخ میں ان سے بہتر کتابیںنہیں لکھی گئیں۔ طرز تحریر انتہائی سہل، رواں اور دلچسپ جبکہ ایسے ایسے نکتے باتوں باتوں میں شاہ صاحب نے بیان کر دیے کہ آدمی دنگ رہ جاتا ہے۔ میری درخواست ہے کہ تصوف سے دلچسپی رکھنے والے تو ان کتابوں کو ضرور پڑھیں۔ لاہور ہی کے ایک پبلشر نے یہ پانچوں کتابیں شائع کی ہیں۔ تصوف کو ناپسند کرنے والے یا اس کے خلاف چارج شیٹ مرتب کرنے کے خواہش مند بھی علمی دیانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک بار انہیں پڑھ ضرور لیں، پھر جی چاہے اور ذہنی تعصبات تحلیل نہ ہو سکیں تو ضرور تنقیدکا شوق پورا کریں۔
تصوف کو رد کرنے کے لئے جن دو باتوں کا سہارا لیا جاتا ہے، انہیں سمجھنا قطعی طور پر دشوار نہیں۔ یہ کہ تصوف دوسرے مذاہب میں بھی ہے، یہ یونانی فلسفے کا حصہ ہے، صوفیا نے یونانی فلسفیانہ روایت کو استعمال کیا، بعض صوفیا جیسے شیخ محی الدین ابن عربی اور بعض دوسروں کے کچھ اقوال اور واقعات کا سہارا لے کر تصوف اور صوفیوں کو مرزا غلام احمد قادیانی جیسے جھوٹے اور جعلی نبوت کا دعوے کرنے والے سے تشبیہ دینا… یہ سب مغالطے ہی ہیں، جن کا ایک حلقہ شعوری یا لاشعوری طور پر اسیر ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ تصوف سے مراد اسلامی تصوف اور صوفیا کی علمی روایت ہی ہے۔ جب ہم تصوف کی بات کرتے ہیں تو ہمارے ذہن میں مسلمان صوفی ہی آتے ہیں۔خاص کر پاکستانی تناظر اور اردو زبان کی علمی روایت میں کبھی کوئی یہ نہیں کہتا کہ ہندو صوفی یا عیسائی اور یہودی صوفی۔ ہاںروحانیت کی اصطلاح غیر مسلم مذاہب کے لئے بھی استعمال کی جاتی ہے۔ تبتی لاما، ہندو جوگی، یہودی ربی، عیسائی راہب وغیرہ۔ یہ بھی ایک مغالطہ ہی ہے کہ تصوف یونانی فلسفے سے مستعار لی گئی فکر ہے۔ تصوف کے ابتدائی بزرگوں میں خواجہ حسن بصریؒ کانام آتا ہے۔ اس زمانے میں کون سا یونانی فلسفہ ترجمہ ہوچکا تھا یا پھر حضرت کس قسم کے یونانی فلسفے کا۔۔۔جاری ہے۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ ستمبر2016