بنو قابل پروگرام یا عوام کو سبز باغ؟
تحریر۔۔۔حمیراعلیم
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ بنو قابل پروگرام یا عوام کو سبز باغ؟۔۔۔۔ تحریر۔۔۔حمیراعلیم ) جمعہ کی سہ پہر 4 بجے کوئٹہ شہر میں الخدمت فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام “بنو قابل پروگرام” کے تحت اپٹیٹیوڈ ٹیسٹ کا انعقاد کیا گیا۔ بظاہر اس پروگرام کا مقصد نوجوانوں کو مفت کورسز کے ذریعے ہنر مند بنانا اور روزگار کے مواقع فراہم کرنا تھا۔ لیکن جب ہم حقیقت کے دوسرے پہلو پر نظر ڈالتے ہیں تو ایک مختلف تصویر ابھرتی ہے۔ جو نہ صرف عوام کے وقت اور پیسے کے ضیاع کو ظاہر کرتی ہے بلکہ سیاسی مقاصد کے حصول کا شاخسانہ بھی معلوم ہوتی ہے۔
ٹیسٹ سے پہلے تقریباً ڈیڑھ گھنٹے تک مختلف مقررین نے تقاریر کیں۔ یہ تقاریر تعلیمی یا فنی تربیت سے زیادہ سیاسی رنگ لیے ہوئے تھیں۔ جمعیت اسلامی کے نمائندگان نے حافظ نعیم الرحمٰن کی حمایت میں نعرے لگوائے، الخدمت کے لیے فنڈز دینے کی ترغیب دی اور نوجوانوں کو رضاکار بننے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ ایک خالص تعلیمی و فلاحی اقدام تھا تو اس میں سیاسی رنگ بھرنے کی کیا ضرورت تھی؟ کیا یہ عوامی خدمت ہے یا سیاسی تشہیر کا نیا انداز؟انتظامیہ کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق اس ٹیسٹ میں 13 ہزار رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ افراد سمیت مجموعی طور پر تقریباً 25 ہزار مرد، عورتیں، بچے اور بچیاں شریک ہوئیں۔ اتنی بڑی تعداد میں لوگ صرف ایک شہر سے اکٹھے ہوئے۔ مگر یہ بات ابھی تک کسی کو معلوم نہیں کہ ان میں سے کتنے افراد کو کورس میں داخلہ ملے گا۔ کورس کو “مفت” کہا جا رہا تھامگر حقیقت مختلف ہے۔
ٹیسٹ دینے والے امیدواروں کے والدین اور رشتہ دار بھی بڑی تعداد میں ساتھ آئے۔ انتظامیہ نے پارکنگ کے نام پر بھاری رقوم وصول کیں۔ 5000 موٹر سائیکلز سے فی کس 100 روپے وصول کیے گئے جو کہ 5 لاکھ روپے بنتے ہیں۔
3000 گاڑیوں سے فی کس 300 روپے لیے گئے جو تقریباً 9 لاکھ روپے بنتے ہیں۔
یوں صرف پارکنگ کے بہانے 14 لاکھ روپے کی خطیر رقم اکٹھی کی گئی۔ یہ آمدن اس ایک دن اور ایک شہر تک محدود نہیں بلکہ جب اس پروگرام کو پاکستان کے دیگر شہروں میں بھی منعقد کیا جائے گا تو یہ “پارکنگ بزنس” کروڑوں روپے کما کر دے گا۔
اس پورے پروگرام کی تشہیر کے لیے کسی بڑے بجٹ یا اخراجات کی ضرورت نہیں پڑی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ ملک بھر کے میڈیا چینلز کی وینز پہلے ہی وہاں موجود تھیں۔ اس طرح میڈیا کوریج بالکل مفت میں حاصل کر لی گئی۔ ایک طرف “فلاحی” کام کا تاثر دیا گیا اور دوسری طرف سیاسی جماعت کو اپنی تشہیر کے لیے ایک شاندار پلیٹ فارم مل گیا۔اتنے بڑے اجتماع میں صرف ایک تعلیمی ٹیسٹ نہیں ہو رہا تھا بلکہ یہ کسی سیاسی جلسے سے کم نہ تھا۔ جب ہزاروں افراد ایک جگہ اکٹھے ہوتے ہیں تو انتظامیہ کو پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو سیکیورٹی پر مامور کرنا پڑتا ہے۔ اس سے ایک تو ریاست کے وسائل پر بوجھ بڑھتا ہے اور دوسرا ایسے اجتماعات دہشتگردوں کے لیے آسان ہدف ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس لیے سیکورٹی ہائی الرٹ تھی۔
چند سال پہلے راولپنڈی میں پی ٹی آئی کے جلسے میں بھی اسی قسم کی صورتحال دیکھنے کو ملی تھی جہاں ایک عام سا رومال سو روپے میں ہینڈ/ ہیڈ بینڈ ، کیپس اور جھنڈے بیچے گئے تھے۔ ایسے اجتماعات میں عوام کے جذبات کا استحصال اور ان کے پیسے اور وقت کا ضیاع ایک عام بات ہے۔
ہمارے سیاست دان اور تنظیمیں ہمیشہ عوام کو سبز باغ دکھاتے ہیں۔ کبھی روزگار کے نام پر، کبھی تعلیم کے نام پر، اور کبھی خدمت کے نام پر۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کا اصل مقصد اپنی جماعت، اپنی تنظیم یا اپنے لیڈر کو نمایاں کرنا ہوتا ہے۔ عوام کو “ٹرک کی بتی” کے پیچھے لگانا ان کی پرانی حکمت عملی ہے۔
بنو قابل پروگرام بھی کچھ ایسا ہی لگتا ہے۔ ایک طرف “مفت کورس” کا نعرہ لگایا گیا۔ دوسری طرف پارکنگ کے نام پر لاکھوں روپے وصول کیے گئے۔ لوگ گھنٹوں تک گرمی اور دھوپ میں کھڑے ہو کر ا
ٹیسٹ کے منتظر رہے لیکن کسی کو یہ معلوم نہ تھا کہ آخرکار کتنے افراد کو فائدہ پہنچے گا۔
اگر یہ پروگرام واقعی عوامی خدمت تھا تواس میں سیاست سے پاک تقاریر ہونی چاہیے تھیں۔پارکنگ کے نام پر پیسے نہیں لینے چاہیے تھے۔
میڈیا کو صرف کورس کی معلومات دینے کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے تھا، نہ کہ جماعتی تشہیر کے لیے۔
لوگوں کو پہلے ہی واضح طور پر بتایا جانا چاہیے تھا کہ کتنے افراد کو منتخب کیا جائے گا تاکہ باقی 20، 22 ہزار لوگ دھوکہ نہ کھائیں۔
لیکن جب ان تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھا جائے تو یہ سوال جنم لیتا ہے کہ کیا واقعی یہ عوام کی خدمت تھی یا سیاسی سرمایہ کاری کا ایک نیا طریقہ؟
پاکستان میں عوام ہمیشہ ایسے پروگرامز کا شکار بنتی رہی ہے۔ کبھی یہ سیاست دانوں کے جلسوں میں سبز باغ دیکھتے ہیں، کبھی فلاحی تنظیموں کے نعروں میں۔ لیکن آخرکار ان کے ہاتھ کچھ نہیں آتا سوائے وقت اور پیسے کے ضیاع کے۔
الخدمت کا “بنو قابل پروگرام” بھی بظاہر ایک تعلیمی اور فلاحی قدم ہے، مگر اس کے پس پردہ کہانی بہت کچھ بیان کرتی ہے۔ عوام کے جذبات کا استحصال، ان کے پیسے سے کھیلنا، اور سیاسی تشہیر کو فلاحی کام کے پردے میں چھپانا۔۔۔ کیا یہ واقعی خدمت ہے؟ یا پھر عوام کو بیوقوف بنانے کا ایک اور طریقہ؟وقت بتائے گا کہ اس پروگرام کے نتائج کیا نکلتے ہیں مگر فی الحال یہ عوام کے لیے ایک سبز باغ سے زیادہ کچھ دکھائی نہیں دیتا۔