Daily Roshni News

یوسف اور طلسمی شہر کی جستجو –

یوسف اور طلسمی شہر کی جستجو –

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )ناظرینِ کرام اور داستانوں کے دلدادہ سننے والو! اگر تمہارے دل میں تجسس کی آگ ہے اور کان سننے کو بے چین ہیں تو آؤ، میں تمہیں ایک ایسی کہانی سناؤں جس کی جڑیں بغداد کی خاک میں ہیں، مگر شاخیں آسمان کے پراسرار طلسم تک جاتی ہیں۔

یہ وہی بغداد ہے جس کی گلیاں علم و حکمت سے جگمگاتی تھیں۔ کارواں قافلے مشرق و مغرب کو ملاتے تھے، بازاروں میں تاجر اپنے سامان کی آواز لگاتے، اور حکیم اپنی دکانوں میں کتابیں بیچتے۔ لیکن شہر کے کنارے پر ایک ایسا کتب خانہ بھی موجود تھا، جسے لوگ بھول چکے تھے۔ اس کے در و دیوار پر وقت کی دھول جم چکی تھی، اور چھتوں میں کبوتر اور چمگادڑوں نے گھر بنا رکھا تھا۔

کہتے ہیں، یہ کتب خانہ کسی زمانے میں خلیفہ کا تھا، مگر وقت کے ساتھ اجڑ گیا۔ اب وہاں صرف وہی لوگ جاتے جو کتابوں میں چھپے رازوں کو تلاش کرنے کے شوقین ہوں۔

انہی دنوں بغداد کے نواح میں ایک غریب چرواہا رہتا تھا۔ اس کا نام یوسف تھا۔ یوسف کی زندگی سادہ تھی—دن بھر بھیڑ بکریاں چرانا، رات کو کھجور اور دودھ پر گزارہ کرنا۔ اس کے کپڑے بوسیدہ تھے، مگر دل میں ایک شعلہ جلتا تھا۔ وہ خواب دیکھتا تھا کہ ایک دن بڑا تاجر بنے گا، دنیا کی سرزمینوں پر قافلے لے جائے گا، اور اپنی ماں کو خوشحالی دے گا۔

یوسف کی ماں بوڑھی اور کمزور تھی، لیکن بیٹے کے خوابوں کو سن کر ہمیشہ دعا دیتی۔ وہ کہا کرتی:

“بیٹا، دولت کمانا برا نہیں، مگر یاد رکھنا کہ سچائی اور ایمان سب سے بڑی دولت ہیں۔”

 پرانا کتب خانہ اور پراسرار کتاب

ایک دن یوسف اپنی بکریاں بیچنے بغداد کے بازار آیا۔ شام ڈھل رہی تھی، اور آسمان پر سرخی پھیل رہی تھی۔ یوسف کا دل بوجھل تھا کیونکہ منڈی میں لوگ کم بھاؤ لگاتے تھے۔ تھکا ہارا وہ شہر کے پرانے حصے میں نکل گیا۔ وہاں ویران گلیوں میں ہوا سنسناتی تھی۔ اچانک اس کی نظر ایک بوسیدہ دروازے پر پڑی جس پر لکھا تھا: دار الکتب۔

یوسف اندر چلا گیا۔ اندھیرا اور بوسیدگی چھائی ہوئی تھی۔ لکڑی کی الماریوں میں دھول جمی تھی، اور پرانی کتابوں کی خوشبو فضا میں بسی ہوئی تھی۔ وہ یونہی کتابوں کے اوراق پلٹ رہا تھا کہ اچانک ایک پرانی، زرد جلد والی کتاب اس کے ہاتھ لگی۔ کتاب کے اوراق پھٹے ہوئے تھے۔ اس نے جیسے ہی صفحے پلٹے، ایک کاغذ زمین پر گر پڑا۔

وہ ایک پرانا نقشہ تھا۔ کاغذ پر عجیب و غریب علامات بنی تھیں: ایک دریا، ایک پہاڑ، ایک اندھی غار، اور آخر میں ایک شہر جس کا نام لکھا تھا: زرنگار۔

نقشے کے کنارے پر الفاظ درج تھے:

“جو سچ بولے گا وہ دریا پار کرے گا۔ جو خاموشی کا راز سمجھے گا وہ پہاڑ سر کرے گا۔ اور جو اپنی کمزوری پہچانے گا وہ زرنگار میں داخل ہوگا۔”

یوسف نے پڑھا تو اس کا دل زور سے دھڑکا۔ وہ سمجھ گیا کہ یہ محض کہانی نہیں، بلکہ قسمت کی پکار ہے۔

