Daily Roshni News

روحانی انسان

روحانی انسان

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )اس نام کے آتے ہی ذہن میں ایسی شخصیت کا تصور ابھرتا ہے جو کہ وضع قطع کے لحاظ سے ، انسانوں سے جدا ہوتا ہے….. جو عام لوگوں کے خیالات کے مطابق چنکی بجاتے میں مسائل حل کر دیتا ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں ہو تا …. راہ تصوف کے مسافر کا تخیل لا محدود اور شعور بہت ہی بلند ہوتا ہے۔ عشق طریقت وہ آگ ہے جس میں پہچنے کے بعد انسان کندن بن جاتا ہے اور ایسے ہی انسان تصوف کی دنیا میں “الی الله” یا “روحانی انسان“ کہلائے جاتے ہیں۔

کائنات کے کارزاروں سے قریب …. قریب ہر شخص آگاہ ہو تا ہے اور اس کا اظہار ہر کوئی اپنے اپنے طریقہ سے کرتا ہے…. مصور تصویروں میں رنگ بھرکر…. نقاد اپنی تحریروں کے ذریعے…. اور شاعر جس کا تعلق بر اور است جذبات سے ہوتا ہے جب شعر کہتا ہے۔ تو اپنے تخیل کی رنگینیاں بکھیر دیتا ہے… لیکن جب روحانی انسان اپنے لبوں کو جنبش دیتا ہے تو قدرت کے مخفی رازوں سے پردہ اٹھتا چلا جاتا ہے اور عقل حیران رہ جاتی ہے …. کہ ہم جیسا انسان …. ہماری دنیا سے بالا کسی اور ہی جہاں کی منظر کشی کر رہا ہے۔

روحانی انسان کو نظر کی گہرائی پروان چڑھاتی ہے …. مشاہدہ کی ہمہ گیری اور ماحول کی آفرینی اس کے شعور کو جلا بخشی ۔ اور پھر… شدت احساس روحانی انسان“ کو تخلیق کرتی ہے۔ تاریخ انسانی میں دو گروہ پائے جاتے ہیں…. ان میں سے ایک کے نزدیک کائنات کی حقیقت “روحانی ہے جبکہ دوسرے کے نزدیک ماری ہے …. پہلے گروہ کے نزدیک “روح” مقدمہ ہے اور مادہ اس کی ثانوی پیدوارا ہے …. دوسرے گروہ کے نزدیک گاردہ مقدمہ ہے اور روح مادہ کی لطیف شکل ہے . پہلے گروہ کے نزدیک “روح” مادے سے پہلے وجود رکھتی ہے…. جبکہ دوسرے گروہ کے نزدیک “مادہ ” روح سے پہلے وجو د نہ رکھتا ہے اور روح کے فنا ہونے کے بعد بھی وجود رکھتا ہے۔ یہ دونوں گروہ اس کائنات کے بارے میں الگ الگ خیالات رکھتے ہین …. مادہ پرستوں کا خیال ہے کہ یہ کائنات ہمیشہ سے ہے….. ہمیشہ سے تھیاور ہمیشہ رہے گی۔ جبکہ روحانی لوگوں کا کہنا ہے….. کہ ایک وقت تھا کہ یہ کائنات نہیں تھی پھر ایک وقت آئے گا۔ جب یہ کائنات نہیں رہے گی۔ اسی طرح “حیات کے بارے میں ان دو گروہوں میں شدید

اختلاف پایا جاتا ہے….. روحانی نظریے کے مطابق حیات انسانی ” موت کے بعد بھی قائم رہتی ہے…. اور مادی نظریے کے مطابق موت حیات کے سلسلہ کو ختم کر دیتی ہے اور بس پھر کچھ نہیں ہوتا…. اس لیے اس کا مقصد د صرف اور صرف ….. دنیاوی زندگی سے غرض کائنات و حیات پر چھوٹے بڑے مسئلے سے متعلق یہ دونوں گروہ مختلف نظریات …. تصورات اور عقیدہ رکھتے ہیں…. اور تاریخ کے ہر دور میں یہ ایک دوسرے کے مخالف رہ ہیں …. دونوں نے اپنے اپنے دور میں بڑے بڑے اہل حکمت اور مفکر پیدا کیے ہیں…. اور اپنے اپنے موقف کی حیامت میں دلائل دیتے رہے ہیں۔

انسان کا مذہب سے چولی دامن کا ساتھ ہے.. اور جو شخص مذہب سے تھوڑا بہت بھی تعلق رکھتا ہے وہ جانتا ہے …. کہ روحانیت” مذہب کی بنیاد ہے…. دنیا کا ہر مذہب “طلب الہی” کا درس دیتا ہے اور اس کے جدا جدا طریقے بتاتا ہے…. طلب الہی انسان کو مذہب سے جدا نہیں ہونے دیتی۔ اب یہ انسان پر منحصر ہے کہ وہ اللہ سے کیا مانگتا ہے…. اس کی ذات طلب کرتا ہے۔ یا دنیاوی آسائشیں …. انسان جو کچھ بھی چاہتا ہے …. اللہ اسے دیتا ہے لین جب کوئی بندہ اس سے اس کی ذات طلب کرتا ہے یا اس کے دیدار کا طلب ہوتا ہے تو پھر اسے آزمائشوں سے گزرنا پڑتا ہے… یہ تمام وہ آزمائشیں ہوتی ہیں جن سے اگر انسان ثابت قد دم رہے۔ تو بآسانی گزر سکتا ہے… ان تمام آزمائشوں کے دوران آتش عشق” بھڑکتی رہتی ہے…. اور روحانی انسان اس آگ میں سلگتا رہتا اللہ خود حسین و جمیل ہے۔ اس کائنات کے ذرد …. فرد … میں اس کا حسن پنہاں ہے …. یہی وجہ ہے اس کے طلب گار کائنات کی ہر شے سے عشق کرتے ہیں…. روحانی انسان عشق کی عظمت کو مانتا ہے۔ پھر بھی اسے حسن کی فکر دان گیر رہتی ہے… کیونکہ وجدانی طور سے اسے معلوم ہوتا ہے کہ حسن پر سوائے عشق کے کوئی ار حکمرانی نہیں کر سکتا … حسن اپنے عاشق سے بڑے ہی ناز و نیاز اور تکبرانہ انداز سے اٹکھیلیاں کرتا ہے۔ لیکن اس کی چاہت کا جذبہ بھی صادق اور شدید ہوتا ہے…. کہ بالآخر وہ خود اپنا سر نیاز سے عاشق کے سامنے جو کا دیتا ہے اور یہی روحانی انسان کی معراج ہے… پھر عاشق اور معشوق کے درمیان طالب و مطلوب کا رشتہ قائم ہو جاتا ہے…. تمام حجاب کے پردے ہٹ جاتے ہیں۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ  ستمبر 2016

Loading