صدائے جرس
تحریر۔۔۔خواجہ شمس الدین عظیمی ؒ
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ صدائے جرس۔۔۔ تحریر۔۔۔خواجہ شمس الدین عظیمی ؒ)مسائلستان:ہماری زمین مسائلستان ہے ! …. بلکہ سچ یہ ہے …. یہ دنیا مصائبستان ہے ۔۔۔مسائل و مشکلات کے سلسلے میں خواتین و حضرات، بزرگ اور جوان، نحیف، کمزور و ناتواں، بظاہر تندرست و توانا لیکن اندر سے کھوکھلے انسان میرے پاس آتے رہتے ہیں ….اللہ تعالی کی دی ہوئی توفیق کے ساتھ میں عاجز و مسکین بنده …. پریشانیوں، خوفناک بیماریوں اور ذہنی الجھنوں سے محفوظ رہنے کیلئے انہیں مشورہ دیتا ہوں …. ایک روز دو افراد ایک خاتون ایک مرد میرے پاس آئے…. انہوں نے کہا کہ ہم پریشان ہیں، غم نے ہمیں دبوچ لیا ہے، ہمیں خوفناک ڈراؤنے خواب نظر آتے ہیں، نیند ہم سے روٹھ گئی ہے، پریشانی ہمارا منہ چڑاتی ہے، بیماریاں ہمارے تعاقب میں ہیں …. ہم بنتے ہیں مگر ہماری جنسی اور مسکراہٹ مصنوعی ہے، ہم روتے ہیں لیکن ہمارے رونے سے بھی غبار دل نہیں دھانتا ….. ہم کیا کریں ؟…. کس طرح خوش رہیں ؟….
لگتا ہے کہ ہمارے دل نور سے خالی اور بغض و عناد سے بھرے ہوئے ہیں ! …. خوف اور غم کے دبیز سائے ہمیں ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہیں۔ سکون کیا ہے ؟ ہم نہیں جانتے، راحت کسے کہتے ہیں؟ ہمارے لئے ایک سوالیہ نشان بن گیا ہے ! …. آخر ہم زندہ کیوں ہیں ؟ وہ فرحت و انبساط ہمیں کیوں حاصل نہیں ہے جو ہم کتابوں میں پڑھتے ہیں اور بڑی بوڑھیوں، نانی دادی سے سنتے ہیں؟ ہم یہ سمجھتے ہیں یہ سب افسانے ہیں جو لوگوں نے خود کو مطمئن کرنے کیلئے بنا لیے ہیں …..
یہ المناک داستان سن کر میں نے ان سے کہا۔ آپ جانتے ہیں کہ ہمارے معاشرے کا رواج ہے، بلکہ ہر ملک اور ہر قوم میں یہ قانون نافذ ہے کہ ملکیت اس وقت ہوتی ہے جب اس کی قیمت ادا کی جائے۔ غربت کی وجہ سے ایک کمرے کا مکان، یا امارت کا عروج تین ہزار گز کا پلاٹ بغیر قیمت ادا کئے کسی آدمی کی ملکیت نہیں بنتا …. انسان کی زندگی میں پانی ایک اہم وسیلہ ہے۔ آپ گھروں میں پانی کے ٹینکر ڈلوائیں یا فلیٹوں کے برآمدوں میں ٹینکیاں بنوائیں یا واٹر بورڈ کو پانی کا ٹیکس ادا کریں، پانی آپ کو بغیر قیمت کے نہیں ملتا…. تاریکی دور کرنے کیلئے روشنی چاہئے ، اس روشنی کا متعارف نام بجلی ہے۔ بجلی کا ایک یونٹ بھی اگر جلایا جائے تو ہم اس کی قیمت ادا کرتے ہیں۔ اگر خدانخواستہ ہم میں سے کسی خاتون یا مرد کو آکسیجن کی ضرورت پیش آجائے تو چھتیس گھنٹوں کے استعمال کیلئے ہم ہزاروں روپے ادا کرتے ہیں …. بائی پاس سرجری کا مسئلہ در پیش ہو …. لاکھوں روپے درکار ہوتے ہیں۔ گردوں کے نظام میں خلل واقع ہو جائے Dialysis کیلئے بھی ایک خطیر رقم ہم خرچ کرتے ہیں۔ روشنی دھوپ بھی ہے ، ٹھنڈی روشنی چاندنی بھی ہے، ہم اس کے لئے ایک پیسہ خرچ نہیں کرتے۔ جس زمین پر ہم چلتے پھرتے ہیں، دفاتر اور مکانات تعمیر کرتے ہیں، وہ زمین دراصل اللہ تعالی کی ملکیت آیئے! چند سیکنڈ کیلئے اپنے اندر جھانکیں اور خود سے سوال کریں …. اس زمین کے اصل مالک اللہ تعالیٰ کو ہم نے کتنی قیمت ادا کی …. ؟ ہوا زندگی کی بنیادی ضرورت ہے، اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ابھی تک اجارہ داروں کو ہوا پر اقتدار حاصل نہیں ہوا، ورنہ ہر انسان کو سانس لینے کیلئے کبھی ٹیکس ادا کرنا پڑتا۔ ہوا کے ساتھ انسان کے اندر آکسیجن جل کر کاربن ڈائی آکسائیڈ بنتی ہے ، زندگی کا اصل ایندھن آکسیجن ہے۔ ذرا غیر جانبدار ہو کر سوچئے کہ ہوا، آکسیجن اور کاربن ڈائی آکسائیڈ جس کی وجہ سے ہم زندہ ہیں، ہم اس کا کتنا ماہانہ بل ادا کرتے ہیں ؟…. ہم پانی پیتے ہیں، ظالم انسان کی خود غرضی کی بناء پر اب ہم بوتلوں کے ذریعے پینے کا پانی حاصل کرتے ہیں۔ ایک بوتل 30 روپے کی آتی ہے۔ تقریباً چار بوتل پانی ایک آدمی روزانہ پی لیتا ہے۔ یوں ایک روز میں ایک آدمی 120 روپے کا پانی پیتا ہے اور ایک مہینے میں 3600 روپے پینے کے پانی پر خرچ کرتا ہے۔ دوسری ضروریات کیلئے پانی کا استعمال الگ ہے …. سوال یہ ہے کہ ہم اللہ تعالی کو پانی کے کتنے پیسے بھیجتے ہیں ؟ یہ انسانی ضروریات کا مختصر سا خاکہ ہے، اب انسان کے جسم کی طرف توجہ فرمائیں…. جسم ایک صندوق ہے، اس صندوق میں پھیپھڑے، دل، معدہ، آنتیں، گردے، لبلبہ، پستہ وغیرہ ایک ترتیب اور توازن سے لٹکے ہوئے ہیں، جب ہم کوئی مشین چلاتے ہیں، مشین کے کل پرزوں کو متحرک رکھنے کے لئے اس میں گریس یا آئل ڈالتے ہیں، اس میں بجلی دوڑاتے ہیں، مشینوں کو ٹھنڈا رکھنے کیلئے ائیر کنڈیشنر کا اہتمام کرتے ہیں۔ ہمیں خود سے سوال کرنا ہے کہ ہمارے اندر جو مشینری کھڑے چلتے، سوتے جاگتے، اٹھتے بیٹھتے مسلسل چل رہی ہے، اس مشین کے چلنے
میں ہم کیا کر دار ادا کرتے ہیں؟ … کتنا بل Pay کرتے ہیں ؟…. ہماری پیشانی میں دو آنکھیں ہیں۔ ہم ان آنکھوں سے دیکھتے ہیں، اگر آنکھیں نہ ہوں، ہم کچھ نہیں دیکھ سکتے۔ آنکھیں اللہ تعالی کی اتنی بڑی نعمت ہیں کہ اگر آنکھیں نہ ہوں تو دنیا کی ہر نعمت پیچ اور بے کار ہے۔ میں نے ان دونوں بچوں کو مشورہ دیا کہ آپ رات کو سونے سے پہلے یہ سوچیں کہ دن بھر میں آپ نے اللہ تعالی کی دی ہوئی کتنی نعمتیں استعمال کی ہیں۔ اس کو ایک ڈائری میں لکھیں اور ڈائری تکیے کے نیچے رکھ کر سو جائیں۔ صبح جب آپ بیدار ہوں، ایک مرتبہ کلمہ پڑھیں اور یہ سوچیں کہ اگر ہم اندھے اٹھتے تو پھر کیا ہوتا؟ … ایک ہفتے کی اس مشق کے بعد آپ اپنے حالات آکر بتائیں …. قارئین ! …. آپ یقیناً حیرت کے دریا میں ڈوب جائیں گے کہ ان دونوں بچوں نے مجھے آکر بتایا کہ ہمارے اوپر سے خوف کی دبیز چادر اتر گئی ہے، ہم خوش ہیں کہ ہم اندھے نہیں ہو گئے ، ہم خوش ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کی ہر نعمت مفت استعمال کرتے ہیں۔ میرے بچو! آپ بھی روزانہ یہ عمل دہرائیں. رات کو سونے سے پہلے اپنا محاسبہ کریں کہ آپ نے اللہ تعالی کی کتنی نعمتیں حاصل نہیں اور ان نعمتوں میں سے کتنی نعمتوں کا شکریہ ادا کیا…. ڈائری میں لکھیں … اور تکیے کے نیچے رکھ کر سو جائیں …. صبح بیدار ہونے کے بعد ایک مرتبہ کلمہ پڑھیں اور یہ سوچیں کہ اگر ہم اندھے اٹھتے تو کیا ہوتا؟ ….
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ ستمبر2017