 سفر کا آغاز

اگلی صبح یوسف نے اپنی بکریاں بیچ ڈالیں۔ جو پیسے ملے، ان سے کچھ خشک راشن خریدا، ایک پانی کی مشکیزہ اور ایک مضبوط لاٹھی لی۔ ماں کے قدم چومے، دعائیں لیں، اور سفر پر نکل کھڑا ہوا۔

راستہ سنسان اور لمبا تھا۔ کبھی جنگل آتا، کبھی صحرائی میدان۔ کئی دن چلنے کے بعد یوسف ایک چھوٹے گاؤں پہنچا۔ یہاں کے لوگ اجنبی سے بات کرنے میں جھجکتے تھے۔ لیکن گاؤں کے کنارے ایک پرانا درخت تھا، جس کے نیچے سفید ریش بزرگ بیٹھے تھے۔

یوسف نے سلام کیا۔ بزرگ نے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا اور بولے:

“اے نوجوان! تو کہاں کا ارادہ رکھتا ہے؟ تیری آنکھوں میں شعلہ ہے مگر تیرا دل الجھا ہوا ہے۔”

یوسف نے گھبرا کر کہا: “بابا! میں زرنگار شہر کی تلاش میں نکلا ہوں۔ کیا آپ کو اس کا علم ہے؟”

بزرگ مسکرائے اور بولے:

“زرنگار تک پہنچنے والا وہی ہے جو تین آزمائشوں سے گزرے۔ لیکن یاد رکھ، ہر آزمائش تیرے دل کے اندر چھپی ہے، نہ کہ باہر۔”

یوسف نے ادب سے پوچھا: “بابا! پہلی آزمائش کیا ہے؟”

بزرگ نے کہا: “طلسمی دریا… وہاں سچ اور جھوٹ کا فرق جانچا جائے گا۔ دریا کا پانی جھوٹے کو پتھر بنا دیتا ہے اور سچے کو راستہ دے دیتا ہے۔”

یہ کہہ کر بزرگ نے اپنی جیب سے ایک چھوٹا سا تعویذ نکالا اور یوسف کو دیتے ہوئے کہا:

“یہ تعویذ تجھے حوصلہ دے گا، مگر کامیابی صرف تیرا کردار طے کرے گا۔”

 طلسمی دریا کا کنارا

چند دن کے سفر کے بعد یوسف طلسمی دریا کے کنارے پہنچا۔ دریا کی لہریں نیلگوں آگ کی مانند چمک رہی تھیں۔ ہوا میں سرگوشیوں کی آواز تھی، جیسے دریا خود باتیں کر رہا ہو۔

یوسف نے دل ہی دل میں کہا: “اگر یہ میری آزمائش ہے تو میں سچ ہی بولوں گا، چاہے جو ہو۔”

اسی لمحے دریا کے بیچ سے ایک عجیب منظر ابھرا۔ پانی کی سطح پر روشنی کا پُل سا بن گیا۔ اور ایک آواز گونجی:

“اے مسافر! بتا، تو زرنگار کی تلاش کیوں کر رہا ہے؟”

یوسف کے دل میں لالچ بھی تھا اور ڈر بھی۔ اگر وہ کہہ دیتا کہ “میں دولت چاہتا ہوں”، تو یہ اس کی کمزوری تھی۔ مگر اس نے ماں کی نصیحت یاد کی۔ اس نے بلند آواز میں کہا:

“میں زرنگار کی تلاش میں نکلا ہوں تاکہ اپنی ماں کو سکون دے سکوں، اور اپنے خواب پورے کر سکوں۔ مگر میرا اصل سہارا میرا ایمان ہے۔”

یہ سنتے ہی دریا پرسکون ہو گیا۔ پانی دو حصوں میں بٹ گیا اور یوسف کے لیے راستہ بن گیا۔

یوسف کا دل خوشی سے بھر گیا۔ وہ دریا کے پار پہنچ گیا۔ لیکن جیسے ہی وہ آگے بڑھا، اس نے دیکھا کہ سامنے ایک پہاڑ کھڑا ہے—بلند و خاموش، جیسے صدیوں سے کسی راز کا پہرے دار ہو۔

 قسط کا اختتام

یوسف نے پہلی آزمائش پار کر لی، مگر ابھی سفر ختم نہیں ہوا۔ آگے خاموش پہاڑ اس کا منتظر ہے، جہاں ہر جھوٹ بولنے والے کی آواز پتھر بن جاتی ہے۔ اور اسی پہاڑ کے دامن میں یوسف کی ملاقات ایک ایسی ہستی سے ہونے والی ہے جس کا وجود اس کے سفر کا رخ بدل دے گا…۔

اگر آپ اگلی قسط پڑھنا چاہتے ہیں تو کمنٹ میں لنک پر کلک کریں

Loading