Daily Roshni News

فطرت کی روح

فطرت کی روح

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )میری پچھلی پوسٹ کے تناظر میں کسی نے مجھ سے پوچھا کہ ہیر رانجھا، سسی پُنوں اور سوہنی مہینوال جیسی کہانیاں کیسے اور کیوںکر  “فطرت کی روح” (Nature Spirit) رکھتی ہیں اور انہیں انقلابی کیوں کہا جا سکتا ہے؟

جیسے انگریزی شاعر ولیم  ورڈزورتھ نے کہا تھا کہ فطرت کے ذرے ذرے میں ایک وحدت ہے اور انسان کی روح اسی کا حصہ ہے۔ ہماری لوک کہانیاں اسی unity of man, nature and soul کو اپنے سادہ انداز میں بیان کرتی ہیں۔

ہماری لوک داستانیں صرف عشق و محبت کی کہانیاں نہیں بلکہ ایک ایسی دنیا کی جھلک ہیں جہاں انسان، فطرت اور روح کی وحدت قائم تھی۔  ان داستانوں میں دریا، پہاڑ، پرندے، جانور اور درخت سب جیتی جاگتی علامتیں ہیں جو انسان کے ساتھ مل کر ایک ہی نظامِ حیات تشکیل دیتے ہیں جہاں زندگی اور کائنات کا ہر جزو ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ تھا۔

ان کہانیوں میں فطرت محض پس منظر نہیں بلکہ خود ایک جیتی جاگتی کردار ہے۔ سسی کے پیروں کے چھالے ریگستان کی تپتی صحرائی ریت  سے جڑتے ہیں، رانجھے کا درد دریا کے بہاؤ میں گونجتا ہے، اور سوہنی کی جان دریائے چناب کی موجوں میں ضم ہو جاتی ہے۔ ہیر کی موت پر دریا چناب رو پڑتا ہے، زمین پھٹ پڑتی ہے ۔ سسی کی فریاد پر زمین اسے اپنی آغوش میں سمو لیتی ہے، سوہنی دریا کے پانیوں سے دوستی کرتی ہے اور انہیں اپنی مزاحمت میں شریک کرتی ہے۔ ہوایں محبت کی پیامبر ہیں ہیں اور آندھیاں ظلم و جبر کے خلاف فطرت کا بھرپوراحتجاج ۔

یہ سب اس بات کا اعلان ہے کہ فطرت کبھی ظالموں کی ساتھی نہیں بنتی، بلکہ ہمیشہ مظلوم اور محبت کرنے والوں کا ساتھ دیتی ہے۔

وارث شاہ نے ہیر رانجھا کو صرف عشق نہیں بنایا بلکہ اس کے ذریعے جاگیرداروں، قاضیوں، پنچایت اور مولویوں کے ظلم اور منافقت کو بے نقاب کیا۔ اور پوری مقامی اسٹبلشمنٹ کو چلینج کیا ۔

ہیر اور رانجھے کی معصوم محبت ایک سماجی مقدمہ بن گئی۔ اسی لیے پنجاب میں ہیر کو مقدس کتاب کا درجہ ملا۔ لوگ قرآن کے بعد گھروں میں “ہیر” پڑھتے تھے، وضو کر کے اسے سنتے تھے اور ادب سے بیٹھ کر اشعار کا ذائقہ لیتے تھے۔

اس کا مطلب یہ تھا کہ پنجاب نے محبت کو تقدیس بخشی اور ظلم کے مقابلے میں ہیر کی سائیڈ لی۔

 بغاوت اور مزاحمت

ان تینوں داستانوں کی ہیروئنز نے زبردستی کی شادی کو رد کیا:

ہیر نے ذات پات اور پنچایت کے غیر منصفانہ فیصلوں کو ٹھکرایا، سسی نے قبیلے کے جبر اور اونچ نیچ پر مبنی نظام کو  چیلنج کیا، سوہنی نے دولت ، سماجی رتبے اور زبردستی کی شادی  کو مسترد کیا، جبر پر مبنی رواجوں  پر کاری ضرب لگائی۔

