Daily Roshni News

ویسکیولر کارڈیک اریسٹ۔۔۔ تحریر۔۔۔حمیراعلیم

ویسکیولر کارڈیک اریسٹ

تحریر۔۔۔حمیراعلیم

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ ویسکیولر کارڈیک اریسٹ۔۔۔ تحریر۔۔۔حمیراعلیم )عمر شاہ ایک خوبصورت بچہ جو کہ اپنے بھائی کے ساتھ ٹی وی پر آیا اور اپنی معصومیت کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں گھر کر گیا۔اس کی اچانک موت نے اس کے مداحوں کو سوگوار کر دیا۔اللہ تعالٰی اس کے خاندان کو صبر جمیل عطا فرمائے اور اسے جنت کے باغوں میں جگہ عطا فرمائے۔عمر شاہ کی موت ویسکیولر کارڈیک اریسٹ کے سبب ہوئی۔

کل کسی خاتون کی پوسٹ نظر سے گزری جس میں انہوں نے یہ لکھا تھا کہ بچے ماں کے ڈر سےالٹی روک لیتے ہیں۔عمر شاہ نے بھی والدہ کے ڈر سے الٹی روکی جس کی وجہ سے ان کی وفات ہو گئی۔یہ پڑھ کر حیرت ہوئی کہ اگر خاتون ذرا سا تحقیق کر لیتیں تو شایدجان جاتیں کہ اصل وجہ کیا تھی۔

حقیقت یہ ہے کہ بچے ہوں یا بڑے یہ عمل شعوری طور پر ممکن ہی نہیں۔ جب معدہ قے کو باہر نکالنے کے لیے حرکت کرتا ہے تو اسے کوئی بھی اپنی مرضی سے اندر نہیں روک سکتا۔البتہ اگر کوئی شخص نیم بے ہوش ہو یا اس کے اعصاب کمزور پڑ جائیں تو الٹی باہر آنے کے بجائے اندر رہ جاتی ہے۔

 مجھے اس بات کا اندازہ تب ہوا جب پچھلے ماہ میرے شوہر کا انتقال اسی وجہ سے ہوا۔ رات بھر انہیں بے چینی رہی صبح تین بار قے  آئی اور چوتھی قے اندر ہی رہ گئی۔ان کے بے ہوش ہونے، نبض اور بی پی بے حد کم ہونے پر ہاسپٹل لے کر گئے تو بجائے علاج کرنے کےحسب معمول ایک سے دوسرے ہاسپٹل کی طرف ریفر کیا جاتا رہا ۔ڈیڑھ گھنٹے بعد جب ایک پرائیویٹ ہاسپٹل نے ان کا علاج شروع کیا تو معلوم ہوا کہ وہ ڈیڑھ گھنٹہ پہلے ہی اس دارفانی سے جا چکے تھے۔جسے ہم سانس کی خرخراہٹ سمجھ رہے تھے ونڈ پائپ میں موجود ہوا تھی۔ویسکیولر کارڈیک اریسٹ کی وجہ سے ان کا انتقال ہو گیا۔

کسی کو شدید بیماری، بے ہوشی یا دل کا دورہ پڑتا ہے تو اکثر جسم کے ریفلکس سسٹم (reflex system) صحیح کام نہیں کرتے۔ عام حالات میں اگر کسی کو الٹی آتی ہے تو وہ قدرتی طور پر باہر نکل جاتی ہے۔ لیکن بے ہوشی یا شدید بیماری کے دوران یہ ریفلکس کمزور پڑ جاتے ہیں۔دل اور دماغ کو آکسیجن نہیں ملتی تو کارڈیک اریسٹ ہو جاتا ہے۔

ایسی حالت میں الٹی مکمل طور پر باہر نہیں نکلتی بلکہ حلق یا سانس کی نالی (airway) میں جا سکتی ہے۔ اس عمل کو aspiration کہتے ہیں۔ اگر قے پھیپھڑوں میں چلی جائے تو وہ سانس روک دیتی ہے۔ شدید آکسیجن کی کمی (hypoxia) پیدا کرتی ہے اور نتیجتاً دل مکمل طور پر بند (cardiac arrest) ہو سکتا ہے۔

فالج کا حملہ ہوتا ہے۔بروقت طبی امداد نہ ملےتوموت واقع ہو سکتی ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ یہ انسان کے اختیار میں نہیں ہوتا۔ کوئی بھی شخص جان بوجھ کر الٹی کو روک کر اپنے پھیپھڑوں میں نہیں جانے دیتا۔ یہ ایک میڈیکل اورفزیولوجیکل مسئلہ ہے جو اس وقت پیدا ہوتا ہے جب جسم اپنا دفاعی نظام صحیح طور پر استعمال نہ کر سکے۔

اس کی علامات بعض اوقات 24 گھنٹے یا اس سے پہلے شروع ہو جاتی ہیں جن میں متلی ہونا، قے آنا،سینے میں درد یا دباو، گھبراہٹ، سانس لینے میں دشواری، شدید کمزوری ،چکر آنا ، نبض ختم ہوناشامل ہیں۔

