نام بدلا ہے کام وہی پرانا ہے۔
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )پہلے زمانے میں جب عورت صرف ایک مخصوص بازار میں بکا کرتی تھی تب کوٹھے کو چلانے والی ایک ادھیڑ عمر کو یہ فکر لاحق رہتی کہ اسکی جوانی تو ختم ہوچکی اب اگر اسکے ماتحت نوجوان لڑکیوں نے جسم فروشی نہ کی تو وہ تو بھوکی مرجائے گی یہی سوچ ہمیشہ اسے لاحق رہتی …
پر اب تو منظر ہی بلکل الگ ہے… جس عورت کی بازار میں قیمت پانچ سو بھی نہ لگے …وہ مہنگے موبائل کے فلٹر سے خود کو سوشل میڈیا پر پیش کرکے لاکھوں کمارہی ہے۔
(بہت معذرت کیساتھ) جس عورت کی شکل صورت ہیئت جسمانی ساخت سے کراحت لاحق ہو وہی عورت آج ٹک ٹاک پر ننگ دھڑنگ ہوکر ہوسی مردوں کے جذبات برانگیختہ کرکے ڈالرز کمارہی ہے۔
جن کے آگے پیچھے کوئی نہیں… نہ ماں باپ ہیں نہ ہی کوئی حسب نسب … یا پھر باغی اولاد بنکر وہ آج لاوارث ہیں۔
ایسے لوگ معاشرے کیلئے ناسور واقع ہورہے ہیں انکا قلع قمع کون کرے گا۔؟؟
شارٹ ریلز میں تھرکتے جسم… مخصوص اعضاء ستر کی نمائش
جن مسلمانوں کے ایمان کو مال نے برباد نہیں کیا وہ مفت میں گناہ بے لذت کا شکار ہوکر ایمان سے محروم ہورہے ہیں۔
اس وائرس کا علاج ضروری ہے، فورا ضروری ہے نہایت ضروری ہے….
عورت کو بازار میں بکنے کی چیز نہیں اسلام نے عورت کو ایک مقام دیا ہے…
عورت پر شہوت کی نگاہ ڈالنے سے پہلے سر عام اس سے نکاح کیا جائے… اسے ایک مکان دیا جائے… اسکی ضرورتوں کا انتظام کیا جائے… تب جاکر بوقت ضرورت وہ مرد عورت پر واقع ہوسکتا ہے۔
اسلام یہ نہیں کہتا کہ عورت مظلوم ہے بس اتنا کہا ہیکہ عورت کمزور ہے۔
آجکل کی عدالتیں عورت کو بس مظلوم جانتی ہیں اور اسی کارن خلع کی صورت میں عورتوں کو ساری زندگی زنا پر لگا دیا ہے۔
عورت کے حقوق کے نام پر عورت کو ایک برینڈ بناکر اسے مارکیٹ میں فروخت کیلئے ہی پیش کردیا…
ثناء یوسف ، سامعہ حجاب جعفری ، ڈولی ، مناہل ملک ، سسٹرلوجی
ان گنے چنے ناموں کو دیکھ لیں… آپکو اچھے سے سمجھ آجائے گی کہ ملک پاکستان میں ہماری بیٹیوں کیساتھ کس طرح کی برین واشنگ کی جارہی ہے۔
دھیرے دھیرے مظلومیت سے شروع ہوکر اسے آزادی دلانے والی نام نہاد انسانی حقوق و حقوق نسواں کے نام پر بنی تنظیمیں
عورت کو مرد کی رکھیل بناکر چھوڑنا چاہتی ہیں۔
جہاں مرد ریلیشنز تو قائم کرسکتا ہے لیکن نکاح نہیں
عورت خود مختاری کے نام پر گھر کی قید سے نکل تو سکتی ہے
پھر کبھی گھر نہیں بسا سکتی…
غرض طوائف کے نام کو معیوب سمجھنے والی یہ قوم دھوکہ نہ کھائیں آجکل طوائف خود کو سر بازار انفلونسر کہلانا پسند کرتی ہے۔
نام بدلا ہے کام وہی پرانا ہے۔