یہ وہ اعلان تھا کہ اس  دھرتی کی عورت صرف مجبور اور مظلوم نہیں، بلکہ باغی، خودمختار اور اپنی تقدیر خود لکھنے والی ہے۔

پنجاب میں “ہیر” کا پڑھا جانا صرف قصہ گوئی  نہیں تھا بلکہ ایک اجتماعی روحانی تجربہ تھا۔ لوگ اپنی زندگی کے دکھ، محبت اور آزادی کی خواہش کو اس کے ساتھ جوڑتے تھے۔

ہیر عوامی شعور میں ظلم کے مقابلے میں محبت، مساوات اور فطرت کی سچائی کا استعارہ بن گئی۔ اس لیے کہا جاتا تھا کہ “ہیر” پنجاب کی قرآنی کتاب ہے، کیونکہ یہ انسان کو انسان سے جوڑتی تھی، نہ کہ ذات برادری یا اونچ نیچ۔

یوں یہ کہانیاں ایک ایسی دنیا کی یاد ہیں جہاں انسان، فطرت اور روح کی وحدت قائم تھی۔ دریا، پہاڑ، پرندے اور درخت سب انسان کے ساتھ ہم آہنگ تھے۔

یہ سب داستانیں ہمیں یہ سکھاتی ہیں کہ محبت صرف ذاتی جذبہ نہیں، بلکہ سماجی انصاف اور مزاحمت کی طاقت ہے۔ اور یہ کہ فطرت کبھی ظلم کی ساتھی نہیں ہوتی بلکہ مظلوم کا سہارا بنتی ہے۔ سب سے اہم یہ کہ ہماری روایات میں نفرت اور سٹیٹس کو کی قوتوں  کے مقابلے پر  محبت کو تقدیس ملی، اس لیے پنجاب، سندھ سمیت پورا خطہ  ہیر، سسی اور سوہنی کی سائیڈ پر تھا۔

اور یہ کہ ہماری دھرتی کی عورت اپنی مرضی اور آزادی کے لیے کھڑی ہونا جانتی تھی۔

مگر  المیہ اور بدقسمتی یہ ہے  کہ ہمیں ہماری تاریخ اور روایت سے کاٹ دیا گیا۔ وہ تہذیب جس میں ثقافتی تنوع cultural pluralism اور حقیقی humanism رائج تھے ، اس کی جگہ ایک بگڑی ہوئی شکل ہم پر مسلط کی گئی۔اسلام کے نام پر بھی جو کچھ تھوپا گیا وہ اس کی اصل روح نہیں بلکہ طاقت کے کھیل سے بگڑی ہوئی صورت تھی۔ جس نے ان داستانوں اور کرداروں پر نیی طرح کی اخلاقیات لاگو کر کے انکو فحش اور بے حیائی کے زمرے میں ڈال دیا ۔

نتیجہ یہ ہوا کہ محبت اور فطرت کی وحدت کو توڑ دیا گیا اور معاشرہ امریت اور جبر کے شکنجوں میں جکڑ گیا۔ہم وہ نہیں رہے جو تھے، بلکہ وہ بنا دیے گئے جو ہماری زمین اور تہذیب کے خمیر سے بیگانہ ہیں۔ جیسا کہ ہربرٹ مارکوز نے کہا تھا کہ اصل انسانی آزادی تب ہی ممکن ہے جب انسان، فطرت اور ایروس (محبت/تخلیقی جذبہ) ایک وحدت میں جئیں۔ مگر پرانے جاگیر داری نظام کے بعد جدید سرمایہ دارانہ دنیا نے بھی  ایروس کو دبا دیا، اور فطرت اور انسان کی مقدس وحدت کو توڑ دیا ۔  نتیجہ یہ ہوا کہ انسان اپنی تخلیقی اور محبت بھری اصل اور فطرت  سے کٹ گیا۔

Loading