اس کی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں کسی دوا کا ردعمل، دل کا مرض، جسم میں کسی چیز کا عدم توازن پوٹاشیم،  میگنیشیم،ٹاکسنز، یا خون کا انفیکشن۔تمباکو نوشی، شوگر وغیرہ۔

اگر آپ علامات سے پہچان جائیں کہ یہ مسئلہ ہے تو سانس چیک کریں اگر مریض بے ہوش ہو تو فورا ایمبولینس کو کال کریں۔سی پی آر دیں۔بے ہوش مریض کو پوزیشن بدل کر (اگر سی پی آر نہ ہو رہا ہو) recovery position میں رکھنا aspiration کو کچھ حد تک روک سکتا ہے۔ لیکن سی پی آر کے دوران یہ ممکن نہیں ہوتا۔اسی لیے ایئر وے مینجمنٹ (airway + breathing) ایڈوانسڈ لائف سپورٹ کا بنیادی ستون ہے۔

ہاسپٹل میں فورا ائیر وے صاف کرنے کے لیے سکشن کی جائےتاکہ قے کامزید مواد پھیپھڑوں میں نہیں جائے۔ریسُسیٹیشن دیکھ بھال اور انفیکشن سے بچاؤ مریض کی جان بچانے میں مددگار ہیں۔

برانکوسکوپی، آکسیجن تھراپی اور اینٹی بائیوٹکس (جب secondary infection کا شبہ ہو) دی جاتی ہیں۔دل کی دھڑکن بحال کرنے کے لیے شاک دیاجاتا ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق دس ہزار میں سے 2 سے 6 تک بچے جب کہ سو میں سے ایک بالغ اس کا شکار ہوسکتا ہے۔پاکستان کی آبادی کے تناسب سےتقریباً 17 ہزار سے 50 ہزار بچے جب کہ  تقریباً 1.5 لاکھ سے زیادہ بالغ سالانہ کارڈیاک اریسٹ کا شکار ہو سکتے ہیں۔

  یہ تجربہ میری زندگی کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ ایک یاد دہانی بھی ہے کہ ہمیں موت اور بیماری جیسے مسائل کو جذباتی کہانیوں یا غلط فہمیوں کے بجائے حقیقت اور علم کی بنیاد پر سمجھنا چاہیے۔

   ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم سوشل میڈیائی عالم، ڈاکٹر ، ایکسپرٹ اور وکیل سب کچھ بن جاتے ہیں لیکن ذرا سی تحقیق نہیں کرتے اور ایسی پوسٹس وائرل کر دیتے ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔مانا کہ یہاں سب کو آزادی رائے کا حق حاصل ہےلیکن ہماری ذمہ داری ہے کہ جب ہم کسی حساس معاملے جیسے موت، بیماری یا حادثے پر پوسٹ لکھتے ہیں تو ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ اس کے اثرات کیا ہوں گے۔اس لیے ایسے معاملات میں طبی ماہرین سے رائے لینی چاہیے۔ایسی غلط فہمیوں کو ختم کرنے کے لیے سادہ اور عام فہم انداز میں آگاہی مہم چلائی جائے۔

عام افراد کو سی پی آر کی تربیت دی جائےاپنے بچوں اور نوجوانوں کو سچائی اور تحقیق کی اہمیت سمجھائیں۔کسی بھی حادثے پر غیر ذمہ دارانہ قیاس آرائی کے بجائے ہمدردی اوردعاکریں۔اور جیسے غلط معلومات بنا تحقیق کے وائرل کرنے کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہیں ویسے ہی کسی بھی موضوع پر تحقیق کے لئے گوگل اور دیگر سرچ انجنزکا استعمال کریں۔پھر اس موضوع پر لکھیں۔

اور اس حقیقت کو ذہن میں رکھیں کہ بیماری، حادثات صرف بہانے ہیں ورنہ جب انسان کا مقررہ وقت آ جاتا ہے تو چاہے اسپیشلسٹس کا پورا پینل، خاندان کے سب لوگ، دوست احباب اردگرد موجود ہوں کوئی بھی ہمیں ملک الموت سے بچا نہیں سکتا۔ اس لیے کبھی یہ مت کہیں کہ کاش ہم وقت پر ہاسپٹل لے جاتے، کاش ڈاکٹرز جلد علاج شروع کر دیتے۔جان اللہ کی امانت ہوتی ہے اس نے لے لی ہمیں شکوہ شکایت کا کوئی حق حاصل نہیں۔یہ یاد رکھنا ہے کہ ایک دن ہمیں بھی اسی کی طرف لوٹنا ہے۔اللہ تعالٰی چلتے پھرتے ہی روح قبض فرما لے سی کا محتاج نہیں کرے۔یہی عافیت کی موت ہے۔

اگر ایک شخص بھی اس بلاگ کے ذریعے یہ سمجھ پائے کہ “الٹی روکنا” کسی کے اختیار میں نہیں بلکہ ایک میڈیکل مسئلہ ہے۔ تو میں سمجھوں گی کہ میری محنت رائیگاں نہیں گئی۔

Loading